تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-12-2015

این اے 154کا الیکشن

آج لودھراں میں قومی اسمبلی کے حلقہ 154 کا ضمنی الیکشن ہے۔ جو ایک بار پھر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان زندگی موت اور عزت بے عزتی کا سوال بن چکا ہے۔ جہانگیر ترین نے اس حلقے میں انتخاب بالکل اسی طرح بنا دیا ہے جیسا علیم خان نے حلقہ این اے 122 لاہور میں بنا دیا تھا۔ ہر دو میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کے پاس پیسہ ہے اور وافر ہے۔ دوسری یہ کہ دونوں پیسہ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں اور اسے صحیح طریقے سے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ لودھراں میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ جہانگیر ترین اس حلقہ سے 2013ء کے الیکشن میں محض دس ہزار دوسو بتیس ووٹوں سے ہارا تھا تو یہ تاثر ایک لحاظ سے قطعاً درست نہیں کہ اب بھی اسے ویسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ یہ فرق آسانی سے پورا کر سکتا ہے۔ جہانگیر ترین نے گزشتہ انتخابات میں 75 ہزار آٹھ سو چودہ ووٹ حاصل کیے تھے اور جیتنے والے امیدوار صدیق بلوچ نے چھیاسی ہزار اڑتالیس ووٹ لیے تھے۔ اس حساب کتاب کو دیکھیں تو جہانگیر ترین صرف دس ہزار سے زائد ووٹوں سے ہارا تھا مگر ایک اہم اور بنیادی نقطہ جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس حلقہ سے صدیق بلوچ بطور آزاد امیدوار لڑ رہا تھا اور اسی حیثیت میں جیتا تھا جبکہ اسی حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سید رفیع الدین نے 45ہزار چار سو چھ ووٹ لیے تھے۔ اب صدیق بلوچ مسلم لیگ ن کا امیدوار ہے جبکہ رفیع الدین اب مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کر رہا ہے۔ صدیق بلوچ کے ذاتی ووٹ اور مسلم لیگ ن کے ووٹوں کے علاوہ اب رفیع الدین کے ووٹ (جس کا اپنے علاقے میں ذاتی ووٹ بنک بھی ہے) مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ساتھ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جہانگیر ترین کے گزشتہ الیکشن والے 75 ہزار آٹھ سو ووٹوں کے مقابلے میں صدیق بلوچ اور رفیع الدین کے مشترکہ ووٹ ایک لاکھ اکتیس ہزار چار سو ہیں۔ آسان حساب سے موجودہ انتخابی صورت حال میں جہانگیر ترین پچپن ہزار چھ سو ووٹوں کے خسارے کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ اگر اس فرق کو سامنے رکھ کر موجودہ ضمنی الیکشن کی صورتحال دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی پوزیشن کافی بہتر کی ہے۔
کسی فریق سے پوچھیں تو وہ اپنی اپنی کیلکولیشن سے آپ کو بے پناہ متاثر کر دینے والے گنتی کے گورکھ دھندے میں پھنسا دیتا ہے۔ لودھراں شہر میں پہلے چار یونین کونسلیں تھیں، جنہیں ختم کر کے تیس وارڈ بنا دیئے گئے ہیں۔ حلقہ این اے 154 میں مکمل صوبائی حلقہ پی پی 210(جس میں لودھراں شہر بھی شامل ہے)‘ صوبائی حلقہ پی پی 211 اور صوبائی حلقہ پی پی 207(دنیا پور) کی آٹھ یونین کونسلیں شامل ہیں۔ حلقہ پی پی 210 میں گیارہ یونین کونسلیں اور حلقہ پی پی 211 میں سولہ یونین کونسلیں ہیں۔ اس طرح اس حلقہ این اے 154 میں کل 35 یونین کونسلیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے بھی لودھراں شہر کی چار یونین کونسلوں میں برتری حاصل تھی اور نہ صرف یہ برتری اب بھی ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس حلقہ کی باقی(موجودہ) یونین کونسلوں میں بھی انہوں نے اپنی پوزیشن 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں کافی بہتر کی ہے۔ یاد رہے کہ 2013ء کے الیکشن میں صدیق بلوچ این اے 154 کے ساتھ ساتھ حلقہ پی پی 210(جس میں لودھراں شہر بھی شامل ہے) سے‘ بھی آزاد امیدوار کے طور پر جیتا تھا۔ بعد ازاں صدیق بلوچ نے قومی اسمبلی کی سیٹ رکھ لی اور پی پی 210 سے استعفیٰ دے دیا۔ ضمنی انتخاب میں اس سیٹ سے اس کا بیٹا زبیر بلوچ صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا۔ پی ٹی آئی والوں کے بقول انہیں اس حلقہ پی پی 210 میں شہر میں کلین سویپ ملنے کا امکان ہی نہیں یقین ہے۔ بقیہ حلقہ میں انہیں برابری حاصل ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر وہ اس حلقہ میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ حلقہ پی پی 211 میں ان کو برتری ہے اور حلقہ 207 کی آٹھ یونین کونسلوں میں انہیں تقریباً لودھراں شہر جیسی واضح برتری حاصل ہے اور وہ این اے 154 سے کم از کم تیس ہزار ووٹوں سے جیتیں گے۔ 
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے حامیوں کی اپنی کیلکولیشن ہے۔ ان کے حساب سے انہیں گزشتہ انتخاب میں شہر سے ضرور مار پڑی تھی مگر شہر والے صوبائی حلقہ پی پی 210 سے انہیں مجموعی برتری پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔ اس حلقہ سے صدیق بلوچ خود اور بعد ازاں اس کا بیٹا زبیر بلوچ کافی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ حلقہ پی پی 210 سے صدیق بلوچ پی ٹی آئی کے امیدوار ارشاد گھلو سے 16ہزار سے زائد ووٹ لے کر جیتا تھا جبکہ مسلم لیگی امیدوار رانا اسلم نے 19 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ پی ٹی آئی اس صوبائی حلقہ سے تیسرے نمبر پر آئی تھی۔ اسی طرح حلقہ پی پی 211 سے گزشتہ انتخابات میں احمد خان بلوچ آزاد حیثیت سے جیتا تھا۔ اس نے پی ٹی آئی کے امیدوار عزت جاوید سے 9ہزار ووٹ زائد لیے تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار حسن محمود نے 22ہزار سے زاید ووٹ لیے۔ اس حساب سے انہیں اس حلقے میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں تقریباً 31 ہزار ووٹوں کی برتری تھی۔ یہ مسلم لیگ ن والوں کا حساب کتاب ہے اور ظاہر ہے اس میں وہ بھی کافی ڈنڈی مار رہے ہیں۔ بقول ان کے انہیں 50 ہزار ووٹوں کی مجموعی برتری حاصل ہے۔
دونوں پارٹیاں اپنی اپنی جگہ واضح اکثریت سے جیت رہی ہیں مگر حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ہر دو پارٹیوں کا پائجامہ گیلا ہو چکا ہے۔ ایک طرف جہانگیر ترین کا پیسہ ہے، عمران خان کا ذاتی کرشمہ ہے، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے ہیں اور جنون ہے۔ دوسری طرف سرکاری وسائل ہیں۔ گیس اور بجلی کی فراہمی کی یقین دہانیاں ہیں اور حمزہ شہباز شریف کی آنیاں جانیاں ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف حمزہ شہباز ذاتی طور پر لودھراں آ کر زور لگا رہا ہے تو دوسری طرف عمران خان لودھراں میں دو جلسے کر چکا ہے۔ پہلا جلسہ بڑا بھرپور تھا جبکہ اس کے مقابلے میںحمزہ شہباز کے جلسے خاص تاثر نہیں چھوڑ سکے تھے۔ پی ٹی آئی کو شہر میں واضح برتری حاصل ہے اور حلقہ پی پی210 میں،جو صدیق خان کا مضبوط گڑھ ہے، شہر کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی پہلے کی نسبت بہتر پوزیشن ہے۔ حلقہ پی پی211 میں پی ٹی آئی کی پوزیشن 2013ء کی نسبت بہتر ہے اور درمیانی فرق کم ہو چکا ہے۔ اسی طرح حلقہ پی پی 207 کی آٹھ یونین کونسلوں میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔ بظاہر صورت حال کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف نے صورت حال کو بہتر کھینچا اور بہتر کیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں مسلم لیگ ن کے امیدوار رفیع الدین کے اور صدیق بلوچ کے ووٹ ملا کر جہانگیر خان ترین 55ہزار سے زاید ووٹوں کے خسارے کے ساتھ میدان میں اترا تھا لیکن آہستہ آہستہ گیم بنتی گئی اور جہانگیر ترین نے اپنے پیسے کے بل بوتے پر صورت حال ویسی ہی بنا لی ہے جیسی علیم خان نے این اے122 میں بنا لی تھی اور سردار ایاز صادق بمشکل ہی جیت سکا تھا۔ ادھر بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ شروع شروع میں میرا ذاتی خیال تھا کہ جہانگیر ترین 20ہزار سے زاید ووٹوں سے ہارے گا مگر آج جبکہ الیکشن ہے میرا خیال پہلے سے مختلف ہے۔ تا ہم ہارجیت کے معاملے میں میرا خیال بہرحال ابھی وہی ہے جو پہلے تھا۔
عمران خان کے جلسوں، تحریک انصاف کے نوجوانوںاور جہانگیر خان کے پیسے نے کرشمہ کر دکھایا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن والوں کے دعوئوں سے قطع نظر ان کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ شیخوپورہ سے ایک گجر ایم پی اے کے ذمہ علاقہ کے گجروں سے ووٹ لینا ہے، ارائیں ممبران اسمبلی اپنی برادری سے اور راجپوت ارکان اسمبلی پنجاب بھر سے لودھراں آ کر راجپوتوں کو رام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ برادری ازم کا جن بوتل سے نکل آیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے وعدے ہیں اور انتخابی قواعد کی دھجیاں اسی طرح اڑائی جا رہی ہیں جیسا کہ این اے 122 میں اڑائی گئی تھیں۔ الیکشن کمیشن حسب معمول خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کے قواعد و ضوابط صرف لکھنے پڑھنے کی حد تک باقی رہ گئے ہیں ۔اب الیکشن میں اخراجات کو اس حد پر پہنچا دیا گیا ہے کہ عام آدمی کے لیے الیکشن خواب بن کر اور الیکشن کمیشن مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اگر یہی حال ہونا ہے تو الیکشن کمیشن کو اپنے قواعد و ضوابط کا دفتر سرے سے بند کر دینا چاہیے۔
آج الیکشن ہے اور عموماً ایسی صورت حال میں جیسی کہ لودھراں کے حلقہ این اے 154 میں ہے، تجزیہ کرتے وقت گول مول باتیں کی جاتی ہیں، تا ہم میرا ذاتی خیال ہے کہ مقابلہ انتہائی سخت ہے اور درمیانی فرق دونوں پارٹیوں کے دعوئوں کے برعکس 5 ہزار سے زیادہ نہ ہو گا۔ اس میں بھی اگر تحریک انصاف آج کا دن یعنی ''الیکشن ڈے‘‘ Manage نہ کر سکی تو یہ خسارہ اس کے پلے میں پڑے گا۔ 
مسلم لیگ نون کے اُمیدوار کو تحریک انصاف کے اُمیدوار پر واحد فوقیت یہ ہے کہ اس کو انتخابی دائو پیج سے لیس گھاگ ٹیم میسر ہے اور یہی واحد فیکٹر ہے جو فیصلہ کن ہو گا۔ اگر تحریک انصاف آج یعنی الیکشن والا دن ٹھیک بھگتائے تو بات بننے کی توقع ہے مگر مجھے اس ''ٹھیک بھگتانے‘‘ کی کوئی خاص اُمید نظر نہیں آتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved