تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-12-2015

الیکشن کمیشن، دھنیا اور قائم علی شاہ

مجھے یہ ماننے میں رتی برابر تامل نہیں کہ لودھراں کے الیکشن کے بارے میں میرا اندازہ بلکہ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اور صرف مجھ پر ہی کیا موقوف؟ مجھے تو جتنے لوگ بھی ملے، حتیٰ کہ الیکشن والے دن لودھراں میں موجود غیر جانبدار دوست بھی وہی کہہ رہے تھے جو میں لکھ چکا تھا۔ جس سے پوچھا اس نے یہی جواب دیا کہ جو تم نے لکھا ہے اس کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن سب اندازے نقش برآب ثابت ہوئے، ووٹوں کے درمیانی فرق کا، دیہاتی علاقوں سے ملنے والے ووٹوں کے رجحان کا اور سب سے بڑھ کر الیکشن کے دن کو نبھانے کا۔ اگر اس سارے واقعہ کو ایک جملے میں سموئیں تو یوں ہے کہ جہانگیر ترین نے واقعتاً ایک نا ممکن کو ممکن کر دکھا یا ہے اور خاص طور پر جب یہ دیکھیں کہ باہمی فرق انتالیس ہزار سے زائد ووٹوں کا ہے۔ یہ ایک محیر العقول جیت ہے مگر حقیقت یہی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اندازوں کا جتنا دھڑن تختہ اب ہوا ہے کبھی نہیں ہوا تھا۔ شکر ہے میں نے حسبِ معمول شرط نہیں لگائی تھی وگرنہ ریکارڈ خراب ہو جاتا۔ ساری کیلکولیشن بڑی حسابی کتابی تھی مگر سارے حساب کتاب کا کُونڈا ہو گیا۔ ایک دوست، جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور جو گزشتہ دس پندرہ دن سے لودھراں ڈیرے لگائے بیٹھا تھا، نے اپنے سارے حساب کتاب جوڑ کر اور اپنی ذاتی محبت کو جمع کر کے بتایا کہ ہم بیس سے تیس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک پرانا الیکشن باز دوست، جو پہلے تو کسی اور پارٹی میں تھا اور اس بار مسلم لیگ ن کے ساتھ تھا، سارے حلقے کی یونین کونسلوں کا باری باری تجزیہ کرنے کے بعد فرمانے لگا کہ کم از کم پچاس ہزار ووٹ سے صدیق بلوچ جیت رہا ہے۔ ایسی صورت میں کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ میں ذاتی طور پر تھوڑا عرصہ پہلے لودھراں آیا اور مختلف دوستوں اور ان کے دوستوں سے اس حوالے سے گفتگو کی تو محسوس ہوا کہ علاقے میں ابھی تک جہانگیر ترین کو ''مقامی سیاستدان ‘‘ کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔ لوگ اسے درآمد شدہ بلکہ وقتی درآمد شدہ امیدوار سمجھ رہے ہیں۔ ایسا غیر مقامی امیدوار جو جیت کے بعد عمومی طور پر اور ہارنے کے بعد تو خاص طور پر واپس نظر نہیں آتا۔
اپنے اندازوں کے ملیا میٹ ہونے کے بارے میں دلائل دینے اور تاویلات پیش کرنے کا میں سرے سے قائل ہی نہیں کہ ''یہ عذر گناہ، بدترازگناہ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ غلطی انسان سے ہوتی ہے اور میں اللہ کے فضل و کرم سے ایک عام اور خالص انسان ہوں اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ سو پہلے بھی غلطیاں کی ہیں اور آئندہ کرنے کی توقعات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیتا؛ ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ میں غلط ہو سکتا ہوں مگر اس مالک کا کرم ہے کہ میں بے ایمان نہیں ہوں۔ جیسا محسوس کیا، لکھ دیا۔ اسے خامی سمجھیں یا خوبی، جیسا محسوس کرتا ہوں لکھ دیتا ہوں۔ منافقت یا گول مول بات کرنا ابھی تک آیا ہی نہیں۔
تیئس دسمبر کی رات آنے والے نتائج کے بعد صورتحال پر جب غور کیا تو پتہ چلا کہ اس دوران بہت سی چیزیں اور حقائق تبدیل ہوئے مگر ایک بات جو سمجھنے والی ہے،یہ ہے کہ دیہاتی حلقوں میں لوگ میرا مطلب ہے عام لوگ، ووٹر، مزارع ، کھیت مزدور اور دیہاتی کلچر میں ''نچلی ذات کے لوگ‘‘ عموماً اپنی رائے کا اظہار کھل کر نہیں کرتے۔ خاص طور پر کسی نئے امیدوار یا ہارنے والے سے تو بالکل بھی نہیں۔ 2013ء کے الیکشن کو اڑھائی سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے۔ اس دوران لوگوں نے جہانگیر ترین کی مسلسل آمدورفت اور حلقہ این اے 154 میں مسلسل دلچسپی سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اب وہ یہاں سے جانے والا نہیں۔ میں نے 2013ء کے الیکشن سے قبل بھی لودھراں کا چکر لگایا تھا تب لوگوں کو یقین تھا کہ جہانگیر ترین جیسے رحیم یار خان کا اپنا حلقہ انتخاب چھوڑ کر یہاں لودھراں آیا ہے کسی روز اسی طرح یہاں سے لاہور یا اسلام آباد چلا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر ترین رحیم یار خان والا حلقہ چھوڑ کر خود نہیں آیا، اسے وہاں سے بھگایا گیا ہے اور وہ 
اس کا اپنا حلقہ تھا بھی نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ رحیم یار خان والا حلقہ ''خیراتی حلقہ‘‘ تھا جو اسے مخدوم احمد محمود نے عطا کیا تھا۔ مخدوم احمد محمود نے اپنے برادر نسبتی جہانگیر ترین کا جمالدین والی شوگر ملز میں حصہ بھی ڈالا اور اسے دوبار اپنے زیر اثر حلقہ سے ایم این اے بھی بنوایا مگر بعدازاں ان کا شوگر ملز کے معاملات پر اختلاف پیدا ہوا جو اتنا شدید ہوا کہ مخدوم احمد محمود نے جہانگیر ترین کا جہاز جمالدین والی میں اترنے سے روک دیا۔ جہانگیر ترین نے میاں شہباز شریف کے توسط سے پولیس کی مدد حاصل کر کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہا مگر بالآخر مخدوم احمد محمود نے شوگر ملز کا قبضہ بھی لے لیا اور حلقے کا قبضہ بھی۔ چاروناچار جہانگیر ترین نے لودھراں کا انتخاب کیا جہاں ان کی خاندانی زمین تھی۔ اب جہانگیر ترین کے پاس لودھراں ہی آخری سیاسی حوالہ تھا جو بالآخر اس نے فتح کر لیا ہے۔ جہانگیر ترین اپنے حلقے میں جس طرح فلاحی کام کرتا ہے، تجزیہ کرتا ہے اور جس طرح کارپوریٹ سیکٹر کے انداز میں اپنی سیاسی حرکیات کو Manageکرتا ہے اس کے جیتنے کے بعد صدیق بلوچ جیسے آدمی کے لیے دوبارہ جگہ بنانا نہایت ہی مشکل ہو جائے گا اور اس جیت کے بعد اس حلقے میںا یک نیا الائنس وجود میں آئے گا۔
لوگوں کے بقول حلقہ این اے 154 کے ووٹروں نے ''نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے فارمولے کو مرکزمان کر قوس لگائی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ تا ہم یہ ایک طرف کا نقطۂ نظر ہے اور یہ ہمارے ہاں روایت ہے کہ ہارنے والا بہت جھوٹ سچ چھوڑتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ جہانگیر ترین کی فتح میں جہاں عمران خان کے جلسوں اور نوجوانوں کے جنون کا ہاتھ ہے وہیںجہانگیر ترین کی دولت کو اس معاملے میں سر فہرست رکھیں کیونکہ اگر جہانگیر ترین پیسہ پانی کی طرح نہ بہاتا تو ابھی اس حلقے کا الیکشن بھی دیوان عاشق بخاری اور خواجہ سعد رفیق والے حلقے کی طرح پھنسا پڑا ہوتا۔ حتیٰ کہ دیوان عاشق بخاری والے حلقے کا تو یہ عالم ہے کہ خود دیوان عاشق نا اہل ہو چکا ہے اور الیکشن پر حکم امتناعی ہے۔ حلقہ گزشتہ کئی ماہ سے عوامی نمائندگی سے محروم ہے لیکن ہر طرف ٹھنڈ پروگرام ہے۔
حلقہ این اے 154کے ووٹروں کو اس دو سال سات ماہ کے عرصہ میں شاید اندازہ ہو چکا تھا کہ جہانگیر ترین اب اس حلقے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہااور حقیقت بھی یہی ہے کہ فی الوقت اس کے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے۔ شنید ہے کہ لودھراں کے اس حلقے سے 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر رفیع الدین شاہ ( جس نے 45ہزار ووٹ لیے تھے)نے صدیق بلوچ کے لیے اس طرح ووٹ نہیں مانگے جس طرح مانگنے چاہئیں تھے کہ اسے دل میں اس بات کا صدمہ تھا کہ جب ہارنے کی باری تھی، اسے مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دے دیا اور جب حکومت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہوئی تو انہوں نے آزاد امیدوار کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دے دیا۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ الیکشن والا دن بذات خود آدھا الیکشن ہے، اور پی ٹی آئی کے نوجوان اسے سنجیدہ لینے کے بجائے ہمیشہ ایک پک نک کے طور پر لیتے ہیں۔ جوش و جذبہ اپنی جگہ مگر جو تجربہ اور مہارت اس کام کے لیے درکار ہے تحریک انصاف اس سے کوسوں دور ہے جبکہ مسلم لیگ والے اس سلسلے میں نہ صرف ماہر ہیں بلکہ باقاعدہ گھاگ ہیں۔ الیکشن ڈے ایک پوری سائنس ہے اور تحریک انصاف کے پُرجوش نوجوان اس سے مکمل نا بلدہیں۔ میرا خیال تھا کہ یہاں بھی وہی کچھ کریں گے جو ہر جگہ کرتے آئے ہیں مگر شاید یہ پہلا موقعہ تھا جہاں ایسا نہ ہوا اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ جہانگیر ترین نے الیکشن والے دن کو بھی کارپوریٹ سیکٹر کی طرح پروفیشنل بنیادوں پر چلایا۔ ایک دوست جو اپنے چینل کی کوریج کے لیے لودھراں میں تھا، نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ تحریک انصاف کی الیکشن ڈے کی کارکردگی سے مسلم لیگ والوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔
لودھراں کے الیکشن کے نتیجے نے جہاں عمران خان کے دھاندلی کے دعویٰ کو ایک بار پھر تقویت دی ہے وہیں مسلم لیگ ن کے غبارے سے بلدیاتی انتخابات کی فتح کی ہوا بھی نکال دی ہے۔ جہانگیر ترین کے اس صرف ایک چھکے نے وہ کام کیا ہے جو شارجہ میں میاں داد نے کیا تھا۔ حلقہ این اے 154کے نتیجے نے تیزی سے تنزلی کی طرف رواں تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی بخشی ہے تا ہم اس الیکشن نے ایک بات ''تقریباً‘‘ طے کر دی ہے کہ اب الیکشن لڑنا کسی للو پنجو کا کام نہیں رہ گیا۔ بلدیاتی الیکشن میں ایسے کئی یونین کونسل چیئر مینوں کو میں جانتا ہوں جن کا خرچہ پچاس لاکھ سے اوپر تھا۔ رہ گئی بات این اے 122 اور اس کے بعد اب حلقہ 154کی۔ تو یار لوگ کروڑوں سے نکل کر ارب روپے کی بات کرتے ہیں۔چوہدری بھکن نے کل بڑا دلچسپ سوال کیا ہے کہ الیکشن میں خرچے کی زیادہ سے زیادہ حد والے قانون کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے دھنیا پی رکھا ہے یا وہ سید قائم علی شاہ کی تقلید کر رہے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved