اپنی شاعری کے بارے بات کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ اس میں بھی خودنمائی کا ایک پہلو نکلتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک وضاحتی پیرا یہ بھی اسی قبیل کی چیز ہے کیونکہ شاعری کی وضاحت میرے نزدیک بذات خود ایک بے ہودہ عمل ہے۔ شاعری پر اسرار کا پردہ پڑا ہی رہنا چاہیے ورنہ وہ یک پرتی ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کی طبعی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ شاعری کی تشریح بھی فضول کام اور اس کا ستیاناس کرنے کے مترادف ہے۔ میں شاعری کے پوری طرح سمجھ میں آنے کے بھی خلاف ہوں کیونکہ شاعری لطف اندوز ہونے کے لیے ہوتی ہے‘ سمجھنے یا ذہن نشین ہونے کے لیے نہیں‘ ماسوائے اس کہ کوئی شعر آپ کو خواہ مخواہ یاد رہ جائے۔ ہر طرح کی شاعری ہر طرح کے قاری کے لیے نہیں ہوتی،مگر اس کے باوجودہر طرح کی شاعری کو ہر طرح کا قاری دستیاب بھی ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہو سکتا ہے جب آپ کو ایک ہی شاعر کی مختلف یا ایک سے زیادہ ذائقوں والی شاعری پڑھنی پڑ جائے کیونکہ جس طرح بعض بلکہ اکثر شعراء عمر بھر ایک ہی طرح کی شاعری تخلیق کرتے رہتے ہیں‘ اکثر قاری بھی ایک ہی طرح کی شاعری سے ٹیون ہو جاتے ہیں اور دوسری ہر طرح کی شاعری کو مسترد کر دیتے ہیں‘ یا اسے شاعری سمجھتے ہی نہیں۔ یہ ان کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے جس کا بنیادی تعلق ان کی
افتادطبع سے ہے۔ اپنی طرف آتے ہوئے عرض کروں گا کہ جو لوگ میری ایک طرح کی شاعری کو گوارا یا پسند کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی دوسری طرز کو ناپسند تو وہ میری اسی ناپسندیدہ شاعری کو میرا معیار یا خصوصیت قرار دے کر فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں جو کہ بالعموم میرے خلاف ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ میں نے ایسی شاعری کے بھی ڈھیر لگا رکھے ہوتے ہیں جو ان کی نظروں میں پسندیدہ قرار پا چکی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے یہ ان کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے لیکن کچھ مجبوریاں میری بھی تو ہو سکتی ہیں‘ مثلاً میں مسلسل ایک ہی طرح کی شاعری نہیں کر سکتا اور اپنی آوازوں کو تبدیل کرتا رہتا ہوں۔ ایک ہی آواز میرے لیے کافی ہوتی ہے اور نہ ہی میں اسے تادیر برداشت کر سکتا ہوں۔ سو میری جس طرح کی شاعری بعض لوگوں کو پسند نہیں ہے‘ وہ میری اسی طرح کی شاعری پر گزار کر سکتے ہیں جو ان کی نظر میں پسندیدہ ہے وہ دوسری طرح کی شاعری کو نظرانداز بھی کر سکتے ہیں‘ بجائے اس کے کہ وہ میری ناپسندیدہ شاعری پر ہی اپنا فیصلہ یا فتویٰ صادر کر دیں۔
آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی شاعری میں اپنے لیے کرتا ہوں حالانکہ قاری کو بھی ورائٹی پسند ہونا چاہیے لیکن میری ایسی شاعری کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا ہے، یہ بھی کوئی ایسا غلط کام نہیں کیونکہ میں خود اپنی ہر طرح کی شاعری کا مذاق اڑانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہوںاور اس کی مثالیں میری شاعری ہی سے کافی مقدار میں دستیاب ہو سکتی ہیں۔کئی حضرات تو میری ایسی شاعری کی پیروڈی کرنا بھی کار ثواب سمجھتے ہیں اس بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ معمولی درجے کی شاعری کی نہ تو پیروڈی ہوتی ہے نہ کسی نے آج تک کی ہے‘ لیکن اس پیروڈی میں بھی کئی عمدہ اور کمال کے شعر نکل آتے ہیں۔ مثلاً میرے ایک مستقل کرم فرما جناب مظفر بخاری عموماً یہ کام کرتے رہتے ہیں جس کا ذکر کہیں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ ابھی حال ہی میں ان کی ایک غزل ماہنامہ ''الحمرا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جو انہوں نے مجھے الگ سے بھی ارسال کی ہے اور جس پر انہوں نے کیپشن جمایا ہے ''جناب ظفر اقبال سے انسپائر ہو کر‘‘ اس کے کچھ شعر دیکھیے:
ایک ہی بات ہے سوچ کی بات ہے
اتنی گہری نہیں سرسری بات ہے
شرم آتی نہیں شرم کی بات ہے
تیری ہر بات ہی بے تُکی بات ہے
آپ سے آج یہ آخری بات ہے
کام کو چھوڑیے نا م کی بات ہے
ٹھیک سمجھے ہو تم بس یہی بات ہے
شعر سُن کر کہا عام سی بات ہے
اس میں ہجویہ انداز بھی ہے اور بعض اشعار میں بظاہر مجھی سے مخاطب ہوا جا رہا ہے‘ لیکن ان میں کئی اشعار بیحد عمدہ بھی نکل آئے ہیں جو میرے نزدیک خالص غزل کے شعر ہیں۔ البتہ ایک فرق
ضرور ہے کہ میرے ہاں جو ہجویہ اشعار ہوتے ہیں ان کا نشانہ میں خود ہی ہوتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جو مزہ آٹو پیروڈائیزیشن میں ہے وہ کسی اور کی ہجو میں نہیں۔ بخاری صاحب کے جو شعر میں نے نقل کیے ہیں‘ مجھے خود مزیدار لگے ہیں اور امید کے کچھ اور لوگوں کو بھی پسند آئے ہوں گے۔ چنانچہ میرے بارے میں لکھے گئے ہجویہ اشعار سے اگر کئی اور لطف اندوز ہوں تو میرے لیے یہ بھی خوشی کی بات ہے اور یہ اشعار اس ٹریش اور جگالی شاعری سے بدرجہا بہتر ہیں جو ہمیں کثیر مقدار میں صبح و شام برداشت کرنا پڑتی ہے اور ہجویہ میں بھی اگر عمدگی اور لطف سخن کا اہتمام کیا جا سکے تو کیا بات ہے!
ہجو نگاری باقاعدہ ایک فن بلکہ صنف سخن ہے جو رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ کوئی اپنے بارے میں ایسی بات پسند اور برداشت ہی نہیں کرتا جس میں اس کی شان گھٹائے جانے کا احتمال ہو حالانکہ ایک ایسی کمزور اور بے جان شان کو،جو ہجویہ اشعار سے گھٹتی یا ختم ہوتی ہو ،ویسے بھی ختم ہو جانا چاہیے!!
آج کا مقطع
ظفرؔ، کسی چور نے بھی شب بھر نہ کی توجہ
وگرنہ دروازے تو ہمارے کھلے ہوئے تھے