اس پرچے کی ایک قابلِ ذکر بات تو یہ ہے کہ 75 صفحات پر مشتمل اس کی قیمت صرف پندرہ روپے ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ایسی انجمنوں اور رسائل کو گرانٹ بھی دی جاتی ہے اور اگر اس وجہ سے یہ قیمت سب سی ڈائزڈ ہے تو بھی قابلِ تعریف ہے۔ نیز اس میں عمدہ سفید کاغذ استعمال کیا ہے۔ معمول کی اصنافِ نظم و نثر کے ساتھ ساتھ اس میں چند دلچسپ مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پروفیسر عبدالحق کے مضمون ''اقبال اور مومن کی شاعری‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
غالب کے معاصرین سے چشم پوشی کا جواز اقبالؔ کے نظریۂ حیات کے افکار و اعلام ہیں۔ یوں بھی اقبال سے توقع کرنا بیسود ہے کہ وہ اردو کے تمام تخلیق کاروں سے با خبر ہوں۔ معروف فارسی شعرا کا کلام ان کے مطالعہ میں ہے کیونکہ اکثر حوالے ملتے ہیں۔ اردو کا معاملہ برعکس ہے۔ ان کے کلام میں اردو شعرا کا اسلوب و آہنگ بھی ناپید ہے۔ ابتدائی دو چار غزلوں پر داغ کے مؤثرات نمایاں ہیں۔ وہ غزلیں بھی متروک ہیں۔ صرف ایک غزل ہے جو بانگِ درا میں موجود ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ظریفانہ شاعری میں اکبرؔ کی پیروی کی ناکام کوشش بہت نمایاں ہے۔
اقبالؔ کے ایک خط کا متن ملاحظہ ہو:
لاہور، 9نومبر 1934ء ...جنابِ من! آپ کی نوازش ہے کہ آپ نے اپنی مرتبہ غزلیاتِ مومنؔ کا ایک نسخہ مجھے عنایت فرمایا جس کی ترتیب و تدوین میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بڑی کاوش سے کام لیا ہے۔ میں نے مومنؔ کو زندگی میں پہلی مرتبہ پڑھا لیکن مجھے اعتراف ہے کہ ان کی شاعری سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ شاذو نادر ہی وہ تغزل کے کسی حقیقی جذبے تک پہنچ سکے ہیں۔ ان کے خیالات طفلانہ ہیں۔ وہ اکثر اپنے جذبات کے سوقیانہ پن کو چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے اندازِ بیان میں وضاحت کی کمی، ہندوستانی مسلمانوں کے انحطاط پذیر جذبۂ حکمرانی کا ایک اہم اذیت ناک ثبوت بھی ہے۔ (کلیاتِ مکاتیب اقبال صفحہ 246 )
اس کے علاوہ ڈاکٹر ندیم احمد کا مضمون ''بیگمات واجد علی شاہ‘‘ سے ایک اقتباس:
اس ضمن میں کچھ نام آخری تاجدار اودھ واجد علی شاہ اخترؔ کی بیگمات کے بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی تقریباً 70 بیگمات اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتی تھیں۔ ان کے دربار میں ہمیشہ شعر و شاعری کا ماحول رہتا تھا۔ شاعری سے نسبت ہونے کی وجہ سے انہوں نے کئی شعراء کو نہ صرف اپنے دربار میں ملازمتیں دے رکھی تھیں بلکہ جاگیریں تک بخش رکھی تھیں۔ ان کے دورِ اقتدار یعنی 1846ء سے 1856ء تک اودھ کے گھر گھر میں موسیقی اور شاعری کی صدائیں گونجتی تھیں۔ کلکتہ میں ان کے ذریعے تعمیر کردہ مَٹبیا برج اور ان کا قائم کردہ ''مطبع سلطانی‘‘ جسے اردو کا سب سے پہلا لیتھوپریس ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، اس بات کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں کہ واجد علی شاہ علم و ادب اور شعر و سخن کے کس قدر دلدادہ تھے...
مضمون میں آٹھ عدد بیگمات کا مختصر تعارف اور شاعری کے نمونے پیش کیے گئے ہیں:مثلاً
گر رہے گا یہی تمہارا رنگ
دُور ہو جائے گا ہمارا رنگ
(امرائو محل)
لاکھوں ہی میں ہیں صورتِ جاناں کے شیفتہ
ہم کس قطار میں ہیں ہمارا شمارکیا
افسردگی ہے غنچہ و خاطر کو ہجر میں
بگڑی ہوئی چمن کی ہمارے بہار ہے
(حور بیگم)
کیوں یاد بھلائی مری یہ شکوہ ہے تم سے
جو چاہنے والے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے
کیوں ہم سے چھپاتے ہو تم راز کی باتیں
ہم تم سے کسی بات کا پردہ نہیں کرتے
(شیدا بیگم)
اور اب، ظفر اقبال کی غزل کا اختصاص: چند پہلو، کے عنوان سے ظفر النقی کے مضمون سے ایک اقتباس:
ظفر اقبال کے اس طرح کے شعروں کو پڑھنے کے بعد جن میں فکر اور زبان دونوں سطحوں پر امکانات روشن ہیں، جب ایسے اشعار جن کا تعلق زبان و بیان کی انتہا پسندی سے ہے اور جس سے ظفر اقبال کی شاعری کافی بدنام بھی ہوئی ہے، قاری دونوں کے درمیان رشتہ تلاش کرتا ہے کہ ظفر اقبال کی ایسی شاعری کو ان کے کس ذہنی رویے کا نام دیا جائے۔ شمیم حنفی نے ظفر اقبال کے اس طرح کے شعروں کے بارے میں لکھا ہے:
''یہ زندگی کی لایعنیت یا بعض Absurd لمحات پر اظہار خیال کے بجائے فی نفسہ چند لایعنی لمحوں کی تصویریں ہیں۔ انہیں یک رنگی اور یکسانیت یا وجود کی دیوار سے جھانکتے ہوئے بدوضع دھبوں کی مثال سمجھنا چاہیے اور آگے بڑھ جانا چاہیے... کیونکہ اس دیوار پر ظفر اقبال نے جتنی تصویریں آویزاں کی ہیں، ان کے انداز جدا جدا ہیں اور اگر انہیں کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے تو صرف ظفر اقبال ہے۔
اور اب صفحہ 38 پر چھپا ایک اشتہار بھی قابل ملاحظہ ہے:
مونو گراف حضرت وارث شاہ
وارث شاہ جنہیں بجا طور پر پنجابی زبان، پنجابی شاعری اور پنجابی ثقافت، تہذیب و تمدن کا وارث کہا جاتا ہے۔ ان پر یہ مونو گراف بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ اس میں وارث کے حالاتِ زندگی بھی بھرپور تحقیق و توجہ کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔ ہیر رانجھا کی کہانی کو اسی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے جس میں وارث شاہ نے اسے تحریر کیا تھا تاکہ اس عظیم شاعر کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی پڑ سکے۔
مصنف: رتن سنگھ، صفحات 132،قیمت 45 روپیہ، ناشر: اردو اکادمی، دہلی
پرچے کے نگران ڈاکٹر ماجدؔ دیو بندی، وائس چیئرمین ادارہ، مدیر ایس ایم علی، سیکرٹری اور مدیر اعزازی راغب الدین ہیں جو اردو اکادمی دہلی، سی پی او بلڈنگ، نزد رٹز سینما، کشمیری گیٹ دہلی سے شائع کیا گیا ہے۔
آج کا مطلع
جیسے ہوں شہر بدر شہر میں آیا ہوا میں
یاد آئوں گا کسی روز بھلایا ہوا میں