صوبائی خودمختاری‘ ہمیشہ سے پاکستان کا مسئلہ رہا ہے۔ 1970-71ء تک ہم پہچان لیتے کہ صوبائی خودمختاری کیا ہے؟ تو مشرقی پاکستان سے کوئی تنازعہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ اس زمانے میں کوئی ڈاکٹر عاصم پیدا نہ ہوا۔ مجھے پتہ ہے کہ اصل صوبائی خودمختاری کے لئے ایک آصف زرداری کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مشرقی پاکستانیوںکے پاس شیخ مجیب الرحمن تھا۔ اس نے فوج کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑ کے‘ صوبائی خودمختاری کے بجائے ‘مکمل آزادی حاصل کر لی۔ موجودہ پاکستان میں صوبائی خودمختاری کا نعرہ‘ سیدقائم علی شاہ کے گلے پڑ گیا ہے۔ میں جناب آصف زرداری کی سیاسی صلاحیتوں کا قائل ہوں۔ وہ اکثر اوقات اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے گھوڑاغلط چلا بیٹھتے ہیں۔ جیسے کہ اب رینجرز کی آڑ میں ‘ فوج سے ٹکر لینے کے لئے‘ زرداری صاحب نے قائم علی شاہ کا انتخاب کیا ہے۔ گویا توتا توپ چلائے گا۔ ادھرشاہ صاحب نے گھمسان کا رن پڑنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ مجھے تو اپنے سر کا ہی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ان کے الفاظ میں‘ انہیں کپتان تو بنا دیا گیا تھا، لیکن پتہ ہی نہیں کہ کپتان کا سر کہاں گیا؟ یہ بھی عجیب بات ہے کہ عمرعزیز کے 90 سال گزرنے کے بعد‘ شاہ صاحب کو اپنے سر کی ضرورت پڑی‘ تو ڈھونڈنے پر سر ہی گمشدہ نکلا۔ حال یہ ہے کہ آصف زرداری کے گھوڑے کو اپنے سر کا سراغ نہیں مل رہا۔ سرکے بعد بندے کے پاس پیر ہوتے ہیں‘ جن پر وہ کھڑا ہو سکے۔ شاہ صاحب کے تو پیر بھی ہر وقت لڑکھڑائے سے رہتے ہیں۔ اس کی تشخیص کرتے ہوئے مشاہد اللہ خاں نے بتایا کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور سائیں سرکار کا سندھ ‘حالت بھنگ میں ہے۔ آصف زرداری ماہر گھڑ سوار ہیں۔ مگر وفاق سے لڑنے کے لئے انہوں نے ‘جس گھوڑے کا انتخاب کیا‘ وہ حالت بھنگ میں ہے۔ شاہ صاحب کو اپنا سر غائب ہونے کی جو شکایت ہے‘ یہ صرف حالت بھنگ میں ہی کی جا سکتی ہے۔ ورنہ وہ اپنے گم شدہ سر سے ‘ذرا سا بھی کام لیتے‘ تو پتہ چل جاتا کہ سر جوں کا توں ان کے کندھوں پر موجود ہے۔ وہ حوصلہ کریں اور وفاق کے ساتھ جو ناگزیر لڑائی‘ ان کے گلے پڑ گئی ہے‘ اسے لڑ کر دکھا دیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے وفاق کے ساتھ جنگ کے لئے ‘غلط گھوڑے کا انتخاب کیا۔ لیکن آصف زرداری بھی کیا کریں؟ رینجرز نے قدم ہی ایسا اٹھایا کہ کراچی آپریشن کی مہم‘ شاہ جی کے زمانہ اقتدار میں شروع ہوئی۔ شاہ جی نے ساری عمر‘فرمانبردار وزیراعلیٰ کے طور پہ گزاری۔ان کی عمر کا آخری حصہ شروع ہوئے دو تین عشرے گزر چکے ہیں۔ وہ ہلکے پھلکے کاموں کے لئے تو موزوں ہیں۔ ابھی تک ان سے ہلکے پھلکے کام لئے گئے۔ وہ بھی اطمینان سے کرتے رہے، مگر وفاق سے ٹکر لینے کا مشکل کام‘ اس وقت ‘ان کے سپرد ہوا‘ جبکہ وہ خود ہی اپنا سر غائب ہونے کا اعلان کر چکے تھے۔ کوئی ہے؟ جو شاہ جی کا گمشدہ سرڈھونڈ کر انہیں واپس لا دے؟ سرکاری ملازمت کے لئے بھی امیدوار کے ذہنی معیار کا امتحان لیا جاتا ہے۔ شاہ جی خوش نصیب ہیں کہ اس امتحان سے بچ گئے اور انہیں ''ڈائریکٹ حوالدار‘‘ یعنی کپتان بھرتی کر لیا گیا۔ انہیں ذہنی آزمائش کے بغیر ہی کپتان بنا دیا گیا۔ ایک عرصے تک انہیں سر کی ضرورت نہیں پڑی اور جب ضرورت پڑی‘ تو انہوں نے خود ہی میڈیا کے سامنے اعتراف کر لیا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں، میرا سر کہاں چلا گیا؟ کہیں یہ حرکت مشاہداللہ خاں نے تو نہیں کی؟ ہو سکتا ہے‘ اسی لئے انہوں نے پورے وثوق سے حالت بھنگ کا اعلان کیا ہو۔ شاہ جی اب بھی چاہیں‘ تو مشاہد اللہ خاں کے پاس جا کر اپنا سر مانگ سکتے ہیں۔ پتہ میں نے بتا دیا ہے۔ آگے شاہ صاحب کی اپنی مرضی۔ شاہ صاحب نے اپنا سر غائب ہونے کا انکشاف‘ اس عمر میں آ کر کیا۔ ہو سکتا ہے‘ کوئی حکمت ہو۔ یعنی سر پہلے سے غائب ہو اور شاہ جی کو اس کی ضرورت اب پڑی ہو۔ پاکستانی سیاست کے تحیرات بھی خوب ہیں کہ برسوں وزیراعلیٰ رہنے کے بعد پتہ چلا کہ اپنے پاس تو اپنا سر ہی نہیں۔ شاہ جی اچھی بھلی زندگی گزارتے آ رہے تھے۔نہ جانے کب تک گزارتے رہتے ؟ بیچ میں ڈاکٹر عاصم حسین کا پتھر آ گیا۔ شاہ جی کو ٹھوکر لگی۔ سر کی ضرورت پڑ گئی اور انہیں سارے الیکٹرانک میڈیا کے سامنے اپنے سر کی گمشدگی پر حیرت کا اظہار کرنا پڑا۔ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کو رینجرز نے گرفتار نہ کیا ہوتا‘ تو دنیا کو کیا فرق پڑتا؟ شاہ جی زندگی کی ڈیڑھ دو صدیاں آرام سے گزار آئے تھے۔ باقی جو ڈیڑھ دو صدیاں بچی ہیں‘ وہ بھی سکون سے گزار لیتے۔ بیچ میں رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو اٹھا کر ‘ رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔مشاہد اللہ کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ سائیں کی سرکار حالت بھنگ میں ہے۔
سائیں سرکار پچھلی صدی سے وزیراعلیٰ چلے آ رہے ہیں۔ انہیں کسی بھی صدی میں اتنے بڑے امتحان سے دوچار نہیں ہونا پڑا‘ جو امتحان اب ان پر آن پڑا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ اس بات پر جھلاتے ہوں گے کہ میری وزارت اعلیٰ کی دوسری صدی بھی ‘خیریت سے گزر جاتی اگر بیچ میں عاصم حسین نہ آ ٹپکتا۔پتہ نہیں‘ ڈاکٹر عاصم حسین کی قسمت خراب تھی یا سائیں سرکار کی؟ڈاکٹر عاصم حسین کے لئے مختلف محکموں کی باہمی کھینچاتانی دیکھ کر مجھے ایک فلم کا ڈائیلاگ یاد آتا ہے‘ جس میں ''ڈان‘‘ بتاتا ہے کہ کتنے ملکوں کی پولیس اسے تلاش کر رہی ہے؟ ڈان تو صرف پولیس کو مطلوب تھا‘ جوصرف ایک ہی محکمہ ہے۔ ہمارے ڈاکٹر عاصم کی میزبانی کے لئے تو پورے کے پورے محکموں کے درمیان کھینچاتانی ہو رہی ہے۔ ہر محکمے کا اس پر زور ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی میزبانی وہ کرے گا۔ لیکن طاقتور کے سامنے کس کا بس چلتا ہے؟ جس کی قسمت میں ڈاکٹر عاصم کی میزبانی لکھی ہے‘ کوئی دوسرا محکمہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ رینجرز زیادہ تربیت یافتہ اور مہارت جنگ میں سب سے بہتر ہے۔میں پولیس کی حالت پر کچھ لکھنے کی سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے لائل پور کے ایک پنجابی شاعر عبیر ابوذری کا شعر یاد آگیا۔
پلُس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی؟
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کیـ؟
یہ محض شاعرانہ خیال ہے۔ ورنہ سندھ کی پولیس تو ان دنوں خود ٹکور کر رہی ہے۔ وہاں اینٹی کرپشن کا چیئرمین ‘کرپشن کے الزام میں جیل کے اندر ہے۔ ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری‘ ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔ ان دونوں کے گھروں سے بڑی بڑی رقوم برآمد ہوئی ہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملازم ہو کر بھی پیسہ چھپانا نہیں آیا۔ ان سے اچھے تو ہمارے سیاستدان ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک کسی کے گھر سے بڑی رقم نہیں پکڑی جا سکی۔ اس سے تو بہتر تھا کہ یہ سرکاری ملازم‘ سیاست میں آ جاتے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے بارے میں کیسی کیسی افواہیں پھیلی ہیں؟ ان کے گھر سے کچھ برآمد نہیں کیا جا سکا۔ ممکن ہے‘ ان کی تفتیش کرنے والوں نے گھر کا رخ ہی نہ کیا ہو۔ ڈاکٹر عاصم کوئی معمولی آدمی نہیں۔ پاکستان میں کون ایسا شخص ہے؟ جسے ہاتھ لگانے پر وفاق خطرے میں پڑ جائے۔ ڈاکٹرعاصم توسندھ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سندھ میں رینجرز گئی‘ تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ڈاکٹر عاصم کو ہاتھ لگایا‘ تو شور مچ گیا کہ وفاق نے سندھ پر حملہ کر دیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم حسین اور سندھ میں کیا فرق ہے؟ ایک غیرمصدقہ خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے اپنی مقبوضہ زمین کا کچھ حصہ‘ واپس دینے کی پیش کش کی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سائیں سرکاراور ''سائیں کا سائیں‘‘ اتنا بھی کمزور نہیں کہ سندھ کی حکومت‘ ڈاکٹر عاصم حسین سے زمین واپس لے سکے۔ بہت کم لوگوں کو یادہو گا کہ پاکستان میں سب سے پہلے سندھ ہی وہ صوبہ تھا‘ جس نے قومی سیاست میں ہلچل برپا کی۔ سندھ کے سیاسی استحکام کی نشانی سیدقائم علی شاہ ہیں۔ انہیں نہ ہی چھیڑا جائے تو اچھا ہے۔ سائیں تو وزارت اعلیٰ کی دوسری صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟ وفاق کو 18ویں ترمیم ملے ہوئے ‘جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ وفاق دوسری صدی پر چڑھے ہوئے سائیں سرکار کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین پہلے جیل سے باہر آتے ہیں یا سائیں سرکار وزیراعلیٰ ہائوس سے؟ عاصم حسین‘ وفاق کی علامت ہیں اور سائیں سرکار سندھ کی۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس وفاق سے زیادہ پیسہ ہے۔ وفاق کے پاس جو کچھ ہے‘ قرضے کا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے پاس ساری دولت ‘ان کی اپنی ہے۔ کسی کو یونہی تو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جاتا۔
چلتے چلتے:-قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ کرپشن لیاقت علی خان کے زمانے میں بھی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ شہید ِملت لیاقت علی خاں نے اپنا سب کچھ ملک کو دے دیا اور آج کے لیڈر یہ ہیں کہ ملک کا سب کچھ اپنے گھروں میں ڈال لیا۔