ضربِ عضب دبائو پر نہیں، اپنی
ذمہ داری سمجھ کر شروع کیا:نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ضربِ عضب دبائو پر نہیں، اپنی ذ مہ داری پر شروع کیا‘‘اگرچہ یہ شروع تو کسی اور نے کیا تھا اور اس پر ہم حیران و پریشان ہو کر بھی رہ گئے تھے ‘یعنی حیران کم اور پریشان زیادہ؛ تاہم کریڈٹ لینے میں کیا ہرج ہے اور کریڈٹ تو کریڈٹ ہی ہوتا ہے، جھوٹا ہو یا سچا جبکہ اب کراچی میں رینجرز کے اختیارات کی بحالی کے حوالے سے ایک طرح کا ڈس کریڈٹ بھی لینا پڑ گیا ہے لیکن یہ سندھ اسمبلی کا فیصلہ ہے ‘اس لیے تسلیم کرنا ہی پڑے گا‘ کیونکہ وہ ہماری اسمبلی کی طرح بے معنی اسمبلی نہیں ہے؛چنانچہ اب برادرم آصف علی زرداری کی واپسی کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں‘سارا ملک بازو پھیلا کے جن کا انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا ''خواہش ہے کہ ہمسایوںسے معاملات مثبت چلائیں‘‘ خاص طور پر بھارت سے، جبکہ اب غیر سیاسی طاقتوں کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے جنہیں سندھ اسمبلی نے آئنہ دکھا دیا ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے پروگرام ''محاذ‘‘ میں میزبان وجاہت سعید خان سے گفتگو کر رہے تھے۔
جب چاہوں پاکستان واپس چلا جائوں،
کوئی روک نہیں سکتا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی
زرداری نے کہا ہے کہ ''جب چاہوں پاکستان واپس چلا جائوں، کوئی روک نہیں سکتا‘‘ اور اب جبکہ سندھ حکومت نے ڈاکٹر عاصم کو بے گناہ قرار دلوا کر میری مشکل آسان کر دی ہے اور برادرم میاں نواز شریف کا بھی بطور خاص شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مکمل مفاہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں خاموش رہ کر اسے مزید آسان بنایا اور میں ان کی جرأت اور دلیری کو سلام کرتا ہوں کیونکہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کسی کی بھی پروا نہیں کی اور انہیں ایک طرح سے یہ پیغام بھی بھیج دیا کہ اب اگلا سا وقت نہیں رہا اور وہ حکومت سمیت اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے ہیں اور کوئی مائی کا لال ان کے آڑے نہیں آ سکتا‘ چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور مقبول کیوں نہ ہو بلکہ اب میرے لیے بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بارے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہو گیا ہے اور اُمید ہے کہ اس سے کچھ لوگوں نے کافی عبرت بھی حاصل کر لی ہو گی۔ آپ اگلے روز مدینہ منورہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
غلطیہائے مضامین مت پوچھ
انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ کالموں وغیرہ میں ایک تو الفاظ کی املا کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور دوسرے اشعار وزن کے بغیر ہی بے دریغ درج اور استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ نہ صرف اردو زبان کے ساتھ زیادتی ہے جو ہماری قومی زبان ہے بلکہ اب تو سرکاری بھی ہونے جا رہی ہے اور دوسرے، اس طرح یہ غلطیاں قارئین کے ذہنوں میں راسخ ہوتی چلی جائیں گی مثال کے طور پر ایک مشہور مقولہ جو مصرعے کی شکل میں ہے، اکثر اس طرح لکھا جاتا ہے ع
جس کا کام اُسی کو ساجھے
یہ غلطی کم و بیش 90 فیصد حضرات کرتے ہیں۔ یہاں لفظ ''ساجھے‘‘ کی بجائے ''ساجے‘‘ ہے جو کہ دوسرے مصرعے یعنی ع
اور کرے تو ٹھینگا باجے
کے ساتھ ہم قافیہ ہے کیونکہ اگر ''ساجھے‘‘ پڑھا جائے تو اس کا مطلب مشترکہ ہو گا جو کہ یہاں بالکل بے معنی ہے جبکہ ''ساجے‘‘ یعنی ''سجے‘‘ کے ساتھ بات مکمل طور پر درست اور واضح ہو جاتی ہے۔
سیکولر ازم کی راہ ہموار...؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام لاہور کے مولانا محب النبی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کے اندر ایک لابی سیکولر ازم کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ کئی دیگر علمائے کرام بھی بشمول مولانا فضل الرحمن یہی خدشہ بار بار ظاہر کر چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیکولر ازم کو لادینیت اور لا مذہبیت کا ہم معنی قرار دیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں ہے بلکہ یہ تو روشن خیالی اور مساوات کا درس دینے والا نظریہ ہے جس کے ‘اس ملک کو بنانے والی عظیم شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح بھی پیروکار تھے اور جس کا اظہار بھی انہوں نے کئی بار کیا حالانکہ اصل مسئلہ فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی ہے ‘ جس کی دلدل میں آج سارا ملک پھنسا ہوا ہے اور جنہیں لٹریچر اور تقاریرکے ذریعے بھی پھیلایا جاتا ہے اور اسی سے شہ پا کر طالبان اور داعش وغیرہ جیسی تنظیمیں پیدا ہوئیں جنہوں نے دہشت گردی کو ایک انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی بلکہ جو روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے؛چنانچہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد عامر کھیلے یا نہ کھیلے؟
مایہ ناز فاسٹ بائولر محمد عامر کو قومی ٹیم میں شامل کیے جانے پر احمد شہزاد سمیت کچھ کرکٹروں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جو سراسر ناقابلِ فہم ہے کیونکہ اس نے اپنی غلطی کو نہ صرف تسلیم کیا، اس کی قوم سے معافی مانگی بلکہ اس کی سزا بھی بھگت چکا ہے تو اس صورت میں ایسا انتہا پسندانہ رویہ نامناسب ہے جس کا اظہار ان حضرات کی جانب سے کیا گیا ہے جو نہ تو ٹیم کے سلیکٹر ہیں اور نہ ہی کوئی دیگر انتظامی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ محض کھلاڑی ہیں اور ان کی پسند، ناپسند کوئی اہمیت نہیں رکھتی جبکہ قومی ٹیم کو ہمیشہ وکٹیں لینے والے بائولر سے محروم کرنا ویسے بھی حب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، خاص طور پر ان حالات میں جبکہ مستقبل قریب میں ٹیم کو کئی بے حد اہم مقابلوں میں شامل ہونا ہے۔ اس لیے اس طرح کی باتیں اس ہم آہنگی کے خلاف ہیں جس کی ٹیم کو اشد ضرورت ہے۔
آج کا مطلع
بے نام جس قدر ہیں انہیں نام دے سکوں
شاید یہ کارنامہ سر انجام دے سکوں