ہزاروں برس کے انسانی تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ فوج کو سیاست میں دخل نہ دینا چاہیے‘ ہرگز نہ دینا چاہیے۔ موضوع بحث یہ بھی ہونا چاہیے کہ22کروڑ انسانوں کے مستقبل کو کیا تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟
ایسا نہیں کہ سندھ حکومت مکمل طور پر جھوٹی ہو۔ بعض پہلوئوں سے اس کے موقف میں سچائی کی جھلک ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی فریقین میں سے کس کا موقف درست ہے۔ پیپلز پارٹی‘ زیادہ صحیح الفاظ میں زرداری کے انداز فکر پہ چالاکی کا غلبہ ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ زندگی فقط جوڑتوڑ کے بل پہ بسر کی جا سکتی ہے۔ اصول پسندی سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ طرز احساس ان کا یہ ہے کہ کرپشن ان کا حق ہے۔ عسکری قیادت کا درد سر یہ ہے کہ لوٹ مار کی کھلی اجازت ہو تو دہشت گردی کا سدباب ممکن ہی نہیں۔
جنرل محمد ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کا عہد تمام ہوچکا تھا۔ نوازشریف وزیراعظم تھے۔امیگریشن کے ڈائریکٹر میجر محمد عامر کراچی گئے۔ اس آدمی نے جو ہوا میں خبر سونگھتا ہے‘ ہوائی اڈے پر امیگریشن کے رجسٹروں کا معائنہ کیا۔ ایک لرزا دینے والا انکشاف ہوا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت سے آنے والے دو لاکھ سے زیادہ شہری کراچی کی گلیوں میں گم ہو چکے تھے۔ نسخہ یہ تھا کہ دبئی کا ٹکٹ خریدا جائے اور چند روز کراچی میں رکنے کی اجازت لے لی جائے۔ اصلاحاً اسے Break Journy کہا جاتا ہے۔ سفر کو توڑ دینا ۔ اخراجات میں برائے نام سا اضافہ‘مثلاً عمرہ کرنے کا ارادہ ہو ‘سوڈان کا قصد بھی ہو تو عرب ائر لائن کاٹکٹ خرطوم کے لیے خریدا جائے۔ صرف ایک سو ڈالرزائد ادا کرنا ہوں گے۔
بھارتی ہی کیا بنگلہ دیشی‘ ایرانی‘ برمی‘ کتنے ہی ملکوں کے شہری 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں ساحلی شہر میں آن بسے۔ اندازہ ہے کہ پندرہ لاکھ سے زیادہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی شناخت ممکن نہ رہی۔ پولیس اگر چوکس نہ ہو تو مجرموں کی فصلیں موسم برسات کے سبزے کی طرح اگتی ہیں۔ ایک زمانے میں بنگالی روزنامہ بھی چھپا کرتا۔ بڑے شہرمجرموں کی نرسری ہوتے ہیں۔ جوئے کے اڈے برداشت کر لیے جائیں تو ان تمام جرائم کا سلسلہ دراز ہو جائے گا‘ ایسے ماحول میں جن کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
پانچ برس ہوتے ہیں‘ لندن میٹروپولیٹن پولیس کے پاکستانی نژاد سربراہ طارق غفور سے خواجہ صاحب کی ملاقات ہوئی‘ جو نوتشکیل سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں اور جلد ہی اس کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اپنے ملاقاتی کو اس نے انہیں بتایا: میں نے منصب سنبھالا تو مجرموں کو سزا کا تناسب99فیصد تھا۔ اولین اجلاسوں میں افسروں سے بار بار میں نے کہا: سو فیصد کیوں نہیں؟ پاکستانی نظام میں؟ اعداد و شمار مہیا نہیں۔ ماہرین کا اندازہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار فیصد۔اول تو پولیس پکڑتی ہی نہیں۔ جو پکڑے جاتے ہیں‘ ان میں سے ساٹھ‘ ستر فیصد بے گناہ ہوتے ہیں۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق جیلوں میں پڑے قیدیوں میں سے کم از کم ایک تہائی بے گناہ ہوتے ہیں۔ جس نے رشوت دی ‘ وہ چھوٹ گیا‘ خانہ پری کے لیے اس کا پڑوسی پکڑ لیا۔ سہالہ تھانے کے ایس ایچ او کا نسخہ یہ تھا کہ چوری کا ملزم گرفتار ہو تو اس کے سب سنگی ساتھی پھانس لیے جائیں۔ ایک عدد کیس میں تین سے چار لاکھ کی آمدن ہو جاتی۔پاکستان کی ماتحت
عدالتوں میں 14لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں۔چاروں صوبوں کی عدالت ہائے عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں 28500۔ یہ چند ماہ قبل کے اعدادو شمار ہیں۔ ہر روز یہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تھیوڈ روز ویلٹ نے جو 1901ء سے 1909ء تک ریاست ہائے متحدہ کا منتخب صدر تھا‘ یہ کہا تھا:
In a moment of decision, the best thing you can do is to make the right decision . The second best thing you can do is to make a wrong decision. The worst thing you can do is NOT TO MAKE A DECISION.
(وقت آ پہنچے تو بہترین چیز یہ ہے کہ آپ درست فیصلہ صادر کریں۔ دوسری بہترین یہ کہ غلط فیصلہ ہی کر ڈالیں۔ بدترین یہ ہے کہ فیصلہ کرنے سے گریزاں رہیں)۔
فراریت! ایک لفظ میں‘ ہمارا قومی مزاج اگر بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ ''فراریت‘‘ ہے۔ ذمہ داری نبھانے سے گریز۔ سرکاری کیا‘ غیر سرکاری دفاتر میں بھی بیشتر وقت حالات کے ماتم یعنی غیبت میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس کا آدھا اگر کام پر صرف ہو تو دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک‘ یہ قوم ادبار سے نجات پا لے۔
زندگی اتنی سادہ بہرحال نہیں۔ افراد سے زیادہ اقوام کے امراض مزمن ہوتے ہیں پاکستانی پائلٹوں کی طرح دنیا بھر میں پاکستانی ڈاکٹر بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ مگر ہماری علاج گاہوں میں درست تشخیص کا تناسب کم ہے۔ مغرب کیا‘ مشرق وسطیٰ پہنچتے ہی پاکستانی شہری کا طرزعمل تبدیل ہو جاتا ہے۔رئوف کلاسرا کی اہلیہ کا علاج اسلام آباد کے مہنگے ترین ہسپتال میں ہوا‘ اس کے باوجود رفوگری کے لیے امریکہ جانا پڑا۔ سندھ کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں‘ لاہور کے لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں‘ جس کا معیار کبھی بین الاقوامی تھا‘ تین تین حاملہ خواتین ایک بستر پر پڑی ہوتی ہیں۔ داد دانش سکول‘ میٹرو اور اورنج ٹرین کے لیے طلب کی جاتی ہے۔ گیس کا چولہا اگر روشن نہیں تواشتہار کے مطالعے سے دل بہلائیے: 2017ء میں ترکمانستان کی گیس شیخو پورہ تک جا پہنچے گی۔ بیکری والوں کو ابھی سے جشن کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔
چاروں صوبائی حکومتوں میں سے‘ سندھ کی حکومت بدترین ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں بھی نوکریاں خوانچے میں رکھے پھلوں کی طرح بکا کرتیں۔ اب کچھ افاقہ ہے۔ سندھ میں وقت بدلتا ہی نہیں ؎
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ صبح و شام ٹھہرائے
1948ء میں قائد اعظم رخصت ہوئے تو بہت تیزی کے ساتھ جاگیرداروں میں ایک عمرانی معاہدہ ہوا۔ باقی تاریخ ہے۔ غضب خدا کا ڈاکٹر عاصم کیس میں سرکاری وکیل تک چیخ اٹھے۔ بار بار تفتیش کار بدلے گئے۔ تاجر سڑکوں پر نکل آئے‘ میڈیا حیرت زدہ رہ گیا۔ چند ایک غالی ترقی پسندوں کے سوا سبھی اخبار نویسوں نے امن و امان کی اہمیت اجاگر کی۔جج نے فیصلہ کیا تو سندھ حکومت فریاد کناں ہے کہ عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ حکمران طبقات پر عوام کا اعتماد تھا ہی کب؟ جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کی تائید 83فیصد تھی۔ اقتدار نصیب ہوا تو اپنے قدموں تلے انہوں نے شہر بسائے۔ حکومت کا نشہ ایسا ہولناک ہوتا ہے کہ اب وہ اپنی سیاسی پارٹی داغنے والے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم کیس میں کہنے کو کیا باقی ہے؟ ذمہ داری وزیر اعظم نواز شریف پر آ پڑی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کیا کریں گے۔ ہمدردیاں ان کی سندھ حکومت کے ساتھ ہیں۔ صاف صاف جواب عسکری قیادت کو بھی دے نہیں سکتے۔ بات بہت کڑوی ہے مگر اتنی ہی سچی بھی۔ نون لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کا ایک غیر اعلانیہ اتحاد ہے‘ عسکری قیادت کے خلاف۔آخری تجزیے میں امن و امان کے خلاف‘ قانون کی حکمرانی کے خلاف۔ کراچی میں رینجرز کا خون‘ فوجی بالادستی کے لیے پیش نہیں کیا گیا بلکہ جان ومال کی حفاظت کے لیے۔ کیسے بدبخت ہیں‘ وہ لوگ جو اعلیٰ ترین جہاد پر سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہزاروں برس کے انسانی تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ فوج کو سیاست میں دخل نہ دینا چاہیے‘ ہرگز نہ دینا چاہیے۔ موضوع بحث یہ بھی ہونا چاہیے کہ22کروڑ انسانوں کے مستقبل کو کیا تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟