تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-12-2015

تقابل

فوج اور اہلِ سیاست کا تقابل کچھ لوگوں کا مرغوب مو ضوع ہے۔ نواز شریف یا راحیل شریف؟ ''شرفا‘‘ کے اس تقابل کی حکمت مجھ پر کبھی واضح نہیں ہو سکی۔ دونوں آخر ایک دوسرے کا متبادل کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایک کی تعریف کا مطلب، کیا دوسرے کی مذمت ہے؟ دونوں کی خوبیوں کا بیک وقت اعتراف کیا تناقض فی الامر ہے؟
یہ آج کی بات نہیں۔ کچھ ایسا ہی سلوک ہم تاریخ کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی عظمت ثابت کرنے کے لیے ہم ضروری سمجھتے ہیںکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیر کی جائے۔ گویا ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود ہے کہ دونوں بیک وقت بڑے لوگ نہیں ہو سکتے۔ جہاں مولانا آزاد اور مولانا مدنی کی خوبیوں کا اعتراف اتنا مشکل ہو وہاں یہ بات ماننا کم و بیش ناممکن ہے کہ گاندھی جی میں بھی کوئی خوبی ہو سکتی تھی۔ ادب میں بھی ہم یہی دیکھتے ہیں۔ غالب اور میر کیا بیک وقت عظیم نہیں ہو سکتے؟ غالب کے معجزانہ اسلوب کے اعتراف کے لیے اقبال کی تصغیر کیوں ضروری ہے؟ یہ رویہ حد سے مزید تجاوز کرتا ہے تو تاریخ و ادب کے میدان سے نکلتا‘ اور مذہب کے اقلیم میں جا قدم رکھتا ہے۔ پھر صحابہ اور اہلِ بیت کا تقابل شروع ہو جاتا ہے۔ اس تقابل نے ہم پر جو ستم ڈھایا ہے، اس کی داستان نسلوں پر محیط ہے۔ صدیوں سے دہکتے اس الاؤ کا ایندھن آج کا مشرقِ وسطیٰ بھی ہے۔
جنرل راحیل شریف ہمارے سپہ سالار ہیں۔ فوج کے ساتھ محبت وطن سے محبت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ محمد نواز شریف ایک سیاست دان ہیں۔ سیاست دان متنازعہ ہوتا ہے۔ اس کی حمایت کرنے 
والے ہوتے ہیں اور مخالفت کر نے والے بھی۔ فوج کی محبت سیاسی تقسیم سے ماورا ہوتی ہے۔ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ فوج کو سیاسی تقسیم سے ماورا رکھا جائے۔ اس کی ایک ہی صورت ہے۔ وہ سیاسی کشمکش میں فریق نہ ہو۔ یہ فوجی قیادت کی ذمہ داری ہے اور سیاسی قیادت کی بھی۔ ہم نے ماضی میں اس نکتے کو نظر انداز کیا۔ اس نے فوج کو متنازعہ بنایا۔ محمد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کا تقابل کرنے والے، اسی تاریخ کودہرا رہے ہیں۔ فوج کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر، اس ادارے کو مشرف عہد کے سائے سے نجات دلائی۔ کیا وہ پھر اسی وقت کو آواز دینا چاہتے ہیں؟
موجودہ دور میں جمہوریت کی مخالفت مشکل ہے۔ آمریت کی تائید کر کے، خود کو مہذب ثابت کرنا آسان نہیں۔ لوگ یہ کام اب حیلوں سے کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صبح شام اہلِ سیاست کی مذمت کی جائے۔ انہیں اتنا برا ثابت کیا جائے کہ لوگ جمہوریت ہی سے بیزار ہو جائیں۔ بحث کا محور یہ سوال ہو کہ جمہوریت نے ہم کو کیا دیا؟ جب اس کا جواب نفی میں آئے گا‘ تو پھر بحث خودبخود اگلے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ پھر کہا جائے گا کہ ہے تو بری چیز مگر اب معاملات کو فوج ہی کے حوالے کرنا پڑے گا۔ ہے تو برائی مگر ناگزیر۔ یہ تقابل مجھے لگتا ہے کہ بحث کو کسی اورسمت میں لے جا رہا ہے۔
جس طرح جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی فوج کی ساکھ برباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اسی طرح 'سیاست کے جرنیل‘ بھی اپنے کارناموں سے جمہوریت کے خلاف مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم جیسوں نے اپنے اعمال سے جو گواہی دی، اس نے جمہوریت کو وقت کی عدالت میں دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ کیا ڈاکٹر عاصم جیسوں کی وجہ سے جمہوریت اور سیاست کو مسترد کر دیا جائے؟ اگر مشرف اور فوج کو جدا کیا جا سکتا ہے تو عاصم اور جمہوریت کو کیوں الگ نہیں کیا جا سکتا؟ اگر اہلِ سیاست کا ایک گروہ ناکام ہوا تو اس کا متبادل تلاش کیا جانا چاہیے اور ظاہر ہے انہی کے طبقے سے۔
یہ تقابل کیوں ہے؟ عام آدمی کی سطح پر تو یہ بات قابلِ فہم ہے۔ اسے صدیوں سے یہی سمجھایا گیا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کوئی ایک نجات دہندہ آیا اور اس نے پوری قوم کو اٹھا دیا۔ اسے آج بھی کسی مردِ غائب کا انتظار کرنا چاہیے یا اسے تلاش کرنا چاہیے۔ ان لوگوں کے بارے میں لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی جو سیاستِ حاضرہ اور علمِ سیاسیات پر نظر رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ انسانی تہذیب افراد کے عہد سے نکل کر اداروں کے دور میں داخل ہو چکی؟ آج انفرادی بصیرت کی جگہ اجتماعی بصیرت نے لے لی؟ یہاں تک کہ فوج بھی آج ایک ادارہ ہے۔ اس کی کامیابیوں کو کسی فردِ واحد سے منسوب کرنا خلافِ واقعہ ہے۔ سیاست یا اجتماعی اداروں کے معاملات شاعری یا مصوری نہیں ہیں۔ سیاست و معیشت فنونِ لطیفہ نہیں ہیں۔ یہ ریاضی بھی نہیں ہیں کہ ایک فارمولے سے ہر جگہ ایک جیسے نتائج مل سکیں۔ جس معاملے کا تعلق اجتماعیت کے ساتھ ہے، وہ اجتماعی دانش ہی سے طے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک اقدام ایک جگہ درست ہے تو لازم نہیں کہ دوسری جگہ بھی اس سے وہی نتائج نکلیں۔
فوج دنیا بھر میں شریک مشاورت ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف تو بطورِ خاص اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی حکومت نے جب پہلے اقدام کا ارادہ کیا تو جنرل اشفاق کیانی صاحب سے مشاورت کی۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی کامیابی کا امکان کتنا ہے۔ یہ بات وہی بتا سکتے تھے۔ فیصلہ ظاہر ہے کہ سیاسی حکومت کو کرنا تھا کیونکہ عامتہ الناس کی نمائندگی وہی کرتی ہے۔ وہ فوج کو اندھا دھند کسی ایسے معرکے میں کیسے دھکیل سکتی ہے‘ جس میں جانوں کا ضیاع ہو لیکن فتح آپ کے نام نہ ہو۔ دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے اور یہی کامیاب ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں امریکہ کے عسکری اداروں نے تیاری کی۔ انٹیلی جنس سے لے کر آپریشن تک، ہر مرحلے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فیصلہ صدر اوباما نے کیا۔ اداروں نے اسے عملی صورت دی۔ اب اس کے نتائج کی تمام ذمہ داری بھی سیاسی قیادت اٹھاتی ہے۔ کارگل آپریشن فوجی قیادت نے کیا اور بغیر مشورے کے۔ اس کے باوجود نتائج سیاسی قیادت ہی کو بھگتنا پڑے۔
سیاسی حرکیات کے تقاضے مختلف ہیں۔ فوج سے ریٹائرڈ افراد جب سیاست میں آتے ہیں تو ان کا رویہ کسی طور روایتی سیاست دانوں سے مختلف نہیں ہوتا۔اس وقت بھی کئی جرنیل پارلیمنٹ اور کابینہ کا حصہ ہیں۔ اب وہ جان چکے کہ سیاست کے تقاضے کیا ہیں؟ یہی نہیں، فوج کی کمان ہاتھ میں رکھنے والے جرنیل جب اقتدار میں آتے ہیں تو کسی طور سیاست دانوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ کیا کوئی جنرل مشرف کو نواز شریف سے بہتر حکمران قرار دے سکتا ہے؟ سندھ میں جو لوگ رینجرز کو سیاسی حکومت کا متبادل بنا کر پیش کر رہے ہیں، وہ اسی بات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ 
موجودہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ان پر تنقید بھی ہو سکتی ہے‘ مگر ان کا تقابل کسی غیر سیاسی ادارے سے نہیں ہو سکتا۔ یہی معاملہ افراد کا بھی ہے۔ تقابل مختلف شعبوں کے 'شرفا‘ کے مابین نہیں، ایک شعبے کے شرفا میں ہونا چاہیے۔ رینجرز کو سیاسی حکومت نے بلایا ہے۔ اس کے اختیارات کا فیصلہ سیاسی حکومت ہی کرے گی اور ان کا مقدمہ بھی اسی کو لڑنا ہے۔ یہ معاملہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین ہونا چاہیے۔ رینجرز اور صوبائی حکومت کے مابین نہیں‘ چنانچہ اگر ضرورت پڑے تو وفاقی حکومت کو عدالت میں رینجرز کا مقدمہ لڑنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved