تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     25-12-2015

نعت کا تقدس اور حفیظ تائب کی نعت

جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تو آج بہار (عربی میں بہار کو ربیع کہتے ہیں‘ بہار کے پہلے مہینے سے مراد ہے ربیع الاول) کے پہلے مہینے کی 12ویں تاریخ ہے۔ کائنات کی تقویم میں یہ سب سے روشن اور سب سے بڑا دن ہے۔ یہ دن مِثل ماہتاب دمکتا اور چمکتا ہے کہ اسی مبارک دن وہ ہستی ﷺ جلوہ افروز ہوئی جس کے استقبال کو رب دوجہاں نے اس کائنات کو سجایا۔ کائنات کی ایک ایک شے‘ نبی رحمتؐ کی قدم بوسی کی زمانوں سے منتظر تھی۔ بہار کے پہلے مہینے کا بارہواں دن۔ آج مسلمانوں کی بے وقعتی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم تو دنیا کے سب سے پُرامن ‘ متوازن اور قابل عمل مذہب کے ماننے والے ہیں لیکن ہم نے اپنی بے علمی اور بے عملی کی بدولت دین روشن کو محض روایتوں اور ملوکیت میں الجھا کر رکھ دیا ۔ہم نے تو نعت رسول مقبولﷺ کے تقدس کو بھی خالص نہیں رہنے دیا ۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ نعت کا اصل اثاثہ تو سچی عقیدت ہی ہے لیکن اظہار عقیدت کا سلیقہ بھی نعت گوئی کے لوازم میں شامل ہے۔ زبان و بیاں پر کامل اقتدار اور جذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ کمال احتیاط آسان کام نہیں۔ اسی لیے عرفی نے رہ سنت کو ''دم تیغ‘‘ کہا تھا۔ اردو ادب کو ایسے خوش قسمت نعت گو شاعر میّسر آئے جنہوں عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ایسی نعتیں کہیں جو روح کے تاروں کو چھیڑدیتی ہیں۔ حفیظ تائب اردو ادب میں ایسا ہی ایک روشن اور چمکتا ہوا نام ہے۔ جن کے بارے میں کہا گیا کہ حفیظ تائبؒ نعت صرف کہتے نہیں بلکہ نعت میں زندہ رہتے ہیں۔ سبحان اللہ یہ بھی عشق رسولؐ کی ایک منزل ہے جسے نصیب ہو جائے۔ احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال نعت گو شاعر کے بارے میں کہا تھا کہ ہم نعت کے عہد حفیظ میں زندہ ہیں۔ خود احمد ندیم قاسمی نے نعت کے کچھ ایسے اشعارکہہ رکھے ہیں کہ وہ مضامین نعت میں پہلے نہیں باندھے گئے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
اس سطح کا نعتیہ شعر کہنے والے نے حفیظ تائب مرحوم و مغفور کے نعتیہ کلام کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا کہ ''ہم عہد حفیظ میں زندہ ہیں‘‘۔ سرتاپا عشق رسول ﷺ میں ڈوبے ہوئے حفیظ تائب کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے۔ اس صبر اور شکر کے ساتھ بیماری کی سختیاں برداشت کیں کہ جن کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ حفیظ تائب بسترِ مرگ پر تھے بیماری اپنی انتہا پر پہنچ چکی تھی‘ان کے بھائی عبدالمجید منہاس انہیں اپنے گھر تیمار داری کے لیے لے آئے تھے جہاں وہ اپنے بھائی سے زیادہ اس سوچ کے ساتھ ان کی خدمت کر رہے تھے کہ وہ ایک سچے عاشق رسولﷺ کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ اخبار کی ایک اسائنمنٹ کے تحت ہم سکول کے بچوں کو لے کر جناب حفیظ تائب ؒ کی عیادت کے لیے پھول لے کر گئے۔ ان کی چارپائی ڈرائنگ روم میں لا کر رکھی گئی‘ وہ بولنے سے قاصر تھے۔ جب ایک ننھی بچی نے حفیظ تائب صاحب کی کہی ہوئی درد میں ڈوبی مناجات نما نعت سنائی تو عاشق رسول کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ یہ نہایت جذباتی منظر تھا۔ وہاں موجود سب کی آنکھیں اس نعت کی تاثیر سے نم ہو چکی تھیں۔ یہ کسی بھی اخبار کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی چند ہفتوں کے بعد ہی عاشق رسول نعت گو شاعر حفیظ تائب ملک عدم کو روانہ ہو گئے۔ڈاکٹر تحسین فراقی نے حفیظ تائب کی نعت کے حوالے سے کہا کہ میں حفیظ تائب کی بعض نعتوں کو نعتیہ آشوب کہوں گا۔ ان نعتوں میں نبی پاکؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا تمام آشوب بھی سمٹ آیا ہے ؎ 
دیکھا نہ تھا چشمِ آدمی نے
اخلاص کا ایسا کال آقاﷺ
اخلاص کا یہ کساد مولا
انصاف کا یہ زوال آقاﷺ
جائیں تو کدھر کہ چار جانب
فتنوں کے بچھے ہیں جال آقاﷺ
حفیظ تائب کے نعتیہ کلام کے چند اور نمونے ملاحظہ کریں ؎
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں، وہ بس آرزوئے نبیؐ رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی کبھی درد بن کے دبی رہی
وہی ساعتیں تھیں سرورکی وہی دن تھے حاصلِ زندگی
بحضورشافع امتاّں مری جن دنوں حاضری رہی
تھی ہزار تیرگئی فتن‘ نہ بھٹک سکا مرا فکرو فن
میری کائنات خیال پر نظرِ شہِہ عربی رہی
اور یہ ایک نعت جسے اپنے وقت کے بہترین نعت خوانوں نے جذب و عقیدت میں ڈوب کر اس طرح پڑھا کہ نعت کے پرسوز الفاظ سننے والوں کی سماعتوں کی راہ سے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گئے ؎
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
اے رحمتِ عالم تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں تیرے در پہ بہ دامانِ دریدہ
اور اب آخر میں وہ نعت ‘جو صاحب فراش عاشق رسولﷺ کو سکول کی ننھی بچی نے ان کی زندگی کے آخری دنوں میں سنائی ؎
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیﷺ
ایک شیریں جھلک‘ ایک نوریں ڈلک‘ تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیﷺ
روح ویران ہے آنکھ حیراں ہے‘ ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گلشنوں شہروں‘ قریوں پر ہے پرفشاں ایک گمبھیر افسردگی یا نبیﷺ
سچ مرے دور میں جرم ہے‘ عیب ہے جھوٹ فن عظیم آ ج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی ایک آزار ہے آگہی یا نبیﷺ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہِ عربؐ ‘تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہو گی شاخ تمنا مری کب مٹے گی مری تشنگی یا نبیﷺ
اور یہ انتہائے کرب آخری شعر میں اور بھی دو چند ہو جاتا ہے:
یا نبیﷺ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیئے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیﷺ
عاشق رسول کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، گویا وہ آنسوئوں کی زبان میں نبی رحمتؐ کے حضور ایک بار پھر اپنی عرضی بیان کر رہے تھے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved