تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-12-2015

مٹی نہ پھرول فریدا، یار گواچے نئیں لبھدے۔۔۔۔۔ (10

اگلے دن میرے دوست کالم نگار ہارون الرشید میرے ساتھ ڈاکٹر ظفرالطاف کے دفتر میں دوپہر کے کھانے پر موجود تھے اور پوری کہانی سن رہے تھے۔ ہارون الرشید کو ڈھونڈنا اور وقت مقررکرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ وہ ایک من موجی انسان ہیں، جی چاہے تو پورا ہفتہ آپ کے ساتھ گزار لیں گے، جی نہ چاہے توان کے پاس آپ کے لیے ایک منٹ بھی نہیں ہوگا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ جب بھی ان کی ضرورت پڑی انہیں اپنے ساتھ پایا۔ وہ دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور پورے قد کے ساتھ۔کئی بار مشکل میں گھرا تو انہیں اپنے ساتھ پایا۔ میری وجہ سے انہیں بھی تکلیفیں ہوئیں لیکن مجال ہے کبھی گلہ کیاہو۔ اکثر مجھ سے کہتے ہیں، کیا کریں، تمہارے جیسے''جرائم پیشہ‘‘ سے دوستی جو ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ کہنے لگے، لوگ کہتے ہیں میں تمہارے بہکاوے میںآکر کالم لکھ دیتا ہوں۔کوئی اور مجھ سے اپنی مرضی کے کالم نہیں لکھوا سکتا، تم لکھوا لیتے ہو۔ میں نے کہا، آپ کی محبت سر آنکھوں پر لیکن میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ آپ ذہین انسان ہیں، آپ کو جذبات کے بجائے دلائل سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے۔ باقی لوگ آپ کے جذبات ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ میں آپ سے دلیل سے بات کرتا ہوں۔ آپ کو بات میں وزن لگے توضد نہیںکرتے۔ ہارون الرشید مسکرائے اور کہا،اس لیے تو تمہارا نک نیم ''جرائم پیشہ‘‘ رکھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ہارون الرشیدکو انٹی کرپشن کیس کی بیک گرائونڈ بتاتے ہوئے کہا، جب انہیں پتا چلا کہ ان کی ادارہ کسان کی ٹیم پر مقدمہ درج ہوگیا ہے تو انہوں نے ان سب کی مدد کرنے کے لیے وکیل کیا۔ ان کا بھتیجا رافع الطاف لاہور میں اچھا وکیل ہے، اس سے بات کی کہ فوراً ان سب کی ضمانت کا بندوبست کرو۔ پنجاب حکومت میں چند بیوروکریٹس سے بات کی لیکن پتا چلا احکامات بہت اوپر سے آئے ہیں، وہ اس معاملے میں ان کی مدد نہیں کر سکتے۔
اس دوران پتا چلا کہ لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر والٹن میں ہلہ دودھ کی زمین لے کر وہاں طالبات کے لیے اپنے والد کے نام پر سرکاری کالج بنوانا چاہتے ہیں، اس لیے ہر طرف سے دبائو پڑ رہا ہے۔ یہ بات طے ہوچکی تھی کہ ہلہ دودھ اس طرح لاہور میں نہیں چل سکے گا جیسے چنیوٹ میں چل رہا تھا۔ ہمارے ایک اور دوست عسکری حسن نے بھی اپنے کزن توقیر شاہ سے جو وزیراعلی کے سیکرٹری تھے، بات کی۔ تمام تر دبائو اور ہتھکنڈوں کے باوجود ڈاکٹر توقیر شاہ نے اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب کی مددکی۔
اس وقت میری موجودہ وفاقی پرویز رشید سے سلام دعا تھی۔ میں نے انہیں فون پر پوری بات بتائی۔ انہوں نے جہاں تک ممکن تھا مدد کرنے کی کوشش کی۔ اگلے روز ان کا فون آیا کہ ان کی پنجاب حکومت میں متعلقہ لوگوں سے بات ہوئی ہے اور جو حقائق میں نے انہیں بتائے تھے ان کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے میں ڈاکٹر ظفرالطاف کا کوئی رول تھا نہ وہ اس پراجیکٹ کو دیکھ رہے تھے۔ پرویز رشید نے بتایا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں، معاملہ سلجھ جائے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب یوسف تالپور نے بھی جو ڈاکٹر صاحب سے محبت کی حد تک پیار کرتے تھے، اسحاق ڈار سے بات کی۔ اسحاق ڈار حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب حکومت ڈاکٹر ظفرالطاف کے خلاف مقدمہ درج کرے اور گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپے مارے جائیں؟اسحاق ڈار اور پرویز رشید کی کوششوں سے پنجاب حکومت اس بات پر تیار ہوگئی کہ ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے جس کے سربراہ ایک ریٹائرڈ جج ہوں تاکہ وہ تعین کرے کہ لیہ پلانٹ کی تاخیر کا ذمہ دار کون تھا اورکیا اس میں مالی بدعنوانیاں بھی ہوئی تھیں؟ یہ نوٹیفیکشن توقیر شاہ نے جاری کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب انصاف ہوگا۔ تاہم ڈاکٹر صاحب اس بات پر حیران تھے کہ جب پنجاب حکومت نے ایک سٹیئرنگ کمیٹی بنائی ہوئی ہے جس کے چار صوبائی سیکرٹریز ممبر ہیں تو پھر لیہ کے پلانٹ کی تعمیر میں غلط کام کیونکر ہوگیا؟ حالانکہ ان کا کام ہی یہ تھا کہ وہ مانیٹرنگ کریں۔ اب ان چاروں صوبائی سیکرٹریز کو تو کچھ نہیںکہا گیا لیکن ادارہ کسان کے ملازمین کے خلاف مقدمے درج کر دیے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سے قبل جو انکوائری رپورٹ پیش کی گئی(جس کی کاپی ڈاکٹر ظفر الطاف نے ہارون الرشید کودی) اس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ پروجیکٹ میں تاخیر کا ذمہ دار ڈپٹی کمشنر تھا کیونکہ اس نے کام کی رفتار مناسب نہیں رکھی اور موصوف اس پلانٹ کے ٹھیکیدار سے مراعات لینے کے چکر میں رہے۔ مراعات نہ ملیں تو اس نے سب کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں ایک اور پھڈا ہوگیا۔ لیہ کے ایک ایم این اے نے ادارہ کسان پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ نوکریاں ان کی سفارش پر دی جائیں۔ انکار کیا گیا تو انہوں نے بھی کام رکوا دیا۔ یہ سب باتیں انکوائری رپورٹ میں سامنے آئیں۔ میں آج تک پرویز رشید، اسحاق ڈار اور ڈاکٹر توقیر شاہ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ڈاکٹر ظفرالطاف کی اپنے تئیں مدد کرنے کی کوشش کی لیکن شاید معاملہ ان کی حیثیت سے اوپر کا تھا،لہٰذا وہ بے بس ہوگئے۔
پولیس نے والٹن روڈ پر واقع ہلہ دودھ پلانٹ پر قبضہ کر لیا۔ دفتر میں توڑ پھوڑ کی، کمپیوٹر اٹھا لیے گئے، وہاں پولیس چوکی قائم ہوگئی، ملازمین کوگرفتارکر لیا گیا اور تھانے میں ان کی ٹھکائی کی گئی۔ ہلہ دودھ کے انچارج بخاری صاحب کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دنوں جتنا دکھی میں نے ڈاکٹر ظفرالطاف کو دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ خاموش بیٹھے رہتے اور کہتے، یار دیکھو دن دہاڑے کیا ہو رہا ہے۔ ہلہ دودھ بند کرا دیا گیا ہے۔ چھبیس ہزار عورتیں جو اپنے جانوروں کا دودھ ہمیں بیچ رہی تھیں فارغ ہوگئی ہیں۔ کتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو نوکریاں ملی ہوئی تھیں جو ختم ہوگئیں۔کتنی مشکل سے ادارہ کھڑا کیا تھا، ایک ٹیم بن گئی تھی، بڑے بڑے مافیاز سے لڑ کر ہلہ دودھ کو ایک پوزیشن میں لائے تھے مگرایک ہی ہلے میں پنجاب حکومت نے اسے بند کرادیا اوراب گرفتار ملازمین پر تشدد کیا جارہا ہے۔ مان لیتے ہیں، ادارہ کسان نے لیہ کے پلانٹ میں بربادی کی ہوگی لیکن یہ کس قانون کے تحت ممکن ہے کہ لاہور کے ہلہ دودھ کے پلانٹ پر پولیس قبضہ کر لے اوراسے بندکرا دے؟
جمہوریت لوٹ آئی تھی لیکن اپنے ساتھ جمہوری لوگوں کا کاروبار بھی لوٹ آیا تھا۔ توکیا اب پنجاب میں کوئی بھی کاروبار نہیں کر سکے گا، اس لیے کہ حکمرانوں کے بچوں نے ددودھ دہی، مرغی اور انڈوں کا کاروبار سنبھال لیا تھا؟ حکمرانوں کا موقف یہ تھا کہ ان کے بچوں کا اس کے کاروبار میں حصہ ایک فیصد ہے لہٰذا وہ کیسے مارکیٹ کو کنٹرول کر سکتے ہیں؟ میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا کہ جناب چھوڑیں ایک فیصد کو، ان کا حصہ نہ ہو تب بھی ان کی مرضی کے بغیر کون سے سیکٹر میں پتّا بھی ہل سکتا ہے؟ ابھی ڈاکٹر ظفرالطاف کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔ انہیں دو تین بار پنجاب حکومت کے بیوروکریٹس نے سمجھایا کہ وہ اس معاملے سے دور رہیں، شورمچائیں نہ پریس میں یہ معاملہ اٹھائیں ورنہ ان کا نقصان ہوگا، پنجاب حکومت ہر قیمت پر ہلہ دودھ بند کرا کے رہے گی۔ مجھے علم تھا، ڈاکٹر ظفرالطاف یہ سودا کبھی نہیں کریںگے۔ وہ سخت اذیت کا شکار تھے کہ ان کی ٹیم پر تھانے میں تشدد ہو رہا ہے اوروہ کچھ نہیں کر پا رہے۔
عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیرایک دن ڈاکٹر ظفرالطاف کو بتایا گیا کہ ان کے خلاف بھی انٹی کرپشن میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ضمانت کرانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ وہ اتنے افسردہ تھے کہ گرفتاری کے لیے تیار ہوگئے؛ تاہم ان کے بڑے بھائی جاوید الطاف نے اپنے بیٹے رافع الطاف سے کہا کہ ظفرکی ضمانت کرائو۔ بڑے بھائی کا کہنا وہ نہ ٹال سکے۔ ان دنوں میں ان سے کہتا، سر آپ کوکچھ نہیں ہوگا۔ ماضی میں بھی آپ کوگرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر دفعہ کہیں نہ کہیں سے آپ کو غیبی مدد ملتی رہی۔ آپ کے پیچھے غریبوں اور بے بس انسانوں کی دعائیں ہیں جنہیں آپ نے بلاغرض فائدے پہنچائے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved