ماضی میں اس کا مقام و مرتبہ کچھ بھی ہو، یہاں اس ہسپتال میں اسے پاگل نمبر104ہی لکھا او رپکارا جاتا تھا۔اس کا نام ایغور پاشا تھا۔ وہ اپنی نوعیت کا واحد پاگل تھا، ریاست کے اہم ترین افراد جس کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینے آیا کرتے۔ دو برس کے دوران چھوٹے بڑے وقفوں میں پاشا نے اپنی داستان مجھے سنائی تھی ۔ دیگر ذرائع سے بھی جو تفصیلات مجھ تک پہنچیں ، وہ بھی اس کی تصدیق کرتی تھیں ۔ پاشا کرّہ ء ارض کے کامیاب ترین کیمیا دانوں میں سے ایک تھا۔ جیسا کہ اس نے خود بتایا: کیمیا دان کسی بھی شے کو تشکیل دینے والے عناصر کا ماہر ہوتاہے ۔ وہ جانتاہے کہ انسانی جسم کن عناصر سے بنا ہے ، سورج کن سے ۔ کیمیا ان علوم میں سے ہے ،جنہیں شاید اشیاکی حقیقت کا علم کہا جا سکتاہے ۔ کائنات اور زندگی کے بارے میں پاشا بہت کچھ جانتا تھا۔ یہ فطری تھاکہ اسے وہ چیلنج قبول کرنا پڑا، تاریخی طور پر ہر بڑے کیمیا دان کو جس سے گزرنا پڑا ۔ہزاروں برس سے کیمیا دان مصنوعی طور پر سونا بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ یہ ایک کمتر دھات کو دوسرے قیمتی عنصر میں بدلنے کا چیلنج تھا۔ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں لاکھوں کیمیا دانوں نے اپنی زندگیاں اس کی نذر کی تھیں ۔
پاشا نے مجھے ابرام کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ بات سبھی کو معلوم تھی کہ پاشا سونا بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لوگ اس بارے میں بات کیا کرتے تھے ۔ بتدریج وہ اپنے مقصد کے قریب تر ہوتا چلا جار ہاتھا۔ بتدریج بہت سے راز اسے معلوم ہور ہے تھے ۔ انہی دنوں کسی نے پاشا سے پوچھا کہ کیا واقعتاً وہ سونا بنا لے گا ؟اس نے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ کیا کوئی اور بڑ اکیمیا دان بھی اسی کوشش میں مصروف ہے ، جسے پاشا اپنے حریف کے طور پر دیکھتا ہے ۔ پاشا نے کہا کہ وہ چند ماہ میں لاز ما ً کامیابی حاصل کر لے گا۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے ، اسے ابرام کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ سونا بنانے کی کوشش کرر ہا ہے ۔ اس پر زور کا قہقہہ پڑا۔ ابرام شہر کا واحد خدا پرست تھا ۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک کسان تھا۔ ابرام نے پاشا کی طرف دیکھا اور کہا کہ خدا کو منظور ہوا تو وہ آسمان سے اس پر سونا نازل کر دے گا۔ اس پر دوسرا قہقہہ بلند ہوا ۔ ابرام وہاں سے چلا گیا۔
پاشا نے سونا بنالیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی کامیابی ایک بہت بڑی پیش رفت ضرورتھی لیکن محض سائنسی طور پر ۔ تجارتی طور پر یہ ایک بہت مہنگا عمل ثابت ہوا تھا۔ انسانی علم میں اضافے کے طور پر البتہ اسے سینکڑوں برس تک بڑی درس گاہوں میں پڑھایا جانا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ جس روز پاشا نے سونے کے سات ذرّات بنائے، اس روز ایک شہابِ ثاقب شہر کے نواحی علاقے میں گرا تھا۔ ایک کیمیادان سے زیادہ کون جانتا تھا کہ آسمان سے گرنے والے پتھروں میں قیمتی دھاتوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں ۔ لوگ یہ ٹکڑے چنتے پھر رہے تھے کہ بعد ازاں انہیں مہنگے داموں فروخت کر سکیں ۔ اس اثنا میں پاشا نے ابرام کو کئی کلو وزنی پتھر اٹھائے دیکھا۔پاشا ایک بڑا کیمیا دان تھا۔ وہ عناصر کو یوں پہچانتا تھا ، جیسے اپنی اولاد کو۔ اس نے آنکھیں مل مل کر دیکھا ۔ جی ہاں ، ابرام کا پتھر خالص سونا تھا، کئی کلو خالص سونا۔ یہاں ایک لحاظ سے یہ بات پوری ہو گئی تھی کہ آسمان سے ابرام پر سونا نازل ہوا لیکن یہ وہ بات نہیں تھی، جس نے پاشا کا ذہنی توازن بگاڑ ڈالا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک اتفاق بھی ہو سکتاہے ۔ بات دراصل یہ تھی کہ کیمیا دان ہونے کے ناتے اس کے ذہن نے اچانک اس بات پہ غور شرو ع کر دیا تھا کہ آسمان پہ سونا آیا کہاں سے ؟ ا س نے اپنی زندگی ہی عناصر پر تحقیق میں بسر کی تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ سورجوں کے اندر غیر معمولی درجہ ء حرارت اور دبائو پر ہلکے عناصر تو ہر وقت ہی وجود پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کی موت کے وقت بڑے دھماکوں کے دوران البتہ لوہے اور سونے جیسے بھاری عناصر بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ کیمیا دان کے دماغ نے جب اس بڑی حقیقت پہ نظر دوڑائی تو وہ سچ تک رسائی پاگیا۔ وہ ایک عظیم الشان کیمیا دان کے حضور جھک گیا، جو اربوں برس سے سونے سمیت ہر عنصر کے ہزاروں ارب ٹن بناتا چلا جا رہا تھا۔
ایغور پاشا نے خود کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی ۔ وہ رضائی اوڑھ کر لیٹ رہا ۔ ایک لمحے میں ایک بڑا حاد ثہ اس کی روح پر بیت گیا تھا۔ پاشا خود شناس ہو گیا تھا، خدا کو پہچان گیا تھا۔ ایک کیمیا دان ہونے کے ناتے وہ بخوبی جانتا تھا کہ ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن ، نائیٹروجن اور کیلشیم جیسے کن عناصر کی کتنی کتنی مقدار سے انسانی جسم بنا ہے ۔ ایک لمحے کے لیے اس کے ذہن میں خالق کے خلاف ایک بغاوت نے جنم لیا۔ اس نے یہ سوچا کہ کیوں نہ وہ عناصر کی مخصوص مقدار کو مخصوص درجہ ء حرارت اور دبائو پر ایک زندہ خلیے میں بدلنے کی کوشش کرے ۔ کیوں نہ مخلوق کی بجائے وہ خالق ہی بن جائے ۔ پاشا نے کہا''اگر میں ایک زندہ خلیہ بنا بھی لیتا تو اس کے لیے مجھے کائنات میں پہلے سے موجود عناصرہی سے مدد لینا پڑتی۔ اگر میں ایک عنصر کو دوسرے میں بدلنے میں مہارت حاصل کر بھی لیتا (تا حال اپنی ہزاروں سالہ تاریخ میں انسان جس میں ناکام تھا )تو بھی سب سے ہلکے عنصر ہائیڈروجن ہی کو مجھے بطور خام مال استعمال کرنا پڑتا۔ گویا میں ایک خالق نہیں بلکہ نقّال ٹھہرتا۔ پھر اگر میں ایک زندہ خلیہ بنانے کی نقالی کر بھی لیتا تو اس میں نسل بڑھانے کا ہنر کیونکر پیدا کرتا۔ اگر میں یہ کر بھی لیتا تو خلیوں کے گروہوں کو ایک عضو میں کس طرح ڈھالتا۔ اگر میں ایسا کر بھی لیتا تو ان اعضا کو ایک دوسرے سے تعاون پر کیونکر آمادہ کرتا؟‘‘ا س مقصد کے لیے دماغ کی شکل میں نہ تھکنے والا ایک حیاتیاتی کمپیوٹر میں کہاں سے بناتا؟پھر یہ کہ میں جو بھی کامیابی حاصل کرتا، اسی دماغ کی مدد سے کرتا، جو بڑے کیمیا دان نے میرے کاسہ ء سر میں نصب کیا تھا۔
یہاں پہنچ کر پاشاجھک گیا۔ اس کے دل میں اس بڑے کیمیا دان کی محبت جنم لے رہی تھی اور وہ اپنے آپ میں نہیں تھا۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ بڑا کیمیا دان کس طرح خوش ہوتاہے ۔ ابرا م ہی کی طرح ، وہ اپنا ماتھا زمین پہ ٹیکنے لگا ۔ اس وقت وہ ایک نو بیاہتا کی طرح شرما رہا تھا ۔ اسے خدا سے محبت ہو گئی تھی او روہ ہر قیمت پر اسے خوش کرنا چاہتا تھا۔ اس شہر میں کمتر لوگ امرا کو خوش کرنے کے لیے رقص کیا کرتے تھے ۔ پاشا سرِ بازار ناچنے لگا۔ پہلے تو اس کا جسم ہی ناچ رہا تھا، پھر اس کا دماغ متحرک ہوا؛حتیٰ کہ جب اس کی روح بھی ناچنے لگی تو یہ رقص رقصِ بسمل ہوگیا۔
یہی وہ صورتِ حال تھی ،جس میں شہر کے لوگوں نے خیال کیا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے ؛حالانکہ وہ پاگل نہیں تھا۔پاشا ہوشمندوں سے بڑھ کر ہوشمند تھا، یہ بات مجھے اس روز معلوم ہوئی ۔