سائنسی برادری ، اس کے نامور اذہان کی سبھی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتاہے ، ماسوائے یہ کہ انسانی عقل کا ماخذ کیا ہے ۔ مان لینا چاہئیے کہ ابتدائے کائنات کے عظیم دھماکے کے بعد وجود میں آنے والے مثبت ذرّات (میٹر) اتفاقی طور پر منفی ذرّات (اینٹی میٹر ) سے زیادہ تھے ۔ جیسا کہ عظیم سائنسی ذہن کہتے ہیں ، ممکنہ طور پر ہماری یہ کائنات واحد نہیں ۔ ہو سکتاہے کہ بگ بینگ ایک نہیں ، کئی ہوئے ہوں ۔ ہمیں بہرحال اپنی کائنات کی صورت میں جو ڈیٹا میسر ہے ، اسی پر ہم ایک بھرپور نظر ڈال سکتے ہیں ۔ دوسری دنیائوں میں کششِ ثقل ہو نہ ہو، یہاں بہرحال وہ موجود ہے ۔ عظیم دھماکے کے بعد ہر کہیں ہائیڈروجن بکثرت وجود میں آئی اور یہی ہماری کائنا ت کا بنیادی جزو ہے ۔ اسی سے ستارے (سورج )بنے ۔(علمِ فلکیات میں ستارے اور سورج کے الفاظ متبادل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔جس ستارے کے گرد ہم زندگی گزار رہے ہیں ، اپنی قربت کی بنا پر ہمیں وہ بے حد بڑا ، گرم اور پر کشش محسوس ہوتاہے ، اسی لیے ہم نے اسے ایک خاص نام (سورج ) دیا ہے )۔ہائیڈروجن ہی سے دوسرے تمام عناصر وجود پذیر ہوئے ۔ ہائیڈروجن کی یہ گیندیں (سورج ) جب روبہ ء عمل ہوئیں تو وہ کائناتی کارخانوں کی مانند تھے ۔ دنیا میں پائے جانے والے تمام 92عناصر انہی میں تخلیق ہوئے ہیں ۔ یہی 92عناصر معلوم کائنات میں موجود ہر شے (بشمول انسان ) کا بنیادی جزو ہیں ۔
یہ ایک مشکل موضوع ہے مگر بالاخر ہم میں سے ہر ایک کو ایک روز اپنے کاسہ ء سر میں موجود عقل کا حساب دینا ہے ۔یقینا ہم اس عقل کو کاروبار، رزق کمانے، سہولتوں کے حصول اور بہتر طرزِ زندگی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ ثانوی استعمال ہے ۔ اس عقل کے ماخذ کو اگر ہم نہ سمجھ پائے، اگر علمی اور عقلی سطح پر ہم اس کی تہہ تک، وجودِ عقل کے بنیادی مقصد تک نہ پہنچے تو اس سّتر یا سو سالہ زندگی کے اختتام پر ناکامی کی سند ملنے کا خدشہ ہے ۔
انسانی عقل کی رہنمائی ایک خاص قسم کا تجسس کرتاہے ۔ اسے نت نئے ، اچھوتے حقائق جاننے سے عشق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عقل کی ایک بڑی بات ہمیں اپنے سحر میں مبتلا کر تی ہے ، ہمارے قدم روک لیتی ہے ۔ عقل اور علم بند راستے کھولتے ہیں ۔ ہزاروں برس سے آدمی اپنے اہل و عیال کے ہاتھوں پہنچنے والے غموں کا ماتم کرتا آیا ہے ۔ کم و بیش یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ علم کے بغیر صبر کا حصول بھی ممکن نہیں ۔ اگر آپ یہ جان لیں کہ ہر جان ، ہر نفس ، ہر آدمی اپنی ذات سے ناقابلِ یقین حد تک محبت (خود غرضی) پر پیدا کیا جاتاہے تو آپ منفی انسانی روّیوں کا ماخذ سمجھتے ہوئے انہیں نظر انداز کرنا سیکھ سکتے ہیں ۔ ایثارجیسے مثبت روّیے اسی وقت موثر ہوتے ہیں ، آدمی جب عقل کی مدد سے کسی حد تک اس خود غرض نفس کا گلا دبانے میں کامیاب ہوتاہے ۔اس کے باوجود ، بنیادی طور پر ہر جان اپنے لیے جیتی ہے ۔
اداروں ، انتقالِ اقتدار کے با اعتماد نظام اور مضبو ط افواج سے محروم مسلم دنیا زوال کا نشان ہے ۔ مغرب سائنسی اور تحقیقاتی میدان کا رہنما ہے ؛البتہ وہ اخلاق اور مذہب سے محروم ہے ۔ انسانی تاریخ میں مشرق و مغرب ، مذہبی برادریوں کے عروج و زوال کی داستانیں طویل ہیں اور یہ بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ بحیثیتِ مجموعی سائنسی برادری کی اکثریت الہامی مذاہب بالخصوص عیسائیت سے تعلق رکھتی ہے مگر عملاً وہ ملحد ہیں ۔ اس وقت، جب مسلم دنیا بحیثیتِ مجموعی جہالت میں غرق ہے ، تیسری دنیا کے ایک معمولی کالم نگار کی یہ اوقات نہیں کہ انہیں دائرہ ء مذہب میں داخل کرڈالے اور نہ ہی یہ اس کادردِ سر ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دیانت داری سے کائنات پہ ایک نگاہ ڈالنے کے بعد اگر میں خدا کا انکار کرنے کے لیے کافی دلائل رکھتا تو بخوشی ان حدود و قیود سے آزاد ہو جاتا۔
بات ہو رہی تھی کائنات، زندگی اورخود انسانی وجود پہ سائنسی برادری کی مجموعی رائے کی۔کائنات کے وجوداور کرّہ ء ارض پہ زندگی سمیت ، ہر ایک چیز کو اتفا ق سمجھا جا سکتاہے ۔ اتفاقاً پانی میں حل شدہ کچھ مالیکیول اکھٹے ہوئے اور انہو ں نے ایک زندہ خلیہ بنایا۔ اتفاقی طور پر وہ خود اپنی نقل تیار کرنے، بچّے جننے پہ قادر تھا۔ اس نے اعضا تشکیل دیے اور مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور ریڑھ کی ہڈی) کی صورت میں ان اعضا کو حکم جاری کرنے والا ایک سپرکمپیوٹر تشکیل دیا۔ اتفاقی طور پر ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرنے لگے ۔ اتفاقی طور پر سورج کا حجم اتنا تھا کہ وہ کم و بیش آٹھ سے دس ارب برس تک جل سکتا تھا اور زندگی کی پیدائش ، اس کے سنبھلنے اور تغیر اختیار کرنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔ اگر اس کا حجم صرف پچاس فیصد زیادہ ہوتا تو اس کی عمر محض تین ارب سال تک رہ جاتی ۔ ( پہلے اور آخری ایک ارب سال زندگی کے لیے ناموافق ہوتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سورج کی روشنی اور درجہ ء حرارت خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں )۔ جتنا بڑا سورج ، اتنی کم اس کی زندگی ۔ زیادہ بڑے سورج تو صرف تیس لاکھ سال تک ہی جیتے ہیں ۔
پھر بھی ان سب چیزوں کو ہم اتفاق سمجھ لیتے ہیں ۔ زمین پر زندگی کے سارے لوازمات، سارے شجر، آکسیجن، مقناطیسی میدان، اوزون ، پانی کا چکر، سبھی کچھ اتفاق مانا جا سکتاہے ؛حتیٰ کہ ہزاروں حیوانی نسلوں کو بھی ۔ ہم اس بات کو بھی اتفاق مان سکتے ہیں کہ مشتری جیسا دیو ہیکل سیارہ خطرناک چٹانوں کو اپنی طرف کھینچ کر فنا کر دیتا ہے ورنہ زمین پر برسنے والی آفتوں کی تعداد بڑھ جاتی۔جو بات نہیں مانی جا سکتی ، اس کا اظہار سٹیون ہاکنگ خود کرتاہے ۔ وہ کہتاہے کہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مناسب حالات میں زندگی تو وجود میں آگئی لیکن یہ کیسے ممکن ہوا کہ معمولی عناصر سے وجود میں آنے والی حیات خود کائنات پہ غور کرنے لگی ۔ باالفاظ ِ دیگر، وہ عقلِ انسانی پہ حیران ہے ۔ انسان میں دماغ کا تیسرا، اوپر والا حصہ اس قدر Sophisticatedکیسے ہو گیا؟ باقیوں میں کیوں نہ ہو سکا؟ گو کہ زمین پر زندگی کے لوازمات اور اس کی حفاظت کے انتظامات بھی چشم کشا ہیں لیکن عقلِ انسانی کا وجود بذاتِ خود وہ روشن دلیل ہے ، جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ انسان کا ذہین ہونا یہ ثابت کرتاہے کہ وہ آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ رزق، صحت، اہل و عیال، احساسِ کمتری، ہر طرح سے اسے آزمایا جائے گا۔ عقلِ انسانی ہی خدا کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ملحد سائنسی برادری ہر ایک بات پر، کائنات کے ہر عجوبے پر غور کرتی ہے ۔ اگر کسی شے کو وہ نظر انداز کرتی ہے تواپنے کاسہ ء سر میں موجود عقل کو۔چالیس ہزار سال کی انسانی تاریخ میں اس سے بڑا تضاد اور کوئی نہیں ۔