دن کا ڈیڑھ بجا ہے اور میں بڑے شیشے والی کھڑکی کے سامنے بیٹھا دُھوپ سینک رہا ہوں۔ باہر ٹھنڈی تیز ہوا ہے اور کمرے میں صرف دُھوپ‘ اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہوں جس نے جاڑے کے ساتھ دُھوپ بھی دی اور دُھوپ کھانے کے اس مزیدار موقعہ سے اتنا ہی مزہ آتا ہے ‘جتنا ایک اچھا شعر کہنے یا ایک اچھا جملہ لکھنے یا نئے ریزر سے شیو کرنے سے ملتا ہے‘ یہ تشبیہ کچھ غیر شاعرانہ سی ہو گئی ہے لیکن میری تو شاعری کا اچھا خاصا حصہ کچھ لوگوں کے نزدیک غیر شاعرانہ ہے۔ دھوپ پر کئی شعر بھی لکھ چکا ہوں جن میں سے کشور ناہید کا پسندیدہ یہ ہے ؎
میں اتنا بدقماش نہیں یعنی کُھل کے بیٹھ
چُبھنے لگی ہے دُھوپ ‘سویٹر اتار دے
دُھوپ ہی کے موضوع پر میر صاحب نے کتنا لاجواب شعر کہہ رکھا ہے ؎
مژگان تر کو یار کے چہرے پہ کھول میر
اِس آب خستہ سبزے کو ٹُک آفتاب دے
میر نے آفتاب کو دھوپ کے معنوں میں استعمال کیا لیکن ساتھ ہی محبوب کے چہرے کو آفتاب سے تشبیہ بھی دے ڈالی۔ انگریزی میں بھی دھوپ کے لیے آفتاب یعنی Sun کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ میر صاحب انگریزی سے آشنا تھے یا نہیں اور اگر نہیں بھی تھے تو ایسے کمالات وہ دکھاتے ہی رہتے تھے‘ لیکن کبھی کبھار لُڑھک بھی جایا کرتے‘ جیسے کہ اُن کا ایک ضرب المثل شعر ہے ؎
میرکیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
کہنا تو چاہتے تھے کہ عطّار کے اُسی لونڈے سے‘ لیکن کہہ اس طرح گئے جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ آپ عطّار کے لونڈے نہیں بلکہ عطّار ہی کے سبب بیمار ہوئے تھے! محبوب کے چہرے کو سورج کے ساتھ تشبیہ دینا کوئی نئی بات نہیں۔ کم و بیش ہر شاعر نے ایک نہیں کئی کئی بار ایسا کر رکھا ہے‘ خاکسار کا یہ شعر دیکھیے ؎
جُوڑے کو گرہ لگائی اُس نے
سورج کے عقب میں رات باندھی
ایسا لگتا ہے کہ فارم ہائوس میں آ کر کچھ کچھ ماہر نباتات بھی ہوتا جا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ گلاب کا پھول اپنا رنگ بدلتا بھی ہے۔ مثلاً میں اپنے گلدان میں ایک دو ادھ کھلے پھول ہی لگاتا ہوں جو پانی کی وجہ سے تروتازہ رہتے ہیں اور دوچار روز میں مکمل پھول بن جاتے ہیں۔ چنانچہ پھول جب کھل کر جوان ہوتا ہے تو اس کی یہ جوانی کم و بیش ہفتہ بھر تک قائم رہتی ہے پھر اس پر ایک دور ایسا بھی آتا ہے جو جوانی اور بڑھاپے کے درمیان کا عرصہ ہے اور اس حالت میں بھی تین چار بلکہ اس سے زیادہ دن نکال جاتا ہے لیکن جو بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس دوران اس کا رنگ گہرا ہو کر تھوڑا سیاہی مائل ہو جاتا ہے لیکن میں اسے نکالنے سے پہلے ایک اور ادھ کھلے پھول سے تبدیل کر لیتا ہوں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اپنی ''طائراتی‘‘ مہارت کے حوالے سے پہلے آپ کو آگاہ کر چکا ہوں کہ مختلف قسم کے ......آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب وہ بھی شاید سردی کی وجہ سے کم ہی باہر نکلتے ہیں‘ چونکہ دیہاتی علاقہ ہے‘ یہاں شہر کی نسبت سردی ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے بھی واک کا وقت تبدیل کر لیا ہے یعنی ناشتے کے کوئی دو اڑھائی گھنٹے بعد نکلتا ہوں جب دھوپ خوب نکلی ہوئی ہوتی ہے جبکہ ہوااس وقت بھی تازہ ہی ہوتی ہے جو کبھی تیز ہوتی ہے تو کبھی مدھم‘ ابرآلود دنوں سے ابھی واسطہ نہیں پڑا جو بس پڑنے ہی والا ہے کہ ایک آدھ بارش ہو گی تو ہی سردیاں شروع ہونگی۔
اگلے روز ہمارے دوست اور شاعر اقتدار جاوید کی صاحبزادی کی شادی کے سلسلے میں شہر جانا ہوا۔ میرے ساتھ جنید بھی تھا۔ رات کی تقریب تھی چنانچہ وہاں سے فارغ ہو کر جنید کے ساتھ ہی ماڈل ٹائون چلا گیا۔ اگلا دن وہیں بچوں کے ساتھ گزارا اور پھر شام کو واپسی ۔تقریب میں حضرات شاہد علی خاں مدیر ''الحمرا‘‘ اور ''سپوتنک‘‘ کے ایڈیٹر اور ناشر آغا امیر حسین جن سے پرانی یاد اللہ ہے اور احمد ندیم قاسمی مرحوم کی صاحبزادی محترمہ ناہید قاسمی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اومان سے شاعر ریاض قمر آئے ہوئے تھے جنہوں نے بصد اصرار وہاں جانے کا وعدہ لے لیا جہاں وہ کوئی ایوارڈ دینا چاہتے تھے لیکن ہمت نہیں پڑتی اور شاید ہی جا سکوں کہ کراچی تک تو جانے سے پچھلے دنوں معذرت کی تھی۔
لکھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ شرمندہ بھی ہو رہا ہوں کہ کیوں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہا ہوں جن کی دلچسپی کی شاید ہی کوئی چیز اس سے برآمد ہو سکے۔ بس یوں سمجھیے کہ عادت پوری کر رہا ہوں۔ ہاں ایک اور واقعہ رونما ہوا یعنی ''رنگ ادب‘‘ کراچی والے شاعر علی شاعر صاحب سے معاہدہ ہو گیا ہے اور کلیات'' اب تک ‘‘کی پانچویں جلد کا مسودہ برائے اشاعت انہیں بھیج دیا ہے۔ آئندہ میری کتابیں وہی چھاپیں گے جن میں ''لاتنقید‘‘ کی تین جلدیں‘ کلیات کی ساری جلدیں یکجا صورت میں اور خود نوشت وغیرہ شامل ہوں گی۔ بلکہ اپنے دیرینہ کرم فرما سید انیس شاہ جیلانی آف محمد آباد‘ صادق آباد کی تصنیف لطیف بعنوان ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ کا نیا ایڈیشن چھاپنے کی بھی سفارش کی تھی جو انہوں نے قبول کر لی اور شاہ صاحب سے فون پر بات بھی کر لی۔
پچھلے دنوں ایک کالم میں محبی عابد سیال کا نام غلط چھپ گیا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی پوچھا تھا کہ میرے کلام کا کوئی انتخاب چھپا ہے یا نہیں تو عرض ہے کہ شاعر دلاور علی آزر نے ظفر یاب کے نام سے میری ایک سو ایک غزلیں منتخب کر کے چھاپ دی ہیں۔ یہ کتاب رومیل پبلی کیشنز ہائوس راولپنڈی نے چھاپی ہے ۔
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل :
جو مانتے نہیں وہ بھی ہمارے اپنے ہیں
یہ ایک دو نہیں‘ سارے کے سارے اپنے ہیں
زمین پر نہیں کچھ اپنا اختیار‘ تو کیا
کہ آسمان ہے اپنا‘ ستارے اپنے ہیں
اگر یہ سچ ہے کہ اوروں کی ہیں یہ دیواریں
تو ہم یہ کیسے کہیں یہ سہارے اپنے ہیں
جو پائوں توڑ کے بیٹھے ہیں وہ بھی غیر نہیں
جو پھر رہے ہیں یہاں مارے مارے اپنے ہیں
ہماری بات ضرورت ہی کیا ہے سننے کی
یہ جانتے ہو کہ ہم تو تمہارے اپنے ہیں
کسی کے لفظ تھے جو خود اڑا دیئے ہیں یہاں
سو‘ اب یہ رنگ برنگے غبارے اپنے ہیں
یہ اہل دہر کو چکر میں ڈالنے والے
سمجھ سکے کوئی کیا‘ خاص اشارے اپنے ہیں
جو شعر بن نہیں پائے ہزار کوشش سے
پڑے ہوئے ہیں کہ یہ بھی بیچارے اپنے ہیں
جو بہہ رہا ہے وہ پانی نہیں ہمارا ظفر
مگر یہ دونوں طرف کے کنارے اپنے ہیں
آج کا مطلع
ملوں اُس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
تکلف برطرف، پیاسا ہوں، پانی مانگ لیتا ہوں