تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-12-2015

مٹی نہ پھرول فریدا‘یار گواچے نئیں لبھدے۔۔۔۔(8)

ناراض صدر آصف زرداری کے سیکرٹری ملک آصف حیات کی طرف سے ایک توہین آمیز انکوائری آرڈر اوردوسری انکوائری کا حکم وزیراعظم ہائوس سے ملنے کے اگلے روز ڈاکٹر ظفرالطاف پنڈی کی احتساب عدالت میں قرآن پر حلف اٹھانے کے بعد کھڑے تھے۔ کٹہرے میں کھڑے انہیں یاد آیا، کئی برس قبل نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سیف الرحمن ان سے اسی مقدمے میں بینظیر بھٹو اورآصف زرداری کے خلاف اپنی مرضی کی گواہی دلوانا چاہتے تھے مگر انہوں نے سیف الرحمن کی فرمائش کو رد کرتے ہوئے کہا تھا، آپ گریڈ بائیس کے ایک افسر سے کیسے توقع رکھتے ہیں کہ وہ عدالت میں جھوٹ بولے؟ ''کیونکہ آپ ہماری حکومت میں سیکرٹری ہیں‘‘۔ سیف الرحمن نے کہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر جواب دیا تھا کہ ایسا ہو، نہ ہوگا، آپ جو جی چاہے کر لیجیے۔ پھر انہیں یاد آیا کہ جنرل مشرف دور میں بینظیر بھٹو کے خلاف اسی مقدمے میں نیب نے ان پر شدید دبائو ڈالا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ انہیں جھکانے کے لیے ان کی اہلیہ عاصمہ الطاف کو بھی نیب نے فون پر دھمکیاں دے کر کہا تھا کہ وہ اپنے خاوند کو بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر قائل کریں۔ ایک دن دھمکی آمیز فون سن کر وہ ایسی گریں کہ پھر اٹھ نہ سکیں اور قبر میں جا لیٹیں۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کو اس کا دکھ مرتے دم تک رہا کہ اپنے اڑتیس سالہ کیرئیر میں انہوں نے دشمنیاں بہت بھگتیں لیکن زندگی میں پہلی دفعہ کسی نے ان کے گھر فون کرکے ان کی اہلیہ کو اتنا ہراساں کیا کہ ان کی جان چلی گئی۔ 
پنڈی عدالت میں سب کی نظریں ان پر لگی تھیںکیونکہ ان کی گواہی کی بنیاد پر ہی آصف زرداری اور بینظیر بھٹوکے خلاف ٹریکٹر ریفرنس کا فیصلہ ہونا تھا اس لیے کہ وہ بی بی کے دوسرے دور حکومت میں وفاقی سیکرٹری تھے، جب بیلاروس ٹریکٹر منگوانے کا فیصلہ ہوا تھا تاکہ کسانوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے میں ٹریکٹر ملے جبکہ مقامی مارکیٹ میں اسی ٹریکٹر کی قیمت چار پانچ لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔ شاید سب سوچ رہے ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس موقع سے فائدہ اٹھاکر آصف زرداری کے لیے مشکلات پیدا کریںگے۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کو دکھ انکوائری کا نہیں تھا کیونکہ ایسی انکوائریاں انہوں نے عمر بھر بھگتی تھیں، دکھ اس زبان کا تھا جو انکوائری لیٹر میں ملک آصف حیات نے استعمال کی تھی۔ ساری زندگی انہوں نے عام لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے دکھ اٹھائے تھے۔ 
میںگواہ ہوں کہ انہوں نے اجنبی لوگوں کے ایسے ایسے کام کیے جو کوئی دوسرا وفاقی سیکرٹری کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا۔ ایک د فعہ میانوالی کے میرے مرحوم دوست ڈاکٹر شیر افگن کے داماد افراز خان نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ میانوالی میں زرعی اجناس کی ایجنسی کھولنا چاہتے تھے جس کے لیے اجازت درکار تھی۔ وہ ہر سرکاری دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے، ڈاکٹر شیر افگن بھی اسمبلی میں نہ تھے کہ کسی کو کہہ دیتے۔ کسی نے بتایا کہ سفارش کی ضرورت نہیں، تم خود سیکرٹری سے مل لو۔ چنانچہ وہی ہوا۔ افراز خان ان کے پاس گئے۔ ڈاکٹر صاحب اکثر اتنی بے تکلفی سے بات کرتے کہ پہلی بار ملنے والا شک میں پڑ جاتا کہ شاید وہ اس کے پرانے دوست ہیں یا کسی اورکو مخاطب ہیں۔ یہی افراز خان کے ساتھ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے پوچھا، جی بھائی جان، ادھرکیسے؟ افراز نے کام بتایا توڈاکٹر صاحب نے فوراً ان کی فائل پر دستخط کر دیے اور ہکے بکے افراز سے کہا، ایک وعدہ کرو،کسانوں کولوٹو گے نہیں، جائو اور لیٹر لے لو۔ کئی بار میری ان سے بحث ہوئی کہ آپ کے اس مزاج کی وجہ سے بعد میں کئی مشکلات، میڈیا ٹرائل اور انکوائریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اکثرایک مسکراہٹ کے ساتھ ٹال جاتے اور صرف اتنا کہتے کہ چھوڑو یار! یا سنجیدہ ہوکر سمجھاتے، اُن انسانوںکے کام آنا ہی سب کچھ ہے جن کی کوئی سفارش نہیں ہوتی۔ 
ان دونوں فقروںکا مطلب واضح ہے۔ سول سروس کے جو افسر اسلام آباد میں ایماندار مشہور تھے، ان پر ہنستے اورکہتے، ان پر مقدمات اس لیے نہیں بنتے کہ وہ کوئی فیصلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔ جو افسر فیصلہ نہیں کرے گا کہیں نہیں پھنسے گا۔ ایک سینیٔرافسر کو تو دن میں درجنوں فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور اسے کرنے چاہئیں۔ فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں لیکن نیت دیکھی جانی چاہیے کہ کیا اس نے اپنی ذات کے لیے فیصلہ کیا تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہر فائل پر لکھ دو۔۔۔۔پلیز سپیک۔ یہ کیسی ایمانداری ہے؟ آپ کو فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ سرکاری رولزکا مطلب یہ نہیں کہ آپ لوگوں کو تنگ کریں۔ اگر گریڈ بائیس کا افسر بھی پوری فائل پڑھنے کے بعد کنفیوز ہو جائے تو اسے گھر چلے جانا چاہیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا افسر میڈیا کا بھی ہیرو ہوتا ہے کہ دیکھیںکتنا ایماندار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا وہ افسر ایماندار نہیں بلکہ الٹا بوجھ ہے جو سارا دن دفتر میں بیٹھ کر اپنی نااہلی یا خوف کی وجہ سے فیصلے نہیں کرتا، الٹا میڈیا سے داد وصول کرتا ہے کہ دیکھیں جناب مجھ پرایک کیس بھی نہیں، ظفر الطاف کو دیکھو، بڑے فیصلے کرتا تھا،آج اس پر درجنوں مقدمات بن چکے ہیں۔ ایک بار مجھ سے کہا، چاہے ہزار مقدمے بن جائیں، جو فائل میرے پاس آئے گی، اس پر میں اپنا فیصلہ ضرور لکھوں گا۔ اگر میں یہ نہیں کر سکتا تو پھر مجھے نان چھولے کی ریڑھی لگا لینی چاہیے۔
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ ماضی کے ان افسروں کی کہانیاں سناتے جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا یا واسطہ پڑا۔ ان کا پہلا واسطہ جنرل ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری سید فدا حسین کے ساتھ پڑا۔ ڈاکٹر صاحب کرکٹ کی وجہ سے انہیں جانتے تھے کیونکہ وہ
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ سید فدا حسین کی تعریف کرتے اورکہتے کیا شاندار فیصلے کرتے تھے، وہ ایک شاندار سول افسر تھے! وہ اس واقعہ کو کبھی نہ بھول سکے کہ جب وہ مشرقی پاکستان سے واپس آئے تو ان کے خلاف پنجاب کے چیف سیکرٹری افضل آغا کو ایک خفیہ ایجنسی نے شکایت کی کہ یہ افسر بنگالیوںکا ہمدرد ہے اور اس کا نقطہ نظر اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ چیف سیکرٹری نے انہیں بلا کر اپنا اسٹاف افسر مقرر کردیا اورکہا، خفیہ ایجنسی والے تمہارے پیچھے پڑگئے ہیں، اب تم میرے ساتھ کام کروگے ورنہ یہ تمہیں تنگ کریںگے۔ برسوں بعد 2000ء میں جب وہ سیکرٹری زراعت تھے تو ان کے ایک افسرکے خلاف خفیہ ایجنسی نے شکایت کی جس پرانہوں نے اسے اپنا سٹاف افسرمقرر کردیا اور کہا یہ سبق مجھے آغا صاحب نے دیا تھا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ خفیہ ایجنسی کے کسی حوالدار کی بنائی ہوئی رپورٹ پر آپ اپنے افسرکے خلاف کارروائی شروع کر دیں۔ بہتر ہوتا ہے کہ اسے اپنے ساتھ لگا لیں تاکہ محٖفوظ رہے۔ انہی فیصلوں کا نتیجہ تھا کہ وہ کئی مقدمات بھگت رہے تھے، لیکن اپنی روش سے کبھی باز نہ آئے۔ 
اب وہ مذکورہ مقدمے میں گواہ کے طورپر پیش تھے اور سب نگاہیں ان پر مرکوز تھیں۔ ڈاکٹر صاحب خوب بولے اور بولتے رہے۔ انہوں نے کہا، یہ سب ان کا منصوبہ تھا کہ کسانوں کو سستے ٹریکٹر ملنے چاہئیں،اس لیے کہ مقامی مارکیٹ کے سرمایہ داروں نے کسانوں کو لوٹنے کی تمام حدیں عبورکر لی تھیں۔ انہوں نے وہ تمام اعداد وشمار پیش کیے جن سے پتا چلتا تھاکہ کس ٹریکٹر کمپنی نے کتنے ارب روپے کا منافع ایک سال میں کمایا جو سب کسانوں کی جیب سے نکالا گیا۔ ان کے خیال میں جتنا منافع مقامی کمپنیاںکما رہی تھیں وہ دنیا میں اورکوئی کمپنی نہیںکما رہی تھی۔ انہوں نے کہا آپ سوچیں،ایک ٹریکٹر ہزاروں میل دور روسی ریاست سے خریدا جاتا ہے، روسی کارخانے کو اس کی ادائیگی کی جاتی ہے، وہاں سے روسی پورٹ پر لا کر بحری جہاز کے ذریعے ہزاروں میل کے سفر کے بعد کراچی پہنچتا ہے، وہاں سے لاد کر اسے ایک کسان کے گھر پہنچایا جاتا ہے اور اس کی کل لاگت صرف ڈیڑھ لاکھ روپے بنتی ہے۔کیا یہ بات آپ کو ممکن لگتی ہے؟ لیکن ہم نے ایسا کر کے دکھایا۔ ایک نہیں سینکڑوں ٹریکٹرکسانوں کو دیے۔ کوئی مجھے یہ کہانی سنانے کی کوشش نہ کرے کہ اس سے مقامی ٹریکٹر انڈسٹری تباہ ہوجائے گی، میری بلا سے، ہوتی ہے تو ہو جائے۔ کیا ہم نے ٹریکٹر انڈسٹری کو ترقی زراعت اورکسانوں کو تباہ کر کے دینی ہے؟ وہ اپنا منافع کم کرنے کو تیار کیوں نہیں؟ اگر ایک روسی ٹریکٹر کمپنی پاکستانی کسان کے لیے اپنا پرافٹ کم کرنے کے لیے تیار ہے تو پاکستانی کمپنیاں یہ کام کرنے کوکیوں تیار نہیں؟ میں پاکستان کے کسانوں کو لوٹنے کی اجازت کیوں دوں؟ مجھے بتائیں، ایک ڈیڑھ لاکھ روپے کے ٹریکٹر میں کوئی کتنا کمیشن کھا سکتا ہے؟ اگر پھر بھی کوئی کہتا ہے کہ آصف زرداری نے روسی ٹریکٹروں میںکمشن کھایا تو پھر انہیں داد ملنی چاہیے کہ اتنی کم قیمت کے ٹریکٹر میں سے بھی کچھ نہ کچھ کمالیا۔ مجھے سیکرٹری کے طور پر پتا ہے، ہم کتنی مشکل سے اتنے سستے ٹریکٹر پاکستان لائے تاکہ زراعت کو بہتر کیا جائے اور کسان کو مشینر ی کی طرف لایا جائے۔ اگر اب بھی کوئی سمجھتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے ٹریکٹر میں کمیشن کھایا گیا تھا تو پھر سیکرٹری کے طور پر یہ الزام ان پر لگنا چاہیے نہ کہ بینظیر بھٹو یا آصف زرداری پر کیونکہ یہ فیصلہ ان کا تھا۔ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم ان کی بھیجی ہوئی سمری کو منظور کیا تھا۔ اگر یہ سکینڈل تھا تو پھر یہ بینظیر بھٹو پر نہیں بلکہ ان کے خلاف تھا، پھر مال انہوں نے کھایا تھا بینظیر بھٹو نے نہیں!
ڈاکٹر صاحب نے گواہی دی اور عدالت سے باہر نکل گئے اور اپنے پیچھے سناٹا چھوڑ گئے۔گھر پہنچے تو پتا چلا کہ میاں شہباز شریف کے حکم پر پنجاب کے محکمہ انٹی کرپشن نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور پنجاب پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مار رہی ہے! (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved