تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-12-2015

آزمائش

پہلا اسم سیکھتے ہوئے، پہلا آدم جس مسرّت سے دوچار ہوا ہوگا، آج اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا معلّم، سیکھنے، سمجھنے والا پہلا ذہن۔ اس سے قبل اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود کائنات گمنامی کے اندھیرے میں پڑی تھی۔ اب پہلی بار ایک باشعور مخلوق ہر شے کو ایک نام دے رہی تھی۔ ستاروں کے مرکز میں جنم لینے والے چمکتے دمکتے قیمتی عناصر، ان کا باہمی ربط ملاحظہ کیا جا رہا تھا۔ آدم سیکھ رہا تھا۔ وہ عناصر کی مثبت، منفی خصوصیات کا احاطہ کر رہا تھا۔ کچھ دیر کو معرکہء خیروشر برپا ہونے کو تھا۔ ایک نیلی زمین آباد ہونا تھی۔ ایک کمزور مخلوق کو آزمائش سے گزرنا تھا۔ 
بہرحال، آدم کی زندگی بہت مختلف تھی۔ خیروشر کے ماخذ اپنی آنکھ سے انہوں نے دیکھے تھے۔ عظیم معلم سے سیکھ کر، اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ شیطان کوجہالت، زعم اور تکبر کا مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ براہِ راست خدا سے احکام وصول کیے تھے۔ اس زمانے میں یوں اس قدر حجاب ہرگز نہیں تھے۔ سبھی کچھ تو عیاں تھا۔ امانتِ عقل پیش ہوئی تو فوراً ہی آدم نے یہ حسین و جمیل تحفہ سینے سے لگا لیا۔ بہت خوبصورت چال چلنے والی، نرم و نازک، حسین عقل، جو بند دروازے کھولنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
خدا کے حضور سارے عناصر زندہ تھے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ پہاڑ دائود علیہ السلام کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کیا کرتے۔ کائنا ت میں آج تک انسان کل 92 عناصر کا سراغ لگا پایا ہے۔ آج وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے جسم سے لے کر، شجر، ستارے، پانی اور تیل، غرض ہر شے انہی 92 عناصر کے باہمی اشتراک سے بنی ہے۔ مثلاً درخت، کوئلہ، تیل اور گیس سب کاربن ہیں۔ مثلاً پانی سارے کا سارا ہائیڈروجن اور آکسیجن ہے۔ یہی ہائیڈروجن کائنات کا سب سے وافر اور بنیادی عنصر ہے۔ مثلاً ہم انسانوں کے جسم میں آکسیجن ہی سب سے وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ یوں یہ بات اب عجیب نہیں لگتی کہ خدا کہتا ہے کہ اس نے امانت (عقل) پہاڑوں کے سامنے رکھی، آسمانوں اور زمین کے سامنے رکھی۔ ان سب نے انکار کر دیا۔ ادھر حضرتِ انسان فوراً آگے بڑھا اور اسے گلے سے لگا لیا۔ 
آکسیجن، ہائیڈروجن اور لوہا، سب عناصر زندہ ہیں۔ ہم بھی انہی عناصر سے بنے ہیں۔ کم و بیش 90 فیصد انسان آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن اور کیلشیم کے آمیزے سے بنا ہے۔ جانور بھی انہی سے بنے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسانی سر کے اوپر والے حصے میں یہ عناصر ایک ایسی خاص ترتیب سے جڑے ہیں، دنیا میں جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی انسانی شعور ہے۔ یہی عقل ہے۔ اسی کا حساب ہونا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دماغ کے نیچے والے حصوں میں نفسِ انسانی چھپا بیٹھا ہے۔ مخالف جنس کی محبت، جذبات، نفرت اور انتقام۔ 
آج قحط اور خانہ جنگی کے مارے افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ٹھوکریں کھاتے پناہ گزینوں کو تو چھوڑیے، میں اپنی ذات کو دیکھتا ہوں تو پکار اٹھتا ہوں: ہائے بیچارہ انسان! والدین، اولاد، رشتوں سے آزمایا جانے والا انسان (وہ سب بھی ہمارے ذریعے آزمائے جا رہے ہیں) رزق کی تلاش، بیماری، رشتوں سے پہنچنے والی تکالیف، زندگی کی بنیادی ضروریات۔ ان ضرورتوں سے جو اوپر اٹھ گئے، وہ دوسری قسم کی پریشانیوں کا شکار ہوئے۔ یہاں یہ بات ہرگز نہیں کہ دولت والے نہیں آزمائے جا رہے۔ ہر ایک اپنی قوت، ہمت، استطاعت کے مطابق تکلیف سے گزارا جا رہا ہے۔ 11ہزار ماہوار پہ بارہ گھنٹے نوکری کرنے والا شوکت خاندانی تنازعات سے نمٹ رہا ہے۔ کروڑوں روپے ماہانہ کا کاروبار کرنے والا حمزہ قاسم حفیظ دس برس سے اپنے والد کو زندگی اور موت کی کشمکش سے گزرتا دیکھ رہا ہے۔ وہ ان امیر لوگوں میں سے نہیں، جو عیش و عشرت کی دلدل میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کا شاگرد ہے۔ خدا کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اپنے ملازموں سے نرمی کرتا ہے لیکن آزمائش ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ 
یہاں میں یہ سوچتا ہوں کہ بڑے کاروباری حضرات، سیاسی اشرافیہ شاید عافیت میں ہو؟ پھر خیال آتا ہے کہ یہ ایک سراب ہے۔ چوہدری شجاعت حسین پارکنسن کی لاعلاج بیماری سے گزر رہے ہیں۔ لاعلاج بیماریوں کی دعا اللہ نور السمٰوٰت والارض ہے۔ خالد مسعود خان سمیت کئی لوگوں کو اس دعا سے شفایاب ہوتے دیکھا ہے۔ شریف برادران کے اعصاب پہ عمران خان سوار ہے، کپتان کے اعصاب پہ شریف برادران۔ ساری سیاسی اشرافیہ کو ہر دم یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ وہی نجات دہندہ ہیں۔ باقی ملک لوٹ کر کھانے والے درندے۔ حکمران خاندان تفکرات سے آزاد نہیں۔ اپنی اپنی اولاد کو سیاسی جانشین بنانے کی تگ و دو۔ پھر بیماری آ لیتی ہے اور وہ لندن کا رخ کرتے ہیں۔ ذوالفقار مرزا اور تنویر زمانی سمیت، بھانت بھانت کے کردار ٹی وی پر نمودار ہوتے اور آصف علی زرداری پر ایک کے بعد دوسرا الزام عائد ہوتا ہے۔ 
انسانی آرزوئوں کی آخری حد کوئی نہیں۔ ہر ایک کو انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ سکون ناپید، خدا پسِ حجاب۔ زمینی عقل محدود ہے۔ پانچ حسوں تک محدود، بس اتنی ہی، جتنی کہ آپ چار ٹانگوں والے جانوروں میں دیکھتے ہیں۔ زندگی کی بقا تک محدود۔ ایک آسمانی عقل انسان کو عطا ہوئی ہے، خود خدا نے جس پر ناز کیا ہے۔ یہی وہ کلید ہے، جو بند دروازے کھول سکتی ہے۔ آدمی غور و فکر کرتا ہے، خدا تک پہنچتا ہے، خود اپنے اندر جھانکتا ہے۔ فسانہء زندگی سمجھتا ہے۔ اپنی آزمائش پہ غور کرتا ہے اور راضی ہو جاتا ہے۔ 
میرے جیسے جو لوگ یہ نہیں کرتے۔ آزمائش سے جو تنگ آ جاتے ہیں۔ جو رشتوں سے پہنچنے والی تکلیف پہ گلہ کرتے ہیں۔ جو اپنے سے برتر لوگوں کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، دراصل وہ بندوں نہیں، خدا سے شکایت کرتے ہیں۔ وہ ذرا گہرائی میں زندگی اور کائنات پہ غور نہیں کرتے۔ وہ یہ دیکھتے نہیں کہ کائنات قیمتی عناصر سے بھرپور ہے، جب کہ ہم ایک چھوٹے سے سیارے کے محدود وسائل میں پیدا کیے گئے ہیں۔ یقینا ہم ایک بڑے امتحان سے گزار ے جا رہے ہیں۔ جو لوگ اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، وہ راضی اور پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ شکر ادا کرتے ہیں۔ زمین پر اپنا عرصہء امتحان صبر سے گزارتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں، نتیجہ خدا پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں بھی خدا کے حضور جب ہم یہ شکوہ پیش کریں گے کہ اپنا پیٹ بھرنے کی جدوجہد سے آزادی نہ ملی، کب ہم تجھے یاد کرتے۔ وہ یہ کہے گا کہ ایک تو ہی تو نہیں، میں نے گلی کے آوارہ کتوں کو بھی رز ق دیا۔ خوردبینی جاندار پالے۔ سمندروں کی گہرائی میں مچھلیاں پالیں۔ کئی ملین مخلوقات کو پالنے والا رب ہی تجھے رزق بہم پہنچا تا تھا۔ وہ یہ کہے گا کہ اس نے کافی وقت دیا تھا۔ اس طویل زندگی میں، کہیں وہ ایک لمحہ نکال لا، جہاں تیرا دل میرے لیے دھڑکا ہو۔ امید ہے کہ ایسا ایک نہ ایک لمحہ ضرور ہماری زندگیوں میں گزرا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved