تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     21-12-2015

کراچی آپریشن کا نیا دور

کراچی میں امن و امان کی بہتری کا باعث کسی ایک ادارے یا اس کو دیے گئے اختیارات نہیں‘ بلکہ وہ سیاسی اتفاق رائے ہے جو وفاقی حکومت نے 2013ء میں پیدا کیا۔ اس اتفاقِ رائے نے سندھ رینجرز کو وہ اعتماد دیا‘ جس کی بدولت اس نے کراچی کو امن سے ہمکنار کیا۔ اب شہر میں روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ بھی نہیں ہو رہی، لیاری گینگ وار بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے، بھتے اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم بھی خاطر خواہ حد تک کم ہو گئے ہیں۔ آپ اسے کچھ بھی کہہ لیں‘ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں رہنے والا ہر شخص کسی نہ کسی طور پر اپنی نسلی، لسانی اور سیاسی شناخت پر اصرار کرتا ہے، اس لیے امن و امان کی کارروائی سے لے کر شہر میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش تک کوئی بھی کام سیاسی بندوبست کو نظر میں رکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ شہر کے انہی سیاسی خطوط کو مدنظر رکھ کر وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں سیدھے سبھاؤ حکومتی طاقت کے استعمال سے پہلے ایک ایسا سیاسی ماحول بنایا جس میں ہر فریق آپریشن کی سختی برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ یہی سیاسی ماحول تھا کہ جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا گیا، اس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمے بنے اور کئی کارکنوں کو صرف شک کی بنیاد پر قید میں ڈالا گیا۔ اس نے احتجاج کیا‘ لیکن اس نے اس اتفاق رائے سے خود کو الگ نہیں کیا جو کراچی میں امن کے لیے کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم نے تو یہ سب کچھ برداشت کر لیا‘ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب آپریشن کے دوسرے سال میں پیپلز 
پارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اس کا نشانہ بنے۔ پیپلز پارٹی بھی شاید یہ سب کچھ برداشت کر جاتی‘ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ کوئی سوچ سمجھ کر میڈیا پر یہ مہم چلا یا چلوا رہا ہے کہ سندھ صوبائی حکومت دراصل چوروں اور ٹھگوں پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کے لیے خاموش رہنا ممکن نہ رہا اور آصف علی زرداری بول پڑے۔ ان کے بولنے کے بعد خیال تھا کہ اب معاملات میں کچھ سلیقہ مندی نظر آئے گی‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا‘ اور ڈاکٹر عاصم پر ہاتھ ڈال دیا گیا‘ جس سے یہ خیال ابھرا کہ آصف علی زرداری کو ان کی تند و تیز تقریر پر سزا دی جا رہی ہے۔ جلتی پر تیل یوں گرا کہ پھوہڑ تفتیش کار کچی پکی تفتیش روزانہ کی بنیاد پر اخبار نویسوں اور ٹی وی رپورٹروں کو مہیا کرنے لگے۔ ان تفتیشی نشریوں سے جو تصویر بنی وہ کچھ اس طرح تھی کہ ڈاکٹر عاصم نے کچھ ایسے ثبوت فراہم کر دیے ہیں‘ جن کی روشنی میں اگلی گرفتاری پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہو گی۔ اس پر بھی پیپلز پارٹی کچھ نہ کرتی تو سیاسی جماعت کہلانے کی مستحق نہ رہتی۔
پیپلز پارٹی نے اس اتفاق رائے سے نکلنے کے لیے ڈاکٹر عاصم کا نوے روزہ ریمانڈ ختم ہونے کا انتظار کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ عدالت میں کیا ثبوت پیش کیے جاتے ہیں۔ جب رینجرز کی تحویل میں کی گئی تفتیش عدالت کی سان پر چڑھی تو محسوس ہوا کہ اس میں کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں جو ڈاکٹر عاصم کو دہشت گردوں کا مددگار و معاون ثابت کر سکے۔ غالباً یہیں سے سندھ حکومت کا اعتماد بڑھنا شروع ہوا‘ اور وہ رینجرز کو محدود کرنے کی راہ پر چل پڑی۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت مل جاتے تو حالات کچھ اور ہوتے، لیکن ان پر بنائے گئے مقدمے کی کمزوری نے کراچی آپریشن میں رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کے جو دلائل مہیا کر دیے‘ وہ شاید اتنے مضبوط ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی ان کا توڑ نہیں کر سکے۔ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارا نہیں کہ وہ رجز پڑھتے رہیں، دھواں دھار تقریریں کرتے رہیں اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اظہارِ تشویش کریں۔ 
چودھری نثار علی خان کی ناراضی اور رینجرز کے تحفظات کی بنیاد ان کا یہ تجزیہ ہے، جس کے مطابق سندھ اسمبلی سے اختیارات میں کمی کی قرارداد کی منظوری کے بعد کراچی آپریشن کی رفتار و وسعت کم ہو جائے گی۔ اس استدلال میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ اپنے اور اپنی وزارت کے ماتحت فورس کے لیے اختیارات کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا پاتے کہ کسی ہائی پروفائل گرفتاری کے بعد عدالت میں قابل قبول ثبوتوں کی عدم فراہمی کی صورت میں کون ذمہ دار ہو گا۔ ایک دستوری اور جمہوری ملک میں یہ نہیں ہو سکتا کہ شک کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھا کر ان کے خلاف میڈیا پر نوے روزہ مہم چلائی جائے اور عدالتوں میں ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ کیا جا سکے۔ تجربے نے ثابت کر دیا ہے کہ کرپشن اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کو عدالتوں میں ثابت کرنا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ممکن نہیں اور خدانخواستہ یہ ان کی کمزوری نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بہترین تفتیشی ادارے بھی عام طور پر اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے رینجرز اگر ایسا نہیں کر پائے تو اس پر غصے میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کی کمزوریوں سے بچا جا سکے۔ کرپشن یا ناجائز پیسے کے سدباب کے لیے دوسرے ادارے موجود ہیں، رینجرز کی کامیابی کا پیمانہ بدعنوانی کا خاتمہ نہیں بلکہ بدامنی کا خاتمہ ہے اور سندھ اسمبلی کی قرارداد انہیں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا کارو ں اور فرقہ پرستوں سے نمٹنے کا پورا مینڈیٹ دیتی ہے۔ دہشت گردی کی فنانسنگ اور دہشت گردوں کی بالواسطہ امداد کے معاملات میں کئی طرح کی قانونی پیچیدگیاں ہوتی ہیں جن میں الجھ کر مسائل تو پیدا ہو سکتے ہیں کام نہیں ہو سکتا۔ وفاقی وزارت ِ داخلہ اگر واقعی کچھ کر دکھانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان پیچیدہ معاملات کے لیے کوئی خصوصی سیل بنائے جس کے لوگ پوری عرق ریزی سے تفتیش کریں اور جب کسی پر ہاتھ ڈالیں تو اتنا پکا ڈالیں کہ بڑے سے بڑا وکیل بھی چالان میں کوئی رخنہ تلاش نہ کر سکے۔ کسی حد تک یہ درست ہے کہ سندھ اسمبلی کی قرارداد نے کسی درجے میں رینجرز کے اختیارات محدود کیے ہیں، لیکن اس کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ تیس سال میں پہلی بار سندھ اسمبلی متفقہ طور پر رینجرز کی پشت پر کھڑی ہے۔ ہماری یہ قابلِ فخر فورس اب وزیر اعلیٰ کے انتظامی حکم کے تحت کام نہیں کر رہی بلکہ سندھ اسمبلی کی قرارداد کے تابع زیادہ طاقتور ہو کر کام کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کراچی میں بنیادی کام کرپشن کا سراغ لگانا نہیں بلکہ گولی چلانے والے ہاتھوں کو روکنا ہے۔ 
کراچی آپریشن جب شروع ہوا تھا تو حالات اور تھے، آج دو سال بعد حالات بدل چکے ہیں۔ اب شہر میں متحدہ قومی موومنٹ بلدیاتی حکومت تشکیل دینے کے مرحلے میں ہے، پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ بلدیاتی انتخابات جیت کر پہلے سے بڑھ کر پر اعتماد ہو چکی ہے۔ اس لیے ان کی بات کو وزن دیے بغیر کام چلانا مشکل ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved