ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے ایک قومی انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ ہم نے بنگالیوں کو ان کے حقوق نہ دے کر بھارت کو مداخلت کی دعوت دی تھی ۔چلیں ایک لمحے کے لیے ان کی بات درست مان لیتے ہیں کہ بنگالی عوام کو ان کے حقوق نہیں دیے گئے تھے اور بقول ان کے بنگالیوں کا اپنے حقوق کے لیے ہتھیار اٹھانا بالکل جائز اور درست تھا اور بھارتی حکومت کی بنگالیوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے مشرقی پاکستان میں مداخلت بھی جائز تھی ۔۔۔تو پھر ڈاکٹر صاحبہ اور ان کے ہم خیال دوسرے پاکستانی دانشور اور صحافی کشمیریوںکے حق خودارادیت کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟اقوام متحدہ اور بھارت کے پنڈت نہرو کی جانب سے تسلیم کئے گئے حق رائے دہی کے لیے کشمیریوں کو دی جانے والی اخلاقی مدد پر ناک بھوں کیوں چڑھانا شروع ہو جاتے ہیں؟ اگر آپ انسانی حقوق اور رائے شماری کا غصب کیا گیا جمہوری حق کشمیر یوں کے لیے تسلیم نہیں کرتے تو پھر بھارت کی بنگلہ دیش میں مداخلت کو جائز کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ مشرقی پاکستان میں 44 سال قبل بھارت کی قتل و غارت کے ترانے گانے والے ''پاکستانی‘‘ وہ الفاظ اور الزامات جو پاکستان کی آمریت اور کشمیر میں در اندازی کے حوالے سے آج تک لگاتے‘ لکھتے اور سناتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے ‘وہ الفاظ بھارت کے لیے کہتے ہوئے ان کی زبانوں اور قلم پر تالے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ بنگالی عوام کی اپنے حقوق کے لیے جدو جہد اگر ان لوگوں کی نظر میں جائز تھی تو پھر کشمیری اگر اپنی آزادی اور حقوق کے لیے جدو جہد کررہے ہیں ‘ کیسے ناجائز ہے؟ دنیا کا وہ کونسا ظلم ہے جو ان پر ڈھایا نہیں جا رہا۔ کشمیری خواتین کی بے حرمتی پر عالمی میڈیا اور دنیا بھر کی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں نہ جانے کب سے چیخ پکار کر رہی ہیں، لیکن نہ جانے ان لوگوں کو یہ عالمی چیخ پکار سنائی کیوں نہیں دے رہی ۔ اب تک کشمیر کے ہزاروں نو جوا ن بیٹوں اور بیٹیوں کو لاپتہ کیا جا چکا ہے ‘ان کے لیے پاکستان کے دانشور اور ہیومن رائٹس کے بڑے بڑے چیمپئن آواز اٹھاتے ہوئے کیوں شرما تے ہیں ؟ افسوس صرف ایسے لوگوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈا میں بہہ جانے والے ان پاکستانیوں پر بھی ہوتا ہے جو بھارت اور مغربی میڈیا کی جانب سے سولہ دسمبر سے پہلے اور بعد میں پاکستان کی فوج کی اخلاقی گراوٹ کے بارے میں نت نئی کہانیاں اور افسانے گھڑتے رہتے ہیں اور جو مارچ1971ء سے اب تک مختلف واقعاتی رنگوں سے سنائے اور لکھے جا رہے ہیںاور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے میں نہیں آ رہا ۔افسوس اس وقت بھی ہوتا ہے جب آج کی نسل اس کو سچ مان لیتی ہے ۔
سبھاش چند ربوس کا خاندان شرمیلا بوس کی شکل میں بنگلہ دیش میں بھارت کی مکتی باہنی کی جانب سے غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بر بریت کے وہ پردے اٹھا رہا ہے کہ انسانیت رونے چیخنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔جب بھارت کا ہر وزیر اعظم بڑے فخر سے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ بنگلہ دیش اس نے بنایا ہے تو سوچئے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کیا کیا حربے استعمال نہیں کئے ہوں گے!پاکستان کی فوج کے ہاتھوں بنگالی خواتین کی آبرو ریزی کے وہ وہ افسانے اور الزامات تراشے گئے کہ انسانیت بھی الزامات گھڑنے والوں کی اس مذموم حرکت پر شرما تی رہی اور اگر شرم نہ آئی تو چانکیہ کے ان چیلوں کو، جو مشرقی بنگال کی بیٹیوں کو اپنے غلیظ پروپیگنڈے کے لیے چارہ بناتے رہے ۔۔۔ عوامی لیگ اور بھارتی کارٹل نے دنیا بھر میں بنگالی عورتوں کی جبری آبرو ریزی اور 30 لاکھوں بنگالیوں کے قتل عام کے جھوٹ اس تسلسل سے سنوائے کہ پورا مغرب اور امریکن سو سائٹی پاکستان کے خلاف ایک آواز ہو کر کھڑی ہو گئی۔ یہ الزام شیخ مجیب الرحمان نے بی بی سی کے نمائندے ڈیوڈ فراسٹ کو ایک انٹر ویو میں خود بتائے لیکن اس وقت بنگلہ دیش میں مو جود تجزیہ نگاروں، غیر جانبدار بیرونی میڈیا اور ہیومن رائٹس کے عالمی اداروں نے اس تعداد کو کسی بھی صورت درست ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں بھارت نے جدید اسلحے سے مسلح '' جاتیو راکھی باہنی‘‘ کے ذریعے دہشت گردی شروع کرائی تو اسے روکنے کے لیے پاکستان کی صرف2 ڈویژن فوج تھی جو پورے مشرقی پاکستان میں تعینات تھی۔ اس قدر کم تعداد میں کوئی بھی فوج اس وسیع پیمانے پر قتل عام کر ہی نہیں سکتی ۔لاکھوں بنگالی خواتین کے حاملہ ہونے اور تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کی کہانیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے بنگلہ دیش کی صرف شرمیلا بوس ہی نہیں بلکہ بھارت
کے ہی ایک جنرل بھی پاکستانی فوج کے لیے صفائی کا گواہ بن کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ بھارتی فوج کے سینئر جنرل پیلت کے بقول عوامی لیگ کے پردے میں بھارت نواز دہشت پسندوں کے گروہ کی دہشت گردی کے خاتمے اور مشرقی پاکستان میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف پاکستانی فوج کے خلاف بھارت کے فوجی اداروں اور میڈیا نے باقاعدہ ایک سپیشل سیل قائم کر رکھا تھا۔1971ء میں پاکستانی فوج اپنی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے دفاع کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے دور ان ایک جانب عوامی لیگ اور بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہی تھی تو ساتھ ہی اسے لاکھوں بہاریوں کو بچانے کے لیے بھی سر دھڑ کی بازی لگانا پڑ رہی تھی۔ پاکستانی فوج کے خلاف بھارت کی تیار کی جانے والی حکمت عملیوں کے گوکہ اور بھی بہت سے پہلو تھے لیکن اس کردار کشی کا توڑ کرنے کے حوالے سے بد قسمتی سے پاکستان میڈیا کے محاذ پر مار کھا چکا تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کے انگریزی میڈیا کا بہت بڑا حصہ ترقی پسندوں پر مشتمل تھا، جن کی ہمدردیاں عوامی لیگ کے ساتھ تھیں اور اسے بد قسمتی ہی کہیے کہ یہ بھارتی پروپیگنڈے میں بہہ کر اپنے ہی گھر کو مطعون کیے جا رہے تھے۔
بھارتی سرکار کے پھیلائے گئے جھوٹوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بھارتی جنرل پیلت اپنی کتابThe Lighting Campaign میں یہ لکھتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ '' مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے اور مشرقی پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستانی فوج کے خلاف ہماری کامیابی میں اخلاقی عنا صر کا بھی بہت بڑا حصہ تھا ۔ہماری ایجنسیوں اور اطلاعات سے متعلق ادارے پاکستانی فوج کے خلاف بنگالیوں کے جان و مال کی لوٹ مار، آبرو ریزی، قتل عام اور غیر انسانی تشدد کا پروپیگنڈا اس قدر بڑھا چڑھا کرکرتے رہے کہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسر سے لے کر ایک سپاہی تک کی قدر و قیمت بحیثیت انسان سب کی نظروں میں ختم ہو کر رہ گئی تھی ۔ہمارے اداروں کی جانب سے بنگلہ دیش میں پنجابی فوج کے خلاف انسانی جرائم کے عالمی پروپیگنڈا سے ‘ انہیں انسانیت کے درجے سے خارج قرار دینے کی ہماری اور ہمارے اتحادیوں کی مؤثر کوششوں سے ایک جانب اگر ان کے مورال کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا تھا تو ساتھ ہی بنگالی عوام کے ذہنوںمیں پنجابی فوج کے نام سے نفرت کا شعلۂ جو الہ بھڑکا دیا گیا تھا ۔پندرہ سے پچیس سال تک کے بنگالیوں کے ذہن میں ایک ہی مشن تھا کہ سامنے آنے والے ہر پنجابی کو جلا کر راکھ کر دیا جائے اور یہ سب کچھ بھارت کے پھیلائے گئے اس پروپیگنڈا کی وجہ سے تھا جس نے بنگالیوں کو انتقام کا لاوا بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے جہاں ایک جانب اسلحہ کی ضرورت لازمی ہے وہاں دشمن کے مورال کو تباہ کرنا اور ان کے ہی عوام کو ان کے سامنے لا کھڑا کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اور طریقے سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں‘‘۔
اگر ترقی پسند لوگ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کا قتل عام اور خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کے واقعات پیش کرنے سے پہلے ایک بار جنرل پیلت کی یہ کتاب پڑھ لیں تو شاید وہ حقائق سے سمجھوتہ کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں ۔