لودھراں کے عوام نے آخر کار وہ کر دکھایا‘ جس کے انتظار میں عمران خان ‘ پاکستان کے خارزار سیاست میں برسوں سے ننگے پائوں چل رہے ہیں۔ صدیق بلوچ ہارنے کے بعد کہتے ہیں کہ جہانگیرترین نے ایک ارب روپے لگا کر ووٹ خریدے۔ اگر یہ ووٹر اتنے ہی سستے تھے‘ تو سرکار کا ڈنڈا اور خزانہ انہیں کیوں نہ خرید سکا؟جن ووٹروں نے گزشتہ عام انتخابات میں صدیق بلوچ کو ووٹ دیئے تھے‘ اس بار بھی ووٹر تو وہی تھے۔کیا انہوں نے صدیق بلوچ سے بھی پیسے لئے تھے؟ ہمارے سیاستدان ابھی تک عوام کی سوچ کو نہیں سمجھ پائے۔ یہ تو ممکن ہے کہ حکومت کی دھاندلی‘ کمزور امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کر دے ‘لیکن بکائو ووٹوں سے‘ انتخابی کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ بہت کم حلقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ دولت ‘ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو۔ دولت‘ بکائو چوہدری یا برادری کے بابے‘ بعض مقامات پر ضرور لیتے ہیں‘ مگر اتنے ووٹ کسی چوہدری یا بابے کے پاس نہیں ہوتے کہ وہ نتائج کو یکسر بدل دیں۔ صدیق بلوچ بڑے بھولے گریجویٹ لگتے ہیں۔ان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ گریجویٹ تو کیا‘ میٹرک بھی نہیں‘لیکن انتخابی ضروریات کا کمال ہے کہ انہیں مجبوراً گریجویٹ بننا پڑا اور کمال یہ ہے کہ وہ اچھے اچھے اداروں میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ گریجویٹ ہیں۔ مگر ایسے گریجویٹ بھی نہیں‘ جن سے اکبر الٰہ آبادی کی زبان میں یہ کہا جا سکے ؎
تو بھی گریجویٹ ہے‘ میں بھی گریجویٹ
علمی مباحثہ ہو‘ ذرا پاس آ کے لیٹ
میں نے ٹی وی پر‘ مجرے کی وہ فٹیج دیکھی ہے ‘ جس کا انتظام صدیق بلوچ صاحب نے کیا تھا۔ گانے تو سننے میں نہیں آ رہے تھے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجبورخواتین‘ پنجابی گیتوں پر ٹھمکے ضرور لگا رہی تھیں۔ علمی مباحثے کی دعوت دینے کی قابلیت ‘ان کے بس میں نہیں تھی۔ صدیق بلوچ صاحب ضمنی الیکشن میں مقابلے کے لئے کھڑے ہو کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔ سیاسی طاقت کا بھرم بھی گیا۔ کئی نسلوں سے عوام کی جس خدمت کا وہ ریکارڈ بتاتے تھے‘ وہ بھی ثابت نہ ہو سکا اور عام انتخابات میں ان کی جیت کا جو بندوبست کیا گیا تھا‘ وہ بھی دوبارہ نہیں ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو میں جانتا ہوں۔ میاں نوازشریف سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں‘لیکن ان کا کوئی امیدوار ‘الیکشن جیتنے کے لئے مجرا نہیں کراسکتا۔ جتنا گھٹیا مجرا‘ صدیق بلوچ صاحب کرا رہے تھے‘ اسے کون شریف آدمی دیکھے گا؟ میں نے صدیق بلوچ صاحب کی گزشتہ انتخابی مہم نہیں دیکھی۔ لگتا ہے کہ پچھلی بار وہ چوک گئے ہوں گے۔ الیکشن ‘مجرے کے بغیر کرا دیا اور جتنے لوگ انہیں ووٹ دینے آئے‘ وہ مجرا دیکھنے سے محروم رہے ہوں گے۔ اسی لئے بلوچ صاحب کو شریف آدمی سمجھ کر ووٹ دے گئے۔ ثابت ہوا کہ ان کی انتخابی کامیابی کا بندوبست ‘سرکار نے کیا تھا۔ جو مجرا اس بار ہوا‘ یقینی طور پر ان کی پارٹی نہیں کرا سکتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض بدذوق افسروںنے‘ کارروائی ڈالنے پر‘ زور کچھ زیادہ لگا دیاہو۔ صدیق بلو چ بھی ہار گئے اور مجرے کا بندوبست کرنے والے افسر بھی لودھراں سے اپنا تبادلہ کرانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے۔میرا مشورہ تویہ ہے کہ اس کارکردگی پر ان کا تبادلہ نہ کیا جائے اورکیا جائے‘ تو موجودہ مقام سے بھی کہیں دور پھینک دیا جائے۔ یہاں تک تو پھکڑ بازی چل رہی تھی۔ اب ذرا انتخابی نتیجے کا جائزہ لیتے ہیں۔
عمران خان کی سیاسی کارکردگی‘ انتخابات کے روایتی ماہرین کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ ہمارے ملک کے روایتی سیاستدان‘ عوامی مزاج کو سمجھ سکتے تواقتدار میں آنے کے بعد‘ عوام کے بجائے دولت پر زیادہ توجہ نہ دیتے۔ پاکستان عشروں کی لوٹ مار کے بعد بھی‘ اللہ کے فضل سے اتنا گیا گزرا نہیں۔ یہ ملک وسائل سے مالامال ہے۔ قدرتی خزانوں سے بھرا ہے۔ اگر ہمیں اوسط درجے کے سیاسی لیڈر بھی مل جاتے‘ تو ہمارا شمار دنیا کی متوسط قوموں میں ضرور ہوتا۔ جس ملک میں سونے کی کان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا ہو اور جن لوگوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا گیا ہو‘ ان کی چھان بین کرنے پر کسی نے توجہ نہ دی ہوکہ وہ کتنا سونا باہر لے گئے ہیں‘جس ملک میں کوئلے کے بڑے عالمی ذخیرو ں میں سے ایک ذخیرہ موجود ہو اور دنیا میں گیسیفکیشن کا طریقہ رائج ہو چکا ہو اور ہمارے سائنسدانوں نے وہ طریقہ دریافت کر رکھا ہو‘اس کے باوجود ملک میں تاریکیاں بڑھتی جا رہی ہوں‘ وہاں خوشحالی کیسے آ سکتی ہے؟ جس ملک کے حکمرانوں نے واحد ذریعۂ آمدنی خُردبرد کو بنا رکھا ہو‘ اس کے سرکاری خزانے میں پیسہ کہاں سے آ سکتاہے؟ ہمارے قومی خزانے میں‘ صرف دو طرح سے پیسہ آتا ہے۔ ایک ان محنت کش پاکستانیوں کی کمائی‘ جو وہ دن رات کام کر کے جمع کرتے ہیں اور اپنے اہل خاندان کے لئے واپس وطن بھیج دیتے ہیں اور دوسرا وہ قرضے‘ جو ہمارے مالیاتی ماہرین‘ عالمی اداروں اور ملکوں سے لیتے ہیں۔ ان کی واحد کارکردگی یہ ہوتی ہے کہ وہ کس ملک اور ادارے سے کتنی مہنگی شرطوں پر ‘ کتنا زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں؟ صحیح اعدادوشمار کا تو پتہ نہیں‘لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت‘ اپنی پیشرو حکومت سے زیادہ سودپر ‘قرضہ لیتی ہے اور پہلے سے زیادہ لیتی ہے۔ جتنا قرضہ پچھلے باسٹھ تریسٹھ برسوں میں لیا گیا‘ اس کے تقریباً مساوی قرضہ گزشتہ اڑھائی سال میں لیا جا چکا ہے۔ باقی رہ گئے ہم پاکستانی‘یہ بدنصیب عوام‘ حکمرانوں کے یرغمالی ہیں۔ جب جی چاہتا ہے‘ ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ جمہوری ملکوںمیں عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری لینا پڑتی ہے۔ دنیا میں ہر جگہ اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ'' نمائندگی نہیں‘ تو ٹیکس بھی نہیں۔ ‘‘ یعنی اگر منتخب پارلیمنٹ‘ ٹیکس لینے کی منظوری نہ دے‘ تو حکومت کو عوام سے پیسہ وصول کرنے کا اختیار بھی نہیں رہتا۔ پاکستانی عوام کی لاچاری دیکھئے کہ جس وزیرخزانہ کا جب دل چاہتا ہے‘ وہ کوئی نیا ٹیکس لگا کر‘ اربوں روپے وصول کر لیتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے نمائندے‘ اپنے کام لینے کے لئے تو سارا زور لگا دیتے ہیں۔ لیکن عوام کو ٹیکسوں سے بچانے کے لئے نہ تو پارلیمنٹ میں بولتے ہیں اور نہ سڑکوں پر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے غریب عوام بچت کے سارے طریقے آزمانے کے بعد‘ ضرورت سے کم خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو مکمل لازمی خوراک میسر نہیں‘ جس کی وجہ سے ان کی صحت‘ عالمی معیاروں کے مطابق نہیں ہے۔
اس وقت اسمبلیوں میں جانے والی ساری پارٹیاں‘ عوام سے لاتعلق ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں جا کر سڑکوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ تھانوں اور پٹوار خانوں کی حالت دیکھ لیں‘ ہر چیز تیسرے درجے کی ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا یا پڑھا ہو گا کہ پارلیمنٹ میں اس عمومی فرسودگی کو ختم کرنے کے لئے کسی نے آواز اٹھائی ہو۔پینے کا پانی بھی مضر صحت ملتا ہے ‘جس کے نتیجے میں عوام کی اکثریت ‘پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے۔ اس پست ترین معیار زندگی سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پست ترین سیاسی میٹریل کو باہر پھینک دیا جائے۔ اس کا طریقہ کیا ہے؟ وہ لودھراں کے بہادر عوام نے عملاً کر کے دکھا دیا ہے۔ ہماری نجات صرف اس میں ہے کہ ملک میں موجود ہر قسم کے سیاسی میٹریل کو کوڑے کی طرح باہر پھینک دیا جائے۔ جب تک ہم سیاسی کوڑے اور کاٹھ کباڑ کو اسمبلیوں میں بٹھائے رکھیں گے‘ ہماری حالت بدسے بدتر ہوتی جائے گی۔ عمران خان چالاک بیشک نہ ہو‘لیکن بیوقوف نہیں۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جو کچھ وہ آپ سے کہتا ہے‘ کر کے دکھاتا بھی ہے۔ موقع محل کی مناسبت سے وہ سچ کو چھپانے کا عادی نہیں۔ جب بلدیاتی الیکشن ہونا تھے‘ تو ان سے صرف ایک دن پہلے اس کی طلاق کا تکلیف دہ واقعہ ہوا اور لودھراں کے الیکشن سے دو تین دن پہلے ‘ اس نے میانوالی میں سپورٹس سٹیڈیم کے لئے عوام سے زمین مانگ لی اور وہ بھی ایسے کھردرے انداز میں کہ'' اگر اب زمین دے دو گے تو پیسے مل جائیں گے‘ ورنہ کل میں اقتدار میں آ گیا‘ تو سرکاری قانون کے مطابق مفت لے لوں گا۔‘‘سب کا خیال تھا کہ عمران نے سیاسی خودکشی کر لی۔ لیکن طلاق کے فوراً بعد‘ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میںووٹ اتنے ہی ملے‘ جتنے ہونا چاہئیں تھے۔ کیونکہ بلدیاتی نظام کی جو درگت بن چکی ہے‘ اس میں ووٹ ملنا یا نہ ملنا بے معنی تھا۔ لودھراں کی انتخابی مہم میں حکومت نے عمران کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر زمین چھین لے گا۔ نتیجے میں اسے 43ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی مل گئی۔ ان دو باتوں سے اندازہ کیا جا
سکتا ہے کہ اس بار عوام کا رجحان کیا ہو گا؟ جہاں انہیں انتخابی نتائج سے کسی فائدے کی امید نہیں ہو گی‘ عوام اپنا ووٹ ان لوگوں پر ضائع کر دیں گے‘ جن کی کامیابی سے انہیں کسی فائدے کی توقع نہ ہو اور وہاں پرجوق در جوق ووٹ دیں گے‘ جہاں کا نتیجہ روایتی سیاست کوچوٹ لگا سکتا ہو۔ چوٹ لودھراں سے لگ گئی۔ عام انتخابات میں یا تو عمران خان پر عوام کے اعتماد کابھرپور اظہار ہو جائے گا یا موجودہ سیاسی میٹریل اقتدار پر مسلط رہاتو ہم معاشی طور پر ایتھوپیا کے آس پاس پائے جائیں گے۔چین کی سرمایہ کاری پر ہمارے حکمران جو خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ فریب کاری کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ چینی اپنا پیسہ بڑی محنت سے کماتے ہیں اور انتہائی احتیاط سے خرچ کرتے ہیں۔ چینیوں کے پیسے پر ‘کوئی مفت خورہ عیش نہیں کر سکتا۔