بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرح آغا سراج درانی کی بات میں وزن ہے۔ پچھلے سال عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے میاں نواز شریف کی حکومت قریب المرگ تھی تو آصف علی زرداری نے مسیحا ئی کی‘ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما اس مسیحائی کا جو معاوضہ میاں صاحب سے طلب کر رہے ہیں اس کی ادائیگی شاید اُن کے بس میں نہیں۔ تاہم اس سال کا سب سے بڑا سچ نثار کھوڑو نے بولا۔ جب انہیں سید قائم علی شاہ اور بلاول بھٹو کے پروٹوکول کی وجہ سے ایک معصوم بچی کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو کہا ''ہمیں سب سے زیادہ عزیز تو بلاول بھٹو ہیں جن کا تحفظ پاکستان کی سالمیت کا تحفظ ہے۔ اگر اس دوران بچی جاں بحق ہو گئی تو لواحقین سے ہمدردی کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں‘‘ یہ مائنڈسیٹ ہے جس پر ہمارے باشعور عوام صدقے واری جاتے ہیں تاہم اس صاف گوئی پر وہ داد کے مستحق ہیں ؎
نکل جاتی ہے سچی بات جس کے مُنہ سے مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
فوج اور رینجرز کو دیوار سے لگانے کی جو کوششیں جمہوری قوتوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں وہ اب راز نہیں۔ برادرم ہارون رشید نے گزشتہ روز چار جماعتی اتحاد کی خوب خبر لی۔ ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کنند۔ بصد ادب‘ اختلاف صرف اس بات پر کہ ملک اب تاجروں نہیں خونخوار بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہے انہیں تاجر قرار دینا رحم دلی ہے۔ سندھ حکومت کی سمری مسترد کر کے وفاقی حکومت نے اپنی کھال بچائی جس پر سید قائم علی شاہ سے مولا بخش چانڈیو اور آغا سراج درانی سے سکندر میندھرو تک سب برہم ہیں۔ میثاق جمہوریت اور آئین میں اٹھارہویں ترمیم کرنے والوں نے اپنے طور پر بندوبست کیا تھا کہ آئندہ سیاسی حکمران اور ان کے چیلے چانٹے جمہوریت اور صوبائی حقوق کے نام پر جو لوٹ مار‘ قانون شکنی اور قوم فروشی کریں ان کا ہاتھ کوئی روک نہ سکے۔ فوج‘ وفاق نہ آئین۔
یہ جمہوریت اور صوبائی حقوق کے نام پر مکروہ کھیل کا شاخسانہ ہے کہ کراچی کے تاجر ایک بار پھر اپنے بال بچوں اور کاروبار کو دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے لگے ہیں۔ کراچی آپریشن کا کُھل کر ساتھ دینے والا میڈیا دبائو کا شکار ہے پکڑے جانے والے مجرموں کی شناخت ''ایک سیاسی جماعت‘‘ یا ''کالعدم تنظیم‘‘ کے طور پر کرائی جانے لگی ہے اور جن لوگوں نے بے خوف ہو کر آپریشن کے حق میں اور نسلی‘ لسانی‘ مسلکی بنیادوں پر دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کے خلاف آواز بلند کی‘ بڑھ چڑھ کر بولے وہ خوف کا شکار ہیں کہ اب معلوم نہیں کیا ہو گا۔ 1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے دو سو پولیس افسروں اور اہلکاروں اور حکیم سعید و سید محمد صلاح الدین کا انجام انہیں معلوم ہے۔
اس بار فوج کے عزم اور وفاقی حکومت کے بلند بانگ دعووں کے علاوہ دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کے حوالے سے قومی اتحاد و یکجہتی کو دیکھتے ہوئے ہر محب وطن شہری اور رائے عامہ کی تشکیل میں مددگار ادارے نے ہرچہ بادا باد کا نعرہ لگایا‘ مگر اب غلط یا صحیح یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ قومی اداروں نے صورتحال کا درست اندازہ لگائے اور ممکنہ سیاسی مزاحمت کے مضمرات کا سو فیصد ادراک کیے بغیر آپریشن شروع کیا اور ہرگز نہیں سوچا کہ اس بار فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک غیر مرئی مگر مضبوط اتحاد وجود میں آ چکا ہے۔ قوم فوج کو کچھ اور سمجھتی ہے‘ ایک قومی ادارہ۔ مگر پیپلز پارٹی کے نزدیک یہ جنرل ضیاء الحق‘ مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کے خیال میں جنرل آصف نواز اور جنرل نصیراللہ بابر کا دوسرا نام ہے جن کے تصوّر سے جمہوری قوتوں کے پسینے چھوٹتے اور فشار خون تیز ہو جاتا ہے۔
حب الوطنی پر کسی کی اجارہ داری نہیں‘ غلطیاں فوجی قیادت سے بھی ہوئی ہیں اور رینجرز بھی فرشتوں کا گروہ نہیں مگر آپریشن ضرب عضب‘ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے ان اداروں کی ترجیحات قومی مفادات اور عوامی جذبات سے ہم آہنگ ہیں۔ اس قدر ہم آہنگ کہ اگر کل کلاں‘ خدانخواستہ ہمارے نام نہادجمہوریت پسندوں کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر فوج کوئی تلخ اور ناخوشگوار فیصلہ کر بیٹھی تو لاہور اور کراچی میں دکانوں پر مٹھائی چند لمحوں میں ختم ہو جائے گی اور لوگ سڑکوں پر نکل کر خوشی کے شادیانے بجائیں گے۔
عام آدمی کو گزشتہ سات سال میں امن ملا نہ انصاف اور نہ روزگار۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو اور سید قائم علی شاہ کے پروٹوکول نے ایک بچی کی جان لے لی۔ بسمہ کا باپ چیختا چلاتا رہا کہ دس ماہ کی بچی کو قریبی ہسپتال کی ایمرجنسی تک جانے دیا جائے مگر کسی اہلکار کے کان پر جوں نہ رینگی‘ یوں بچی راستے ہی میں دم توڑ گئی۔ لاہور میں نمونیے خناق کی ادویات دستیاب نہ ہونے کے سبب ایک ہسپتال میں درجن سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے جبکہ بہاولپور کے ہسپتال میں آکسیجن کی عدم موجودگی سے مرنے والے بچوں کی تعداد بھی درجن سے زیادہ ہے۔
سینیٹ و قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی اور منتخب حکومتوں کی کارگزاری دیکھ کر ہرگز اندازہ نہیں ہوتا کہ یہاں تعلیمی‘ طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کے شہریوں تک کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور پڑھے لکھے نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے لگے ہیں ۔ بوڑھے ماں باپ اور جوان بہنوں کی بے بسی دیکھنے کے لیے جو حوصلہ درکار ہے مایوسی نے نوجوانوں میں باقی ہی رہنے نہیں دیا۔ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ کسی حکمران‘ منتخب نمائندے اور اس کے عزیز رشتہ دار کے نالائق چہیتے کو لاکھوں روپے ماہانہ کی مراعات دے کر پڑھے لکھے نوجوان کو دس بارہ ہزار کی نوکری دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو یقیناً اس کی مایوسی و بے بسی دیدنی ہوتی ہے اور یہی حوصلہ شکنی انسان کو حرام موت کی طرف دھکیلتی ہے۔
مارشل لاء موجودہ صورتحال کا حل نہیں۔ مگر کیا چوروں‘ ڈاکوئوں اور لٹیروں کا احتساب بھی جمہوریت کے منافی اور ملک کے لیے تباہ کن آپشن ہے؟ ملک کو لوٹ کر کنگال اور دہشت گردوں کی آماجگاہ بنانے والوں کا مواخذہ بھی خلاف آئین و قانون حرکت ہے؟ آئین میں اتفاق رائے سے شامل کی جانے والی اکیسویں ترمیم اگر دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں کا راستہ روک سکتی ہے نہ حکمرانوں کی تابع فرمان سندھ و پنجاب پولیس کے روایتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے تو پھر موجودہ آپریشن ماضی کے آپریشنوں سے مختلف کیونکر ہوا؟ اور عوام کو اس سے توقعات وابستہ کر کے کیا ملا؟
گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردی سے صرف دو فیصد جبکہ مہلک بیماریوں سے98 فیصد اموات ہوتی ہیں جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے اعتراف کیا کہ ملک میں 82 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں اس اعتراف جرم کے بعد بھی حکمرانوں سے اگر ان کی ترجیحات پوچھی جائیں تو جہازی سائز کی سڑکوں‘ فلائی اوورز‘ انڈر پاسز‘ میٹرو بسوں اور اورنج لائن کی تعمیر ہی بتائیں گے۔ صرف اس لیے کہ انہیں عزیز ملک یا اس کے عوام نہیںاپنے بچّے‘ اپنے چہیتے‘ اپنے مفادات ہیں اور زیادہ سے زیادہ مال بنانے کا شوق۔ ملک کی عزیز ترین متاع جب حکمرانوں کا خاندان اور بچے ہوں گے تو پھر ملتان میں بھوک سے تنگ آ کر میاں بیوی چار بچوں سمیت خودکشی کریں یا کوئی خاتون اپنے تین پھول سے بچوں کو زہر دے کر خود کو بھی موت کے سپرد کر دے کسی سفاک حکمران و سیاستدان کو کیا پروا؟
یہی انداز فکر ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے پر صوبائی حکومت‘ وفاق اور رینجرز کے مابین وجہ نزاع ہے۔ حکمران اشرافیہ کا مقصد حیات ہی اپنا‘ اپنے خاندان اور اپنے فرنٹ مینوں کے مفادات کا تحفظ اور اس ملک کو لوٹ کر اندرون و بیرون ملک عیش و عشرت کا اہتمام ہے انہیں اپنے حصہ کے مجرموں‘ لٹیروں‘ منی لانڈرنگ کے رسیا اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں کے ہر ممکن بچائو کی فکر ہے اس معاملے پر وفاق اور صوبے میں کوئی اختلاف نہیں۔
پچھلے سال میاں نواز شریف کی حکومت بقول سراج درانی‘ آصف علی زرداری نے بچائی اب آصف علی زرداری کے یار وفادار عاصم حسین اور ان کی ''مکھی‘‘ ایان علی کو میاں صاحب نہیں بچاتے تو یہ احسان فراموشی ہے‘ ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم۔ قوم کو توقع ان میں سے کسی سے نہیں۔ ہاں جو لوگ بار بار آپریشن کو منطقی انجام تک پہچانے کی یقین دہانی کراتے رہے وہ بھی اگر توقعات پر پورے نہ اترے تو؟