تعریف کرنے والے تو سبھی کو اچھے لگتے ہیں لیکن میں تعریف نہ کرنے والوں کا بھی دلدادہ ہوں۔ خاص طور پر وہ جو انکار اور اقرار کی سرحد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ تعریف کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی یعنی کسی وقت تعریف اور کسی وقت بدتعریفی۔ اس لیے بھی کہ میں خود بھی تو اکثر اوقات اپنے انکار اور اقرار کی سرحد پر ہی کھڑا ہوتا ہوں بلکہ انکار کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہوں کہ یہ بات مجھے بہتر ہونے کے لیے اُکساتی بھی ہے‘ بیشک اس میں بھی ناکامی ہی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہو۔ ہمارے ایسے احباب میں ایک پروفیسر مظفر بخاری بھی ہیں جن کا ذکر پہلے بھی کئی بار آ چکا ہے اور یہ ہے ان کی تازہ ترین تحریر:
ظفر اقبال کے''کمزور‘‘ اشعار کا مضبوط دفاع
جناب ظفراقبال ہر فن مولا شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں بہترین سے کمزور ترین تک قریب قریب ہر قسم کے اشعار مل جاتے ہیں۔ میں نے بہترین اور کمزور ترین کے الفاظ روایتی معنوں میں استعمال کیے ہیں کیونکہ ظفر اقبال کے جن اشعار کو ہم کمزور ترین کہتے ہیں وہ خود اُن کی نظر میں کمزور نہیں ہوتے۔ ظفر اقبال کے جن اشعار کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں اُن میں بظاہر عام سی‘ یا یوں کہیں کہ سامنے کی بات کی جاتی ہے جنہیں پڑھتے ہی اکثر قارئین فتویٰ دے دیتے ہیں: لاحول ولاقوۃ ! کیا یہ شاعری ہے؟ 'نان سینس‘‘ شروع میں میرا ردِعمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ لیکن جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ یہ اشعار قاری کا دامن پکڑ لیتے ہیں جسے آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بظاہر معانی سے عاری ہونے کے باوجود بامعنی ہوتے ہیں اور قاری کو اُس سرزمین کی سیر کروا دیتے ہیں جو شعراء کے نزدیک ممنوعہ علاقہ ہے۔ ہماری شعری روایت میں اساتذہ کے کہے ہوئے ایسے اشعار مل جاتے ہیں گو کہ ان کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔
کمزور شعر کی شانِ نزول یہ ہے کہ شاعر اچھا شعر کہنے کی کوشش میں ناکام ہو جائے تو کمزور شعر وجود میں آ جاتا ہے۔ قاری سمجھ جاتا ہے کہ شاعر نے کوشش تو بہت کی ہے لیکن بات بن نہیں سکی۔ ظفر صاحب کا ایک پسندیدہ جُملہ یہ بھی ہے کہ فلاں شاعر اچھا شعر کہنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن شعر بنتے بنتے رہ جاتا ہے۔ جیسے ایک کُمہار پوری مہارت کو بروئے کار لا کر ہنڈیا بنائے لیکن اس ہنڈیا کی گولائی میں تھوڑی کسر رہ جائے۔ اب اگر کوئی کُمہار تجربے کے طور پر گول ہنڈیا کے بجائے بیضوی شکل کی ہنڈیا بناتا ہے تو محض اس بناء پر اس کو ہدفِ تنقید نہیں بنانا چاہیے کہ ہنڈیا تو گول ہوتی ہے‘ یہ کیا بکواس ہنڈیا ہے۔
ایک صورت تو یہ ہوئی کہ شاعر سے شعر بن نہ سکا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شاعر بطور شعری تجربہ‘ جدّت پسندی اور مُہم بازی کے شوق میں‘ ذائقہ بدلنے کے لیے یا مملکتِ شعر کے ممنوعہ علاقوں کی سیر کی غرض سے اس نوع کے اشعار کہتا ہے جو عام قاری کی نظر میں‘ جس کا شعری ذوق روایت کا مرہونِ منت ہوتا ہے‘ کمزور قرار پاتے ہیں۔ ایسے اشعار سے لطف اندوز ہونے کے لیے جس قلبی وسعت‘ غیر جانبداری‘ کھلے ذہن اور جمہوری رویے کی ضرورت ہوتی ہے* وہ اکثر قارئین میں کم کم ملتا ہے اور وہ ان اشعار کو پڑھتے ہی فتویٰ صادر کر دیتے ہیں : بکواس ہے‘ فضول ہے وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اگر شاعر نے ایسے
اشعار قصداً کہے ہیں اور وہ انہیں OWNکرتا ہے تو قاری کو چاہیے کہ ان اشعار کو ہدفِ ملامت بنانے کے بجائے اپنے pre- conceivedنظریات کو وقتی طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے شاعر کی آنکھ سے آنکھ ملا کر‘ نہ صرف شاعر کی اپروچ کو ہمدردی سے دیکھے اور سمجھے بلکہ اس کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کی کوشش بھی کرے۔ اکثر اوقات ہمارے تعصبات اور نظریات کسی چیز کی صحیح تفہیم اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں۔ اگر ہم اس دیوار کو گرا دیں تو ممکن ہے ایک نیا جہانِ معنی اور سامانِ نظر ہمارا استقبال کرے۔ کسی شاعر کے فن کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اچھا شعر کہنے کی کوشش میںکہاںکامیاب اور کہاں ناکام ہوا‘ یا کہاں اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ کسی شاعر کے اسلوبی یا لسانی تجربات پر ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شعری تجربات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دینا چاہیے‘ وقت سے بڑا مُنصف کوئی نہیں۔ نئے تجربات بسا اوقات مسلمہ روایتی نظریات سے متصادم ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں روایت کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش غیر منطقی ہے۔ ایسی صورت میں 'دیکھو اورانتظار کرو‘ یہی بہترین پالیسی ہے۔
میں خود جناب ظفر اقبال کے کمزور اشعار کے سلسلے میں اس غیر منطقی رویے کا شکار ہو چکا ہوں لیکن جب ایسے اشعار بار بارپڑھنے میں آئے تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے یہ اشعار اچھے لگنے لگ گئے ہیں اور میں ان سے ایک نئی طرح کا لطف لینے لگا ہوں۔ ایسے اشعار کو اچھا یا بُرا کہنے کے بجائے ان کا مزہ لینا چاہیے۔ یعنی پیڑ گننے کے بجائے آموں پر توجہ دینی چاہیے۔ ان اشعار کی ایک اور خوبی جو میرے تجربے میں آئی۔ یہ تھی کہ یہ اشعار شاعروں کو انسپائر کرتے ہیں۔ میں نے ظفر اقبال کے اس مخصوص نوع کے مطلعوں اور مقطعوں پر پوری غزلیں کہہ رکھی ہیں حالانکہ میں بہت کم گو شاعر ہوں اور خود کو بطور شاعر کسی شُمار قطار میں تصوّر نہیں کرتا۔ میں یہ غزلیں ظفر اقبال کی خدمت میں ارسال کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے کبھی ان غزلوں کے بارے میں مثبت یا منفی رائے نہیں دی جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں وہ غزلیں بُری نہیں لگیں۔ انشاء اللہ آئندہ میں ظفر صاحب کے ان تجرباتی اشعار کے وہ دلچسپ مطالب بیان کروں گا جو پڑھ کر قاری کے ذہن میں آتے ہیں۔ اُردو شاعری کی تفہیم میں یہ ایک نئی بات ہو گی۔
آج کا مقطع
سکندر نے تو کہتے ہیں ظفر مر کر تہی دستی دکھائی تھی
جہاں لاکھوں کروڑوں زندہ انسانوں کے دونوں ہاتھ خالی ہیں