یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کیک کھا بھی لیں اور بچا بھی لیں۔ آپ کو آملیٹ بنانے کے لیے انڈے توڑنے ہی پڑیں گے۔ غالباً پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف بننے والے چونتیس ممالک کے اتحاد میں اسلام آباد کی شمولیت کی خبر پر حیرت کا اظہار کرنے سے پہلے یہ محاورہ نہیں سنا ہو گا۔ سیکرٹری صاحب کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ اسلام آباد کو ریاض کے عزائم کی خبر نہیں، لیکن اگلے ہی روز حکومت نے اعلان کر دیا کہ پاکستان اس اتحاد میں شامل ہو چکا ہے۔
اگر پاکستان اس اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہا تھا تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اپنے سامنے موجود امکانات کا جائزہ لے رہا تھا۔ یقیناً خود مختار ریاستیں اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ دوسری ریاستوں یا غیر ریاستی شراکت داروں کو کسی ریاست کی حساسیت کا فہم ہونا چاہیے۔ ایسی ہی بات ایک مرتبہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل شوکت سلطان نے طالبان کے حوالے سے کہی تھی۔ وہ اس بات پر پریشان تھے کہ انتہا پسند سمجھنے کی کوشش نہیںکر رہے کہ اب وقت بدل گیا ہے‘ اور پاکستان ان کی اس طرح پشت پناہی کرنے کے قابل نہیں جیسے وہ دو عشروں سے کرتا چلا آیا ہے۔ کچھ طالبان اس لیے بغاوت پر نہیں اترے کہ اُنہیں انگلش نہیں آتی تھی، بلکہ اس لیے کہ اُنہیں غصہ تھا کہ اہم سٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد اُنہیں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ افغانستان آ کر سوویت فورسز کے خلاف لڑنے والے پہلے عرب باشندوں میں شامل مصطفی حامد اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران راولپنڈی، درجہ حرارت کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کنٹرول کرتا تھا۔ مقبول عام تصور کے برعکس مصطفی حامد کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا عربوں کے افغانستان آنے کے حق میں نہیں تھے، بالخصوص پاکستان کے راستے سے۔
اسی طرح سعودی عرب کا حکمران خاندان بھی الجھن کا شکار ہو سکتا ہے کہ ایک ریاست جو عشروںسے ریاض کی کلائنٹ تھی، اب عمل کے وقت کس طرح آنکھیں پھیر سکتی ہے۔ کیا 1980ء کی دہائی میں ہمیں ملنے والے چالیس ایف سولہ طیاروں کی پہلی کھیپ خریدنے کے لیے سعودی عرب نے پانچ سو ملین ڈالر ادا نہیں کیے تھے؟ درحقیقت پاک سعودی تعلقات ایک جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرے میں پیٹرن اور کلائنٹ کے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔ کئی برسوں سے اسلام آباد سعودی اشرافیہ کی حفاظت پر مامور ہے۔ اُن کی سرزمین پر ٹریننگ یا کچھ دیگر مقاصد کے لیے ایک فوجی یونٹ موجود رہتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں راولپنڈی جب امریکی قیادت میں لڑی جانے والی پہلی عراق جنگ میں شرکت کرنے سے گریزاں تھا، ریاض کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔ دراصل سکیورٹی تعلقات پر ہمارے جوان بھی خوش رہتے ہیں کیونکہ ایک تو اس کا معاوضہ اچھا مل جاتا ہے اور پھر یہ احساس بھی روحانی طمانیت کا باعث بنتا ہے کہ مقدس سرزمین پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جاگیردارانہ طرز عمل کلائنٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ؛ چنانچہ برسہا برس سے پاکستانی عوام یہ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کی قیادت (عسکری اور سیاسی) مسائل کے حل کے لیے ریاض کا رخ کرتی ہے۔ اگرچہ امریکی اشاروں پر چلنے پر کھلے عام سخت تنقید ہوتی ہے لیکن پاکستان کے ارباب اختیار سعودی عرب کو مربّی یا سرپرست سمجھتے ہوئے اس سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چند ماہ پہلے یمن جنگ کے لیے فوجی دستے نہ بھجوانے پر سعودی عرب پاکستان سے ناراض ہو گیا تھا، لیکن اب اس کے برعکس ہو سکتا ہے ریاض پاکستان کی نازک صورت حال کا احساس کرتے ہوئے اسے اپنی پسند کے میدان میں کام کرنے کا موقع دے رہا ہو۔ رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم اور آرمی چیف کے دوروں نے اس افہام و تفہیم کو تقویت دینے میں مدد دی۔ اس سے سعودی بھائیوں کی بھی دھاڑس بندھی کیونکہ پاکستان کے ابتدائی انکار سے ان میں کچھ پریشانی پیدا ہو گئی تھی، لیکن اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
الائنس میں شامل چونتیس ریاستوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ ریاستیں ریاض کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتی ہیں یا اس کی کلائنٹ ہیں۔ بظاہر اس الائنس کا مقصد عراق، مصر، شام، لیبیا اور افغانستان جیسی ریاستوں میں پنجے پھیلانے والی دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے۔ اس منصوبے کے دو پہلو ہیں۔۔۔ پہلے اقدام کے طور پر داعش، جو مذکورہ ریاستوں میں زور پکڑ رہی ہے، کے خلاف لڑنے کے لیے صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ اس وقت جبکہ سعودی عرب کو داعش سے لاحق خطرے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مشرق وسطیٰ کی ریاستیں تحلیل ہو رہی ہیں۔ عراق، شام اور لیبیا بطور ریاست خاتمے کے قریب دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف داعش کی کشش دنیا بھر میں موجود ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں ریاستوں کے جائز ہونے پر ابہام کی موجودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ داعش کی طرف کشش محسوس کرنے والے نوجوانوں کو یقین ہے کہ اسلامی ممالک میں راج کرنے والی حکمران اشرافیہ کو ہٹائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جا سکے جو اُن (داعش) کے نزدیک اسلامی ہو۔ اس کے باوجود یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے انتشار کا شکار ہے۔
چونکہ اس وقت ریاض کو بھی خطرہ لاحق ہے، اس لیے اسے اپنی قابل اعتماد کلائنٹ ریاستوں کی مدد درکار ہے۔ خطرے میں اضافے کی صورت میں، جب یہ جنگ اس کی دہلیز پر پہنچ سکتی ہے، غیر اسلامی قوتوں سے مدد لینا شرمناک بات ہو گی کیونکہ اس کا مطلب مقدس سرزمین کو غیر اسلامی بوٹوںسے آلودہ کرنا ہو گا۔ 1979ء میں مکہ میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے میں فرانس کے کردار کو کبھی زیر بحث نہ لایا جا سکا۔ اس وقت ان چونتیس ریاستوں پر ڈالی جانے والی ایک طائرانہ نظر ظاہر کرتی ہے کہ ان میں سے بہت کم عسکری صلاحیت کی حامل ہیں۔ اس کولیشن میں مصر اور ترکی سے زیادہ فوجی صلاحیت اور عزم رکھنے والی ریاست صرف پاکستان ہے؛ چنانچہ سعودی ریاست کو ایک ایسی محفوظ عسکری صلاحیت رکھنے والی ریاست کی ضرورت ہے جو اس کا تحفظ کر سکے، خاص طور پر اُس وقت جب اس کے مالی وسائل میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔
اس کولیشن کا دوسرا پہلو عسکری سے زیادہ سیاسی ہے۔ اس کا تعلق اُس ابھرنے والی عالمی تاثرکو رفع کرنا ہے کہ دنیا بھر میں انتہا پسندی کے فروغ کی ذمہ داری دراصل سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ پیرس حملوں کے بعد ریاض کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں کہ اس نے ایسے نظریات کی ترویج کی جو تشدد کو ابھارتے ہیں؛ چنانچہ اس وقت سعودی ریاست اپنے بارے میں قائم ہونے والی عالمی رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسے خواتین کو مقامی کونسلز کے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دینا، جن کی اتنی اہمیت نہیں، بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا مملکت میں سماجی طور پر بھی کچھ تبدیل ہونے کے آثار ہیں؟ ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ دائیں بازو کے دھڑوں اور مذہبی علما کی مدد سے شاہی خاندان اپنی حکمرانی کا جواز فراہم کرتا رہے گا، لیکن یہ دائیں بازو کو بھی اتنی طاقت حاصل نہیں کرنے دے گا جس سے 1979ء کے واقعات کا اعادہ ہوتا دکھائی دے۔ اس وقت داعش ویسا ہی خطرہ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے سامنے سوال یہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی تحلیل کے عمل کو روکنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ اس کے اپنے ایک ہمسایہ ملک کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔