تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-12-2015

جی ہاں

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ امن! جی ہاں، خوش آمدید‘ صمیم قلب سے خوش آمدید۔ مگر زبان کی نہیں ہم عمل کی گواہی چاہتے ہیں۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم تو سو بار ڈسے جا چکے۔
بھارت کے بارے میں میاں محمد نواز شریف کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے اور پاکستان کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی۔ وقتی طور پر تو ممکن ہے۔ معجزہ ہو جائے تو اور بات ہے‘ اپنے کردار اور ترجیحات سے کسی کو رہائی ورنہ نہیں ملا کرتی۔
بنگلہ دیش میں وزیر اعظم بھارت نے کیا ارشاد کیا تھا اور پاکستان روانگی سے پہلے کابل میں انہوں نے کیا کہا؟ ڈھاکہ میںکہا تھا کہ پاکستان توڑنے کے لیے، علیحدگی پسندوں کے ساتھ وہ ڈٹ کر کھڑے تھے۔ کابل میں ''دہشت گردی برآمد‘‘ کرنے کا گیت گاتے رہے۔ قانون کی زبان میں ایک اصطلاح برتی جاتی ہے، ''سطحِ آب پر تیرتا ہوا تضاد‘‘۔ پاکستان کے باب میں بھارتی وزیر اعظم کے رویّے میں سطح آب پر تیرتا ہوا تضاد ہے۔ 
2012ء میں وزیر اعظم نواز شریف مظفر آباد میں کھڑے ہو کر کہہ چکے کہ پاکستانی فوج نے جتنا ظلم کشمیریوں پر کیا ہے، اتنا بھارتی فوج نے نہیں کیا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے پچھلے دور میں جس بے تابی کے ساتھ بھارت کو چینی کے انبار انہوں نے برآمد کیے تھے‘ ان کے سرپرست مجید نظامی تک چیخ اٹھے تھے۔ کوئی جرم نہیں مگر ان کی بے قراری؟ بقول ارشاد عارف‘ میاں محمد شریف مرحوم کی موجودگی میں نظامی مرحوم نے جب اعتراض کیا تو حسین نواز نے کہا: نظامی صاحب مسئلہ کیا ہے ؟
اپنی تقریب حلف برداری میں وزیر اعظم میاں صاحب نے من موہن سنگھ کو مدعو کیا‘ تو انہوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ نریندر مودی نے دعوت دی تو میاں صاحب سر کے بل گئے۔ 
نریندر مودی کے برعکس، پاکستان میں جنہوں نے صرف ساڑھے تین گھنٹے قیام کرنا پسند کیا‘ اپنے اور ملک کے خیر خواہوں کا مشورہ نظر انداز کرتے ہوئے‘ میاں صاحب تقریب کے بعد قیام فرما رہے۔ دوسروں کے علاوہ بھارتی میڈیا کی ان شخصیات سے ملاقاتیں کیں‘ جو پاکستان دشمنی میں بدنام ہیں۔ قاعدے کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن کو مطلع کیے بغیر۔ پیمرا کے سابق سربراہ رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک کو وزیر اعظم‘ پاکستان میں چینل کھولنے کی اجازت دینے کے درپے تھے۔ سب سے بڑھ کر ایک بھارتی صنعت کار کے گھر پہ ان کی حاضری اور وہ بھی صاحبزادے کے ہمراہ۔ بھارتی اخبار نویس برکھا دت کو اصرار ہے کہ انہی صاحب نے کٹھمنڈو میں مودی شریف خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ جمعہ کی شام وہ اصرار کرتی رہیں کہ برف پگھلنے کا آغاز نیپال ہی میں ہوا تھا‘ پیرس یا بنکاک میں نہیں۔ واللہ اعلم۔
کوئی ہوش مند دو ایٹمی ملکوں کے درمیان نفرت اورجنگی جنون کا خواہش مند نہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ عسکری قیادت بھی نہیں۔ جنگ سے زیادہ نفرت فوجی کو ہوتی ہے۔ وہ اس کے عواقب سے آشنا ہوتا ہے۔ میاں صاحب کے خیر خواہوں نے یہی کہا تھا کہ طالبان اور بھارت کے ساتھ مفاہمت اگر بات چیت سے ممکن ہو تو اس سے بہتر اور کیا۔ بات چیت کا مگر ایک قرینہ ہوتا ہے۔ رائیونڈ روڈ پر پانچ مرلے کا ایک پلاٹ بھی اگر خریدنا ہو تو بے تابی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا کہ قیمت بڑھ جاتی ہے۔ دو ایسے ملکوں کے درمیان امن کا حصول اس قدر بے چینی کے ساتھ کیونکر ممکن ہے، جو آویزش کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ 
67 سال نہیں بلکہ تین سو سالہ تاریخ‘ شیوا جی کی قیادت میں ہندو قوم پرستی جب انگڑائی لے کر اٹھی تھی۔ اس سے پہلے جب غزنوی نے لاہور اور پھر سومنات کے دروازے پر دستک دی تھی۔ اس سے بھی پہلے جب سبکتگین کے عہد میں آنند پال نے غزنی کی مسلمان سلطنت کو پامال کرنا چاہا۔ قوموں کے مزاج صدیوں میں تشکیل پاتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ انسانوں کی ہلاکت کے بعد یورپ نے امن کا آموختہ پڑھا۔
جی ہاں! دانا وہ ہے جو دوسروں سے سبق سیکھے۔ امن ہی ترجیح اوّل ہونا چاہیے۔ امن ہی بنی نوع انسان کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہے۔ خوف میں زندگی گھٹ کے رہ جاتی ہے۔ دشمن اقوام کے درمیان امن کا حصول مگر سہل نہیں ہوتا۔ ہاتھ سے دی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ 
اول روز کشمیر پر قبضہ جما لیا گیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو ایسا شخص رائے شماری کا وعدہ کرکے مکر گیا۔ نہرو کے اندر بھی ایک چھوٹا سا نریندر مودی موجود تھا۔ 1947ء کے فوراً بعد انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان شبنم کے ان قطروں کی طرح تحلیل ہو جائے گا، جنہیں آفتاب کی اوّلین شعاعیں اڑا دیتی ہیں۔ 
ہمارا ملک توڑ دیا گیا اور باقی ماندہ پاکستان کو برباد کرنے کے لیے پشتونستان اور سندھو دیش تحریکوں کی پوری طرح پشت پناہی کی گئی۔ یہ تحریکیں ناکام ہوئیں تو کراچی ہدف ہوا‘ پھر قبائلی پٹی اور اب اس کے ساتھ بلوچستان بھی۔
امن! جی ہاں امن کے سوا کچھ نہیں۔ تاریخ کی شہادت مگر یہ ہے کہ دشمن ممالک کے درمیان مصالحت کا حصول‘ خوف کے توازن سے ممکن ہوا کرتا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم منہ میں گھاس لے کر ہٹلر کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ دوسری عالمگیر جنگ مگر ٹل نہ سکی اور لندن کھنڈر ہو گیا۔ اس لیے کہ ہٹلر پہ انتقام سوار تھا۔ گجرات میں مسلمانوں کے قاتل اور راشٹریہ سیوک سنگھ سے وابستگی پر فخر کرنے والے نریندر مودی کے بارے میں میاں محمد نواز شریف تو یہ باور کر سکتے ہیں کہ ان کا دل بدل گیا ہے مگر دوسرے لوگ نہیں ؎
نہ ہم بدلے‘ نہ تم بدلے‘ نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیونکر اعتبارِ انقلاب آسماں کر لوں
اردو غزل کے روایتی محبوب اور دشمن ممالک کے قول پر اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے تیور دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں‘ ان کی ترجیحات اور ان کا انداز فکر۔ ایک عام پاکستانی کشمیر کو یاد کرتا ہے‘ جہاں ایک لاکھ بے گناہ قتل کر دیے گئے‘ ہزارہا اذیت گاہوں میں پڑے ہیں۔ مارکیٹیں جو گن پائوڈر چھڑک کر جلا دی گئیں۔ ہر شہر کے نواح میں نئے قبرستان اُگ آئے ہیں‘ گنج ہائے شہیداں۔ این جی اوز کے چھوکرے ہی ارشاد کر سکتے ہیں کہ مودی جانے اور کشمیر جانے۔ ایک عام پاکستانی اسے بے غیرتی سمجھتا ہے۔ پاگل پن نہیں‘ جنون نہیں‘ حمیت‘ ہوش مندی اور دانش کے ساتھ۔ ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا
یہ اقبال نے کہا تھا اور قائد اعظم نے یہ کہا تھا: بھارت کے ساتھ ہم امریکہ اور کینیڈا کے سے تعلقات چاہتے ہیں۔ بار بار یہ قول دہرایا جاتا ہے مگر یکسر غلط انداز میں۔ کچھ لوگ مرعوب ہیں‘ کچھ تاریخی اور سیاسی شعور سے بے بہرہ۔ کچھ این جی اوز کے پروردہ‘ کینیڈا اور امریکہ کے سے تعلقات لیکن تبھی ممکن ہیں‘ اگر کینیڈا کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ 1895ء میں امریکیوں نے میکسیکو سے کیلی فورنیا ہتھیایا‘ مگر کینیڈا کے کسی علاقے پر انہوں نے قبضہ نہ کیا۔ کیا پاکستان کے بارے میں بھارت کا انداز فکر یہی ہے؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جناب واجپائی مینارِ پاکستان گئے تھے۔ حضور والا! اس لیے گئے تھے کہ مئی 1998ء کے جوہری دھماکوں کے بعد ساری دنیا بالخصوص مغرب کو فکر لاحق تھی کہ دو ایٹمی ملکوں کا تصادم کرئہ ارض کو خاکستر نہ کر دے۔ کم از کم دو بار بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس واحد ملک اسرائیل کی مدد سے، بھارت کے علاوہ جو پاکستان کے خاتمے کا خواہاں ہے۔
جی ہاں! کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مگر سیاچن؟ مگر سرکریک؟ دونوں ملک سمجھوتے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، پھر بھارت مکر جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان نے غلطیاں نہ کی ہوں۔ مہم جوئی کے ہم بھی مرتکب ہوئے اور ہوش کا دامن کئی بار ہاتھوں سے چھوٹا۔ 1971ء کے بعد پاکستان جنگ کا متلاشی بہرحال کبھی نہ تھا۔ اب بھی نہیں اور یہی مذاکرات کا جواز ہے۔ بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ 
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ امن! جی ہاں، خوش آمدید‘ صمیم قلب سے خوش آمدید۔ مگر زبان کی نہیں، ہم عمل کی گواہی چاہتے ہیں۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم تو سو بار ڈسے جا چکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved