بے نظیر بھٹو کی دوسری برسی پر ان کی ایک نہایت قریبی دوست نے ہمیں وہ پوری نظم بھیجی تھی جو محترمہ نے دبئی میں اپنی جلاوطنی کے دوران لکھی۔اس نظم کے ساتھ ساتھ محترمہ کی دوست نے ہمیں ان کی زندگی اور تکالیف کی کچھ تفصیلات بھی بتائی تھیں۔آٹھ برس قبل آج ہی کے دن راولپنڈی میں بے نظیر بھٹوکو شہید کر دیا گیا تھا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں 4اپریل 1979ء کو ان کے والد کو پھانسی دی گئی تھی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جلا وطنی کے دوران محترمہ نے دل کو چھو لینے والی شاعری بھی کی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کی اداسیوں کا عکس جھلکتا ہے۔انہوں نے تو شاعری انگریزی میں کی تھی،لیکن اردو میں اس کا کچھ ٹوٹا پھوٹا ترجمہ جو ہم سے ہو سکا ہے، وہ یہاں آپ کی نذر کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
ہر مشتِ خاک کا...پھر خاک سے ملنا مقدر ہے...سبھی پیاروں کا ...آخرلوٹ جانا بھی...ازل سے ہی لکھا ہے...تو... خاکِ لاڑکانہ ...کو لوٹ جانے...نجانے... میں کب آزاد ہوں گی؟
لاڑکانہ وہ لوٹ ضرور آئی تھیں لیکن اپنے پیاروں کے پہلو میں دفن ہونے! یہ نظم جو انہوں نے جلاوطنی کے دوران لکھی، اس کی کچھ توضیح و تشریح بھی ان کی دوست نے ہمیں لکھ کر بھیجی ہے۔و ہ لکھتی ہیں کہ ''بے نظیر بھٹو کو اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی‘‘، لیکن کبھی کبھی وہ اداس بھی ہو جایا کرتی تھیں۔''جب وہ اس سے ملنے کراچی جیل جاتی تھیں تو اکثر اوقات وہاں ان کے بیچ بحث و تکرار ہی ہوتی۔ واپسی پر اکثر وہ رو رہی ہوتی تھیں، لیکن اپنی آنسو بھری آنکھیں وہ دھوپ کے چشمے میں چھپا لیتی تھیں۔‘‘ محترمہ کی یہ دوست، جن کا یہاں بے نام رہنا ہی موزوں ہوگا، جیل کی ان ملاقاتوں میں، ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔یہ محترمہ کی تنہائیوں کا آغاز تھا۔ وہ دبئی چلی گئی تھیں لیکن ارادہ ان کا یہی تھا کہ وہ واپس آئیں گی۔ وہ جیل سے یا دیگر دھمکیوں سے خائف ہونے والوں میں سے نہیں تھیں۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں کی حیثیت میں، اپنا من چاہا فیصلہ کرنا ان کے لئے دشوار ہو گیا تھا۔سکول میں ان کے بچوں کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی۔''ان کے بچوں کے گریڈز کم ہو رہے تھے اس لئے محترمہ نے ان کے ساتھ دبئی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ ایک تنہا ماں اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی جلاوطن قائد کے طور پر وہ بیک وقت دو حیثیتوں میں اپنے فرائض نبھا رہی تھیں:
خدایا...میں منتظر ہوںکہ...کوئی فرشتہ...مجھے واپس وطن لے جائے...مرے بالوں میں اب چاندی جھلکتی ہے...میرا چہرہ فسردہ ہے...مگر...ستم گروں کو ...احساس کوئی نہیں ہے...میں اپنی قوم...اپنے دیس ...واپس جانا چاہتی ہوں...وہاں جبرِ خزاں چھایا ہوا تھا...دعا ہے میری ...میں اب جو لوٹ کر جائوں...تو ...وطن کا موسم ...بدل چکا ہو...اس بدلے موسم کی بارشوں...کی مسرتوں میں...میں اور میرے لوگ...تجدید عہدِ وفا کریں گے۔
تنہائیوں نے محترمہ کومضبوط کر دیا تھا ۔ ان کا شوہر اب ان کی کل کائنات نہیں رہا تھا۔ناہید ، نرمین اور فائزہ ان کے قریب تھیں۔ اپنی اداسیوں میں وہ انہیں شریک کر لیا کرتی تھیں۔بھٹو خاندان کا دیرینہ خادم عرس جھوکیو بس خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہتا تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد اسے برخاست کر دیا گیا تھا۔دبئی میں محترمہ نے وہاں کی مقامی اشرافیہ کی چند خواتین کے ساتھ دوستی کر لی تھی۔گپ شپ سننے کا انہیں کافی شوق تھا۔وہ ان کے گھر بھی جایا کرتی تھیں ، کبھی کبھی دیر رات کو بھی!‘‘لیکن محترمہ نے انہیں یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کتنی تنہا تھیں۔'' تاہم ان کے سوشل گروپ میں شامل خواتین جانتی تھیں کہ محترمہ ان سے یوں ملنے تبھی آتی ہیں اور تبھی وہ کالیں کرتی ہیں جب انہیں شدید تنہائی محسوس ہوتی ہے۔‘‘:
میرا جیون ساتھی کہاں ہے؟...اس کی وہ ادا... زندگی کی بہار...سب کہا ںکھو گئی ہے؟...جیل کی کوٹھڑی میں وہ محصور ہے!...عدالتوں سے بھی مایوس ہے!...قاضی خوف میں مبتلا ہیں...شجاعت وطن میں...اب معدوم ہے...میری صحت...میری خوشیاں ...سبھی کھو گئی ہیں...مگر حق سے محروم لوگوں کی جنگ کے لئے...میرا دل ...اب بھی مضبوط ہے...اپنی خاطر...اپنے بچوں اور دنیا کی خاطر...مرے لبوں پہ...ہر روز مسکان ...رہتی ہے...وہ مجھ سے پوچھتے ہیں...ہم لوٹ کر...کب جا سکیں گے؟...میرا لاڑکانہ...پیارا لاڑکانہ ...جس کے گلابوں کی خوشبو...جس کے صحرا ...کی ریت پہ گرتی بارش کی خوشبو...اور قدرت کے ہاتھوں دھلے...ان درختوں کی خوشبو...سب مجھے یاد ہے۔
جب محترمہ کے شوہر جیل سے چھوٹ کر دبئی پہنچے تو انہوں نے اپنی شادی کو ایک او ر موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت خوش تھیں اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ انہوں نے اپنے شوہر کا خیر مقدم کیا تھا۔ تاہم دوریوں کی بدولت ان کے بندھن میں کچھ بدل چکا تھا۔محترمہ خود دبئی میں تھیں اور ان کے شوہر نیویارک میں رہنے لگے:
میں رہتی ہوں دور...بہت ہی دور... ایک شاندار محل میں...مگر میرا دل...اپنے لوگوں میں...گھلنا ملنا چاہتا ہے...اس فسردہ حال کو...ا ک مسکراتے کل میں...بدلنے کی خاطر...انقلا ب کا ...اک پرُ خلوص جذبہ لئے...جھنڈے اور بینر ز اٹھائے...اچھلتی جیپوں میں...ان طویل اور چٹیل رستوں پہ...چلنے کو جی چاہتا ہے۔
ان کے بچوں کی سیتا نام کی ایک آیا تھی۔محترمہ نے نوٹس کیا تھا کہ ان کے پیسے اکثر گم ہونے لگے تھے۔ سیتا ان کی سب سے چھوٹی بچی پہ اس کا الزام لگایا کرتی تھی۔'' لندن میں محترمہ نے سیتا کو رنگے ہاتھوں اپنے شوہر کی بلگری گھڑی چوری کرتے پکڑا لیکن محترمہ کے شوہر نے اسے معاف کردیا اور پھر اسے نیویارک کے اپنے گھربھیج دیا۔یہ وہی سیتا ہے جسے محترمہ کی وصیت دی گئی تھی:
غاصب ...اک دن رخصت ہوں گے...عوام کی اپنی رائے ...آزادی کا موجب بنے گی...ہمارے کوچوں میں...جشنِ مسرت رچے گا...سازو نغمہ...مسکان...فضا میں گھلے گی...لوگ اپنی قسمت پہ...نازاں رہیں گے۔
جب محترمہ نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو ان کے شوہر کی پہلی ترجیح یہی تھی کہ وہ نیویارک میں ہی رہیں گے لیکن پھروہ مان گئے اور بچوں کے ساتھ دبئی میں رہنے پہ راضی ہو گئے، جبکہ محترمہ وطن روانہ ہو گئیں۔
میں اپنے گھر کی ...پیاری، بہت ہی پیاری... فضائوں میں ...سانس لینا چاہتی ہوں...میرا جسم کہیں اور ہے...اور روح کہیںاور۔...میرا دماغ...پارہ پارہ ہو چکا ہے۔
ہیروں کے اس ہار کی کہانی کے اسرار سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھ سکا ہے جو مبینہ طور پر محترمہ نے خریدا تھا۔ ان کی دوست کا کہنا ہے کہ وہ ہار محترمہ نے نہیں خریدا تھا۔ محترمہ نے اپنی دوستوں سے خود پوچھا تھا کہ آیا انہوں نے وہ ہار دیکھا ہے، بقول ان کے، ان کی پسند اس قدر گری ہوئی نہیں ہو سکتی۔محترمہ کا کہنا تھا کہ جو کوئی بھی انہیں جانتا ہے وہ بتا سکتا ہے کہ اس قدربے کار ہار وہ کبھی نہیں خرید سکتیں۔بے نظیر بھٹو ایک تنہا مگر بہادر اور روایتی اقدار کی پاسداری کرنے والی خاتون تھیں۔وہ طلاق کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔''لاہور کے ایک اخبار میں جب ان کی شادی شدہ زندگی کے بارے میں خبر چھپی تو اسے پڑھ کر وہ گھنٹوں روتی رہی تھیں کیونکہ وہ خبر زیادہ تر سچ پر ہی مبنی تھی۔‘‘
رونا نہیں...کہ ...بد کو رد کر کے ...اور راستی کو قبول کر...خود بدلنے کا اختیار...ترے پاس ہے...اپنے پیاروں سے...میں کہتی یہی ہوں...کہ...پریشاں نہ ہوں...رونا نہیں ...پشیمان ہونا نہیں...یہ دن بھی آخر ...گزر جائیں گے...ہر رات ...کے بعد صبح...ہر غم کے بعد...خوشی کا آنا ہی تقدیر ہے!
محترمہ اور ان کے خاندان کو کرپشن کے جن الزامات کا سامنا کرنا پڑا ان کے بارے میں بھی انہوں نے لکھا ہے:
میرا شوہر...برسوں تلک...پابندِ سلاسل رہا ہے...اپنی بیمار نانی کے ہمراہ ...میرے ننھے بچے...بے وطن ہو گئے تھے...آدھی راتوں کے چھاپے،...قید و بند،...تشدد و دہشت،...دھوکے اور جھوٹ...سب ہم نے سہے ہیں...پراپیگنڈے، جھوٹے مقدموں، ...خصوصی آپریشنوں، نفسیاتی جنگوں...پہ اربوں روپے خرچے گئے...عدالتوں کی درجہ بندی ہوئی...ہر روز...ایک شہر سے دوسرے شہر...لاہور سے راولپنڈی...پھر کراچی...میں پرواز کرتی رہی...ستم گر... ستم پہ ستم آزماتے رہے...لیکن...بھروسہ رکھو...فتح آخر ہماری رہے گی۔
موت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک ایسی فتح سے محروم کر دیا تھا جو بے حد قریب آچکی تھی۔