تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-12-2015

سرخیاں، متن اور ابرار احمد کی تازہ نظم

پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے 
خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں: صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں‘‘ اگرچہ حکومت خود خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہے کیونکہ حکومت، اس کے عزیز و اقارب اور ان کے ملنے والوں کی سکیورٹی پر ہی اربوں روپے خرچ آ رہے ہیں، نیز میگا پروجیکٹس پر جس دریا دلی سے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے وہ اس پرمستزادہے، البتہ اس سے بہتوں کا بھلا بھی ہو رہا ہے، تا ہم سٹیل ملز اور ریلوے کو بند بھی نہیں کر سکتے؛ اگرچہ کچھ دوستوں نے یہ مفید مشورہ کئی بار دیا کہ وہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں بنا کر ریلوے کی کمی پوری کر دیں گے حالانکہ یہ کام حکومت خود بھی کر سکتی ہے جیسا کہ شوگر فیکٹریوں سے لے کر پولٹری اور ڈیری فارمنگ وغیرہ کے ذریعے پہلے بھی عوام کی خدمت کر رہی ہے، نیز ریلوے کو بند کر کے عزیزی خواجہ سعد رفیق کو حکومت بے روزگار نہیں کرنا چاہتی؛ اگرچہ ان کی ڈیری فارمنگ بھی خوب چمک رہی ہے، جس کے لیے ڈاکٹر ظفر الطاف کا ناطبقہ بند کرنا پڑا تھا۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وفاق نے سندھ پر حملہ آور ہو کر 
آئین کو پامال کیا:زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف 
علی زرداری نے کہا ہے کہ ''وفاق نے سندھ پر حملہ آور ہو کر آئین کو پامال کیا‘‘ یہاں تک کہ میری وطن واپسی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا جبکہ ابھی میرے اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی جس میں میں نے کہا تھا کہ مجھے پاکستان آنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور میں جب چاہوں واپس آ سکتا ہوں، اب آپ ہی بتائیں کہ جہاں آئین ہی پامال کیا جا رہا ہے وہاں میرے جیسا آئین پسند آدمی کیسے واپس آ سکتا ہے، حتیٰ کہ بیچاری ایان علی پر بھی فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے جو کہ سراسر مجھے جذباتی نقصان پہنچانے ہی کی سازش ہے اور ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف انتقامی کارروائی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ حتیٰ کہ خورشید شاہ کی اس دھمکی کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا جس میں انہوں نے خم ٹھونک کر کہا تھا کہ بات جنگ تک جا سکتی ہے بلکہ اس کا اُلٹا اثر ہوا ہے اور بات کافی پیچھے چلی گئی ہے؛ تاہم میں اپنے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان پر قائم ہوں جس کے لیے اللہ کا فضل ہے اور سونے کی اینٹیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ آپ اگلے روز یوم قائد اعظم پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی 
کوئی گنجائش نہیں: شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں‘‘ اور صرف ہماری گنجائش ہے جو اپنی قسمت کا دانہ دُنکا چُگ رہے ہیں اور مخالفوں کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں تا کہ عوام کو دلی دلائی مونگ کی دال میسر آ سکے کیونکہ انہیں صرف مسور کی دال پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ انہیں کئی بار کہا گیا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال؟ البتہ گنجائش نہ ہونے کے باوجود دہشت گردی موجود ہے حالانکہ ان شرفاء سے کئی بار کہا گیا ہے کہ اب رعایتیں دینے کا زمانہ نہیں رہا اور خود ہماری جواب طلبیاں ہونے لگی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبیں گے حالانکہ ہماری طرح انہیں بھی اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ برا وقت ریٹائر ہو جانے کے بعد اچھا وقت بھی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تلخیوں کو بھلا کر محبت اور اخوت کے پیغام کو ہر جگہ پھیلانے کا عہد کرنا ہو گا‘‘ جس طرح ہم انتخابات سے پہلے رائے دہندگان سے جو جو عہد کرتے ہیں انہیں پورا کر کے دکھا دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں اورنج ٹرین روٹ کا بغیر پروٹوکول اچانک دورہ کر رہے تھے۔
ملک دلدل میں پھنسا ہوا ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ملک دلدل میں پھنسا ہوا ہے‘‘ اور اسے اس دلدل سے کوئی اللہ کا بندہ ہی نکال سکتاہے، مثلاً اگر والد صاحب کو موقع دیا جائے تو وہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر دکھا سکتے ہیں جیسا کہ ان کے کئی دیگر کارنامے نمایاں و خفیہ اپنے ریکارڈز قائم کر چکے ہیں جو آج تک نہیں ٹوٹے جس کے لیے چچا نواز شریف کوشش تو بہت کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کے کمالات کی نوعیت نمایاں کم اور خفیہ زیادہ ہے، اس لیے ان کا ریکارڈ توڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جبکہ والد بزرگوار اور ان کے دیگر معزز ساتھیوں نے ماشاء اللہ جو کچھ بھی کیا، نہایت شفاف طریقے سے کیا جو لوگوں کو نظر بھی آ رہا تھا اور وہ اس سے خاطر خواہ عبرت بھی حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''بعض مذموم مقاصد رکھنے والی قوتیں جمہوریت اور منتخب اداروں کو نیچا دکھانا چاہتی ہیں‘‘ جبکہ جمہوریت ہی وہ چھپر ہے جو اللہ میاں پھاڑتا ہے اور ہر طرف لہر بہر ہو جاتی ہے، اسی لیے باربار اس چھپر کی مرمت بھی کی جاتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں یومِ قائد اعظم کے موقع پر اخبار نویسوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب ابرار احمد کی یہ خوبصورت اور تازہ نظم:
آنکھ بھر اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں... بہت خوبصورت ہے بچہ... وہ جن بازوئوں میں مچلتا ہے... لَودے رہے ہیں...چمکنے لگے ہیں پرندے... درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں... کہ لہراتے رنگوں میں... عورت کے اندر سے... بہتی ہوئی روشنی میں... دمکنے لگی ہے یہ دنیا... وہ بچہ اُسے دیکھے جاتا ہے... ہنستے، مہکتے ہوئے... اُس کی جانب لپکنے کو تیار... عورت بھی کچھ زیرِ لب... گنگنانے لگی ہے... لجاتے ہوئے... کسی سرخوشی میں... بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے... تو بچہ اچانک پلٹتا ہے... اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے... عورت سڑک پار کرتی ہے... تیزی سے، گھبرا کے... چلتی چلی جا رہی ہے... اُدھر کوئی دیوار گرتی ہے... شاعر کے دل میں... وہیں بیٹھ جاتا ہے... اور جوڑتا ہے یہ منظر... اندھیرے سے... بھرتی ہوئی آنکھ میں۔
آج کا مقطع
سرسرا کر کیوں فضا میں جم نہیں جاتا، ظفرؔ
ڈور قائم ہے تو پھر کیوں ڈولتا پھرتا ہوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved