تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-12-2015

دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا

تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ آوازِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے ؎ 
تیری رسوائی کے خون شہدأ درپے ہے
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
دِہ خدا...اقبالؔ نے جاگیردار کو دِہ خدا کہا تھا۔ گائوں کا پروردگار ؎
دِہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، میری نہیں، تیری نہیں
اور ساحر لدھیانوی نے اسی جاگیردار کی زبان سے یہ کہا:
ان کی محنت بھی مری حاصل محنت بھی میرا
ان کے بازو بھی میرے قوت بازو بھی میری
میں خداوند ہوں اس وسعت بے پایاں کا
موجِ عارض بھی میری، نگہتِ گیسو بھی میری
یہ جاگیردارانہ ذہنیت ہے۔ ایک آدھ دن میں نہیں‘صدیوں میں پرورش پاتی ہے۔ تحقیق کرنے والوں کو خبر ہے کہ بھٹو خاندان کا آغاز اسی طرح ہوا تھا، جیسے اکثر جاگیروں کا۔ دھونس اور دھاندلی سے۔ وقت گزرنے کے ساتھ خاندان مستحکم ہوتا گیا، حتیٰ کہ سرشاہنواز بھٹو ایک چھوٹی سی ریاست کے دیوان ہو گئے۔ ممبئی میں ان کی جائداد کا کرایہ 1947ء میں ایک لاکھ روپے ماہوار تھا۔ بھارتی عدالت میں جواں سال بھٹو نے یہی جائداد حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا۔ جی نہیں، وہ ایک قوم پرست تھے اورعنفوانِ شباب میں ایک روایتی سے مسلمان بھی ‘جو گاہے عالم اسلام کے اتحاد کا خواب بھی دیکھتے۔ کیلی فورنیا میں ان کی ایک ہم جماعت نے اخبار نویس آ ریا نہ فلاسی کو ان دنوں کی روداد سنائی تھی۔ بھٹو کی شخصیت کا یہ پہلو1974ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں اجاگر ہوا۔ ایٹمی پروگرام میں بھی۔ وہ غیر معمولی ذہانت کے آدمی تھے۔ عصری تحریکوں سے آشنا۔ دو تین گھنٹے سونے والے ریاضت کیش۔ ایک پیدائشی سیاستدان۔ ایک عظیم نثر نگار اور ایک عظیم خطیب۔ ہنری کسنجر نے ان کے زور خطابت پہ رشک کیا تھا۔ ہاں مگر پرلے درجے کے منتقم۔ ان کی اگر کچھ اقدار ہوتیں، ہوس اقتدار کے قتیل نہ ہوتے اور اگر ان میں جذباتی توازن کارفرما ہوتا تو دنیا شاید ایک دوسرے قائد اعظم کو دیکھتی۔
جی ہاں! 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہو جانے میں ان کا کردار تھا اور جی ہاں، تمام شواہد یہ ہیںکہ احمد رضا قصوری کے والد کو انہی نے قتل کرایا۔ اعتراض تو فقط یہ تھا کہ گواہ سرکار کی سرپرستی میں لائے گئے اور ججوں نے تعصب کا مظاہرہ کیا۔ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے وگرنہ 36 سال گزر جانے کے باوجود ‘تین بار اقتدار ملنے کے باوجود پیپلز پارٹی بتا نہیں سکی کہ نواب محمد احمد خان کا کوئی دوسرا قاتل بھی ہو سکتا ہے۔ احمد رضا قصوری جذبات کے بنے نہ ہوتے اور اپنا مقدمہ دلیل کے ساتھ پیش کر سکتے تو شاید کچھ زیادہ لوگوں کو قائل کر لیتے۔
جماعت اسلامی کے رہنما فقیر منش ڈاکٹر نذیر احمد کو کس نے قتل کرایا تھا؟ خواجہ سعد رفیق کے والد اس دلیر، پاک باز اور غنی آدمی خواجہ محمد رفیق کو ‘چوہدری ظہور الٰہی کو کس نے قتل کرایا تھا؟ الذوالفقار نے، کابل کی جلا وطنی میں، بھٹو کے قدیم رفیق راجہ انور کی قبر کس کے ایما پر کھودی تھی؟ ان کی کتاب ''The Terrorist Prince‘‘ پڑھ لیجے، جس کا ترجمہ بھٹو کی محبت میں مبتلا خالد حسن نے کیا۔
بدھ کے واقعہ پر یہ ناچیز بلاول بھٹو کو براہ راست ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ جواں سال شہزادے کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ سندھ میں حفاظتی انتظامات سلیقہ مندی کے ساتھ بھی ممکن ہیں، مگر صوبے کا کاروبار نالائق لوگ چلا رہے ہیں۔ احتیاط برتی جائے اور عنان ہوش مندوں کے ہاتھ میںہو توعامیوں کو ستائے بغیر حفاظتی انتظام ممکن ہے۔ قائم علی شاہ سے مگر کیا امید؟کارندہ پولیس اور نالائق سول ایجنسیوں سے کیا امید؟بہت دن سے بلاول بھٹو کی خواہش یہ ہے کہ فوج ان کی حفاظت کرے۔ میری معلومات کے مطابق کچھ پیغامات کا تبادلہ بھی ہوا مگر وہ کیسے کرے۔ اگر وہ ذمہ داری اٹھا ئے اور خدانخواستہ حادثہ ہو جائے تو نتیجہ کیا ہو گا ۔عساکر سے خاندان کی عداوت چلی آتی ہے۔ اس عداوت کی نوعیت کو سمجھنا ہو تو بھٹو اور زرداری خاندان کے قدیمی وفادار جناب رضا ربانی کے بیانات کو بین السطور پڑھنا چاہیے۔ اٹھارویں ترمیم کی تشکیل میں دوسرے عناصر بھی کارفرما تھے مگر صوبوں کو دی جانے والی ناقابل عمل خود مختاری کے پیچھے وفاق کو کمزور کرنے اور صوبوں کو منہ زور بنانے کا جذبہ بھی یقینا موجود ہے۔
سندھ کی بدنام حکومت پہ پھٹکار برس رہی ہے۔ ایک بار پھر اُس منظر کو یاد کیجئے ۔ضمانت کا بندوبست کر لینے کے بعد ڈاکٹر عاصم عدالت میں پیش ہونے گئے تو کس شان سے وہ شعر پڑھا ؎
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
کیا وہ حسین بن منصور حلاج کے وارث ہیں؟وہ آدمی جو بارہ سو برس سے تمام اسلامی زبانوں کی شاعری میں ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
سب جانتے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور سب جانتے ہیں کہ اس طوطے میں کس کی جان ہے۔ جی نہیں، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت سندھ نے ایک آدمی کو بچانے کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ ایک آدمی نہیں، وہ کمپیوٹر کی ایک سی ڈی ہے، جس میں درجنوں اور سینکڑوں کے جرائم کی روداد ثبت ہے۔
کوئی دعویٰ ایسا نہیں جو حکمران توڑ کر نہ پھینک دیتے ہوں۔ زرداری صاحب نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وعدے کیا قرآن حدیث ہوتے ہیں۔ ناچیز نے ایک کالم اس پہ لکھا کہ جی ہاں قرآن اور حدیث ہی ہوتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''اوفوا بالعھدان العھد کان مسئولا‘‘ وعدے پورے کیا کرو کہ وعدوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ بندے اور اللہ کے درمیان پیمان کے سوا کیا ہے؟ روز ازل کے وعدے کی بازگشت جو کبھی رگ جاں میں اور کبھی بہت ہی دور لرزتی رہتی ہے۔ آدمی کی جان میں کبھی چراغ کی طرح جل اٹھتی ہے اور کبھی ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑا دی جاتی ہے۔ انسان کی تمام سرگزشت، جنت سے نکالے گئے آدم کی سرگزشت ہے۔ Paradise Lost۔
مدیر محترم نے کالم روکا تو میں نے ادارے کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔ شفیق وہ بہت تھے مگر کوئی چارہ نہ رہا۔
آئے دن سنہری وعدوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے والے، میثاقِ جمہوریت سے کبھی اعراض نہیں کرتے۔ میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری ایک دوسرے سے بظاہر کتنا ہی اختلاف کریں‘ ایک ہی کشتی میں دونوں سوار ہیں۔ ان کا پیمان پختہ ہے۔ زرداری صاحب کچھ بھی کرتے رہیں، میاں صاحب کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ نیب کبھی ان کے خلاف کارروائی نہ کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں میاں صاحب بتیس دانتوں میں زبان کی طرح محفوظ تھے۔ جب تک میاں صاحب تخت اقتدار پر براجمان ہیںان کی آرزو ہو گی کہ زرداری صاحب کا بال بھی بیکا نہ ہو۔
رینجرز کو اختیارات اس لیے دیئے گئے کہ اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ کارنامہ ایسا ہے کہ چھپایا نہیں جا سکتا۔ پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ عدالت اور میڈیا بھی۔ عدالت کو انصاف کرنا پڑتا ہے اور میڈیا ایک مچھلی ہے جو عوامی تائید کے پانیوں میں جی سکتی ہے۔ عوامی تائید کا طوفان اٹھے تو میڈیا اس میں تنکے کی طرح بہہ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جنرل راحیل شریف مقبول ہی نہیں، بہت مقبول ہیں۔طاقتور بھی بہت۔
تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ آوازِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے ؎
تیری رسوائی کے خون شہدأ درپے ہے
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved