میں تو حضرت اکبر الٰہ آبادی کا پیروکار ہوں۔ انہوں نے لکھا:
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
جب بھی مجھے کوئی مذہبی بحث کی طرف دھکیلتا ہے تو فوراً یہ شعر پڑھ کے اپنا دامن بچا لیتا ہوں۔ جب بحث سرے سے ہی مذہبی نہ ہو تو اس میں الجھنا غیر واجب بھی نہیں۔ جس بحث کو آج موضوع بنا رہا ہوں‘ وہ مذہبی بحث بالکل نہیں ہے۔ جو واقعات مجھ تک پہنچے ہیں‘ ان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ حاضرین کے بقول کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے ایجنڈے کے بغیر ایک مسئلہ اجلاس کے سامنے پیش کیا۔ چیئرمین صاحب ایک طے شدہ مسئلے پر دوبارہ فیصلہ مانگ رہے تھے۔ مولانا طاہر اشرفی نے سوال کیا کہ یہ مسئلہ کہاں سے برائے غور و فکر موصول ہوا ہے؟ نظریاتی کونسل عموماً صرف ایسے مسائل پر غور کرتی ہے‘ جو کسی ادارے یا متعلقہ سرکاری محکمے کی طرف سے فیصلے کے لئے پیش کئے جائیں۔ کوئی بھی ایک رکن‘ خواہ وہ چیئرمین ہی کیوں نہ ہو‘ اپنی طرف سے کسی مسئلے کو ایجنڈے کا حصہ نہیں بنا سکتا۔ جس موضوع پر سوال ایجنڈے میں پیش کیا گیا تھا‘ اس پر نہ کبھی بحث ہوئی‘ نہ وہ کسی محکمے کی طرف سے برائے غور و فکر پیش کیا گیا‘ اور نہ ہی کسی اجلاس میں اس پر بحث کر کے‘ ایجنڈے کا حصہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا طاہر اشرفی کا سوال یہ تھا کہ ایجنڈے کی یہ شق کہاں سے آئی ہے اور کیسے آ گئی؟ اس پر مولانا شیرانی نے بحث شروع کر دی۔ جس سوال پر مولانا شیرانی فیصلہ دینا چاہتے تھے‘ اس پر پہلے ہی تمام علمائے کرام مشترکہ فیصلہ دے چکے ہیں اور اسی بنیاد پر پاکستان کے آئین میں علمائے کرام کی متفقہ رائے کے مطابق فیصلہ آ چکا ہے۔ جس مسئلے پر عوام کے منتخب نمائندوں کے سب سے معتبر ادارے نے فیصلہ دے دیا ہو‘ اسے بغیر کسی جواز کے دوبارہ زیر بحث لانا مناسب نہیں۔
بحث شروع ہو گئی۔ مولانا طاہر اشرفی کہہ رہے تھے کہ اگر کسی ادارے یا محکمے کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے مانگی گئی ہو تو وہ معاملہ ایجنڈے پر لایا جا سکتا ہے۔ جس سوال پر چیئرمین صاحب بحث کرانے کے خواہش مند تھے‘ اسے ایجنڈے پر لانے کی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔ چیئرمین صاحب کی طرف سے انفرادی طور پر کوئی ایسا مسئلہ زیر غور لانا غیر موزوں تھا‘ جس پر کونسل کی رائے طلب نہ کی گئی ہو۔ بطور ایک رکن مولانا طاہر اشرفی کا یہ استحقاق تھا کہ وہ ایک ایسے مسئلے پر بحث سے اجتناب کرتے جو اراکین کی میٹنگ میں منظور نہ کیا گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی مجاز ادارے نے کسی مسئلے پر کونسل کی رائے نہ مانگی ہو۔ یہاں ایسی کوئی صورت نہیں تھی۔ بغیر کسی باضابطہ درخواست کے جس مسئلے پر رائے طلب نہ کی گئی ہو‘ اسے اچانک ایجنڈے کا حصہ بنا کر اجلاس کے سامنے پیش کرنا‘ کونسل کی روایت کے بھی مطابق نہیں۔ مولانا شیرانی متنازعہ شق کو زیر غور لانے پر اصرار کر رہے تھے‘ جبکہ مولانا طاہر اشرفی اسے باضابطہ ایجنڈے پر لانے کا تقاضا کر رہے تھے۔ جب یہ بحث کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو اچانک چیئرمین صاحب‘ اپنی کرسی سے اٹھے۔ پہلے دروازے کی طرف گئے‘ جس پر سب لوگ سمجھے کہ وہ باہر جانا چاہتے ہیں لیکن اچانک وہ پلٹے اور مولانا طاہر اشرفی کے پاس آ کر ان کا دامن پکڑ کے کھینچا اور گرانے کی کوشش کی۔ اس کشمکش کے دوران بقول مولانا طاہر اشرفی‘ دو تین صحت مند افراد‘ ان کی طرف آئے اور زور آزمائی شر وع کر دی۔ دیگر اراکین نے اٹھ کر بیچ بچائو کرایا اور ضابطے پر بحث کے اس معمولی سے معاملہ پر‘ بلاجواز ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی علمی اور دینی موضوعات پر وسیع علم رکھنے والی کسی شخصیت کو پیش کی جاتی ہے۔ کونسل کے چیئرمین پر لازم ہے کہ وہ دینی امور پر وسیع علم رکھتا ہو۔ اجلاس کی کارروائی کے طور طریقوں سے واقف ہو اور علمی و دینی امور پر اتنا عبور رکھتا ہو کہ دیگر فاضل اراکین کے سوالوں کا جواب دے سکے‘ اور یہ تو کسی کونسل کے عام ممبر کے بھی شایان شان نہیں کہ وہ دوسرے معزز رکن کے ساتھ اچانک ہاتھا پائی شروع کر دے۔ واقعے کی جو تفصیل دیگر حاضرین بیان کرتے ہیں‘ اس میں ہاتھا پائی کا ذکر ضرور آتا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ پہل کس نے کی؟ صرف اتنا کہوں گا کہ ایسی اعلیٰ پائے کی مجلس‘ جس میں علمی و دینی مسائل پر باقاعدہ فیصلے دیے جاتے ہوں‘ اگر اس میں گلی محلے کی طرح دست و گریباں ہونے کے مناظر دیکھنے میں آئیں‘ تو ان کی بنیاد پر پہلی نظر میں یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ محفل‘ اہل علم اور علمائے دین کے معیار کی نہیں ہے۔ حکومت پاکستان‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کا انتخاب‘ باضابطہ چھان بین کے بعد کرتی ہے۔ انتخابات میں ووٹ لینے والے کسی بھی شخص کو محض اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر ووٹ لے کر‘ پارلیمنٹ میں آیا ہے۔ قومی اسمبلی جب خصوصی مہارتوں سے تعلق رکھنے والے کسی سوال کا حل تلاش کرتی ہے تو وہ زیر بحث موضوع کے امتیازی ماہرین سے مشاورت حاصل کرتی ہے اور اس کی روشنی میں نتیجے پر پہنچتی ہے۔
ماہرین پر مشتمل کوئی بھی ادارہ‘ جب کسی مخصوص موضوع پر ماہرانہ امتیازی رائے دینے پر مامور ہو تو اس کی خصوصی علمی حیثیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے معتبر ادارے کے چیئرمین کے انتخاب کا سوال درپیش ہو‘ تو متعدد ذرائع سے اس کی تصدیق کی جاتی ہے‘ تب کہیں جا کر اسے چیئرمین کے منصب کی پیش کش کی جاتی ہے۔ جو منظر اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں دیکھا گیا‘ اس کے ذمہ داروں کو بلا تاخیر اس منصب سے فارغ کر دینا چاہئے۔ بطور ایک اخبار نویس‘ میں یہ باور کرنے کا پابند ہوں کہ جس ادارے یا کمیٹی کے کام پر تبصرہ کروں تو مجھے اس کے اراکین کی قابلیت اور علمیت کا ابتدائی علم ضرور ہونا چاہئے اور اس کے بعد میرا فرض ہے کہ میں متعلقہ شعبے کے معاونین سے‘ معلومات حاصل کرکے اپنی رائے قائم کروں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں اب کہیں بھی علمی پس منظر‘ فکری سطح اور مطلوبہ پیشہ ورانہ اہلیت کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جانچ پرکھ کے لئے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں مطلوبہ موضوعات پر ماہرین کی گفتگو سنی جا سکتی ہے۔ عالم دین کے معیاری طرز اظہار کا مشاہدہ تو بالخصوص کرنا چاہئے۔ جو لوگ عالم دین کی حیثیت سے کسی مجلس یا ٹاک شو میں‘ گفتگو کر رہے ہوں‘ سب سے پہلے تو ان کے طرز اظہار کا جائزہ لینا چاہئے۔ خوش نصیبی سے مجھے متعدد علمائے دین کی گفتگو سننے کے مواقع ملے۔ ایسے ایسے عالم دین بھی دیکھے ہیں کہ بات کریں تو ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ‘ پھولوں جیسے لگتے اور ہر سو خوشبوئیں پھیلاتے ہیں۔ ان کے اظہار میں اداکاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ شیریں الفاظ اور حسن اظہار ان کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ بناوٹ نہیں کرتے۔ اداکاری سے میلوں دور رہتے ہیں۔ امانت علی خان کی گائیکی میں سروں کی بندشیں‘ شاکر علی کی مصوری میں رنگوں کی آمیزشیں اور اقبال کی شاعری میں فکر و وجدان کی موسیقی۔ بے شک ہم اچھے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے لیکن ہمارا زمانہ اتنا بھی برا نہیں کہ علم دین کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز جید علما‘ بازاری انداز میں دست و گریباں ہوتے نظر آئیں ع
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں