ایک وہ پیپلز پارٹی تھی جس نے پورے مغربی پاکستان میں عوام کی مایوسیوں کو امیدوں میں بدل دیا تھا۔ بھٹو صاحب کے روپ میں عوام کو ایک نجات دہندہ نظر آیا۔ جاگیرداروں‘ چوہدریوں اور ڈیرہ داروں کی معاشرے پر گرفت تھی۔ ابتدا سے یہ طبقے ہمیں ورثے میں ملے تھے۔انگریز فساد کی بنیادیں رکھ کر‘ آرام سے رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد انتہا پسندوں اور نفرت کے سوداگروں نے پنجاب میں خصوصاً خون کی ہولی کھیلی۔ باقی چیدہ چیدہ مقامات پر فساد ہوئے۔ ہمارے حصے میں جو علاقے آئے تھے‘ ان پرجاگیرداروں‘ ساہو کاروں‘ سرداروں اور قبیلوں کے سربراہوں کا غلبہ تھا۔ یہ انگریز کے پیدا کئے ہوئے حکمران طبقے تھے۔ ظاہر ہے چند ماہ یا چند سالوں کے اندر‘ صدیوں میں تشکیل پایا ہوا معاشرہ تو بدل نہیں سکتا۔ بھارت جس کے پاس کہنہ مشق سیاسی قیادت اور انتہائی پڑھے لکھے لیڈر موجود تھے‘ وہ کتابی طور پر‘ جمہوری معاشرے کی بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اصل زندگی میں وہاں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ معاشرہ جوں کا توں رہا۔ بالادست طبقوں کی گرفت برقرار رہی۔ چند شہروں کو چھوڑ کر‘ باقی سارے بھارت میں راجوں‘ مہاراجوں‘ پٹیلوں‘ ساہوکاروں اور جاگیرداروں کی بالادستی تھی۔ وہاں کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے‘ بھارت کے ساتھ یہ نیکی ضرور کی کہ انہوں نے راجوں‘ مہاراجوں کی ریاستیں ختم کر کے‘ براہ راست حکومت کے کنٹرول میں دے دیں‘ جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا مالدار طبقہ پیدا ہو گیا‘ جس کے پاس اپنی پولیس اور دیگر محکمے موجود تھے‘ اگر یہ ریاستیں برقرار رہتیں تو بھارت میں سیاسی اجارہ داریوں کا سب سے طاقتور طبقہ موجود رہتا‘ جو گٹھ جوڑ کر کے‘ وہاں انتخابات کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرتا رہتا۔ پاکستان میں جو چند ریاستیں رہ گئی تھیں‘ ان کے حکمران‘ سیاسی طور پر 600 ریاستوں کے راجوں اور مہاراجوں کی طرح نہ تو سیاسی عمل کا حصہ بنے اور نہ ہی انہیں جدید دور کے طرز حکمرانی کا تجربہ تھا۔ سب سے بڑی ریاست‘ بہاولپور کے حکمران نے‘ قیام پاکستان کو خلوص دل سے قبول کیا اور بڑھ چڑھ کر فراخ دلی سے اپنے وسائل‘ نئے ملک پاکستان کے سپرد کر دیے۔ اس سلسلے میں بہت سی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ قائد اعظمؒ جس کار میں گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے تھے‘ وہ انہیں نواب آف بہاولپور نے پیش کی تھی۔ بعد میں یہی کار ان کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دی گئی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے ہمیں‘ہمارے حصے کا سونا دینے سے انکار کر دیا تھا‘ نواب آف بہاولپور‘ نے اپنی ریاست کا سونا بھی قائد اعظمؒ کے سپرد کر دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نئی ریاست کو اور بھی بہت کچھ دیا۔ دیگر چند ریاستوں کے سربراہ‘ مرکزی حکومت کی مزاحمت کے قابل نہیں تھے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ حل ہو گیا لیکن بھارت میں کئی ریاستوں کے راجے اور مہاراجے‘ سیاست میںسرگرم رہے۔ ان کی ریاستیں چھن گئیں لیکن اقتدار کے کھیل سے انہیں باہر نہ کیا جا سکا۔ آج بھی راجستھان کی وزیر اعلیٰ ایک ریاستی حکمران خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھارتی پنجاب کی سیاست میں مہاراجہ پٹیالہ‘ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور آج بھی وہ صوبے میں کانگریس کے سرکردہ لیڈروں میں شامل ہیں ۔ بھارت میں بروقت آئین بن جانے کی وجہ سے ‘وہاں جمہوری نظام جڑیں پکڑنے لگا۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود‘ بھارتی آئین اور پارلیمنٹ دونوں کو تقدس حاصل ہے۔کرپشن وہاں بھی موجود ہے لیکن انتظامیہ اور بااختیار سیاست دانوں پر‘ قانون کی کڑی گرفت بھی رہتی ہے۔ ان دنوں بھارت میں طویل مدت تک اقتدار پر فائز رہنے والے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے دو لیڈر‘سونیا گاندھی اورراہول گاندھی‘ بدعنوانیوں کے الزام میں مقدمہ بھگت رہے ہیں۔
پاکستان میں جاگیرداروں اور ان کے فوراً بعد جرنیلوں نے اقتدار پر ایسا قبضہ جمایا کہ جمہوریت کا جو پودا ابتدا میں لگایا گیا تھا‘ جلد ہی اسے اکھاڑ دیا گیا۔ جو 1970ء تک دوبارہ جڑ نہ پکڑ سکا اور نہ ہی پاکستان کو جمہوری آئین میسر آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی کافی عرصہ تک‘ ایوب خان کی ٹیم میں شامل رہے۔ معاہدہ تاشقند کے موقعے پر‘ انہیں حکومت سے اختلاف ہوا اور انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی جماعت قائم کی۔ بھٹو صاحب کی پُرکشش شخصیت اور ان کے انقلابی نعروں اور تقریروں نے‘ نوجوانوں میں پہلی بار‘ ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا کیا‘ جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک اور معاشرے کے لئے تبدیلی کے خواب دیکھنے لگے۔ بھٹو صاحب کے نعرے ساری طبقاتی حدوں کو توڑتے ہوئے‘ صدیوں کے پسے ہوئے کسانوں‘ ہاریوں اور مزدوروں تک جا پہنچے اور وہ مغربی پاکستان کے مقبول اور مضبوط لیڈر بن کر ابھرے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں انہوں نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی لیکن آئینی بحران پیدا ہونے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں‘ جو دو لیڈر اکثریت حاصل کر کے‘ اقتدار کے دعویدار بنے‘ ان میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان دونوں نمائندہ لیڈروں میں نئے آئین اور آئندہ کی حکومت سازی کے لئے کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ اس وقت کا فوجی حکمران ٹولہ بھی یہی چاہتا تھا کہ دونوں منتخب لیڈر‘ کسی فارمولے پر متفق نہ ہو سکیں۔ میں بھٹوصاحب کے قریب ہونے کی وجہ سے‘ اس دور کی سازشوں اور جوڑ توڑ کودیکھتا رہا ہوں۔ اس وقت سے آج تک ‘بھٹو کے حامیوں اور مخالفوں میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ مخالفین کی تعداد بہت کم تھی اور حامیوں کی زیادہ‘ لیکن پرنٹ میڈیا پر فوجی حکمرانوں کے پٹھو اور مخالفین چھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھر پور طریقے سے بھٹو صاحب کی کردار کشی کی۔ اس وقت کا حکمران فوجی ٹولہ‘ جمہوریت بحال کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ یحییٰ خان‘ بھٹو صاحب کو کچھ اور کہتے اور شیخ مجیب الرحمن کو کوئی اور پٹی پڑھاتے۔ آخرکار انہوں نے دونوں کو تصادم کی راہ پر ڈال دیا۔ غالباً یہی ان کا مقصد تھا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ شیخ مجیب الرحمن اپنی اکثریت کی بنا پر پورے ملک کی حکومت بنا سکتا ہے۔ شیخ مجیب اپنے خیالات چھپا کر نہیں رکھتا تھا۔ میری اس سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بھری مجلس میں اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا۔ مثلاً ایک بار برکت علی سلیمی کے گھر‘ لاہور میں قیام پذیر تھا۔ اس کی پوری ٹیم ساتھ آئی ہوئی تھی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے عوامی لیگ کے چند لیڈر اور کارکن بھی موجود تھے۔ میں نے گفتگو کی‘ تو شیخ صاحب کے جوابات مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ ''ہم جنگ سے کشمیر نہیں لے سکتے۔ میں آ گیا تو بھارت سے مذاکرات کر کے یہ جھگڑا نمٹا لوں گا‘‘۔ میں نے پوچھا: ''انتہا پسند ملائوں کا وہ کیا کریں گے؟‘‘ شیخ مجیب نے آنکھ مارتے ہوئے کہا: ''ان کے ساتھ وہی کرنا چاہئے جو اتاترک نے کیا تھا‘‘۔ میں نے پوچھا ''اتاترک نے کیا کیا تھا‘‘؟ شیخ مجیب نے جواب دیا ''اس نے جہاز میں بٹھا کر‘ انہیں سمندر اور اللہ کے حوالے کر دیا تھا‘‘۔ شیخ صاحب نے آخر میں کہا کہ ''میں بھارت کے ساتھ امن معاہدہ کروں گا‘‘۔ صرف یہی باتیں سمجھنے کے لئے کافی تھیں کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں کے‘ جو درحقیقت پورے پاکستان پر قابض تھے‘ مفادات اور بقا‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں تھی۔ اس میں وہ کامیاب رہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟ بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو غالباً یہ پاکستان کی آخری حکومت تھی‘ جس میں کرپشن کا تناسب‘ آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ ان کے وزرا کے نام ہی لے دوں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کی حکومت میں کتنی کرپشن تھی؟ ڈاکٹر مبشر حسن‘ میر رسول بخش تالپور‘ رانا محمد حنیف‘ غلام مصطفی جتوئی‘ ممتاز بھٹواور صاحبزادہ فاروق علی خان۔ فی الحال اتنے ہی نام کافی ہیں۔ موجودہ کابینہ میں ان سے آدھے وزیروں کے نام بھی لکھ دیکھئے‘ جن پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومتوں میں مشکل سے چار پانچ وزیر ہی ایسے
ملیں گے‘ جن پر کرپشن کا الزام نہ ہو۔ مجھے تو شک ہے کہ میں زیادہ ہی نام لکھ گیا۔ دکھ اس پر ہوتا ہے کہ کہاں بھٹو صاحب؟ جو اپنے ساتھی پر کرپشن کا الزام سن کر‘ بھڑک اٹھتے تھے اور کہاں یہ حال ہے کہ قمر زمان کائرہ‘ نثار کھوڑو اور فرحت اللہ بابر کے سوا‘چوتھا نام ڈھونڈنے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں کرپشن کا مرض‘ ایسی وبا کی طرح پھیل چکا ہے‘ جس سے شاید ہی کوئی محفوظ رہ سکا ہو۔ ایوب خان سے پہلے ہم نے کرپشن کا نام تک نہیں سنا تھا۔ صرف ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبروں اور عہدیداروں پر ایسے الزامات لگتے تھے۔ وزرائے اعظم کے بارے میں تو ایسی بات سوچنا بھی محال تھا۔کہاں شہید ملت لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ آئی آئی چندریگر‘ چوہدری محمد علی‘ ملک فیروز خان نون اور حسین شہید سہروردی اور کہاں موجودہ صدی کے وزرائے اعظم! بھٹو صاحب تو اپنی پارٹی کا حال دیکھ کر قبر میں تڑپتے ہوں گے اور ہماری اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ نے‘ شہید ملت لیاقت علی خان میں بھی کرپشن ڈھونڈ نکالی۔ موجودہ پاکستان کے لوگ واقعی بہت بہادر ہیں۔