سال کے اختتام پرملک، خاص طور پر کراچی کے سیاسی طوفان اور کنفیوژن کے ماحول میں رونما ہونے والے واقعات اور حکمران اشرافیہ کی حماقتوں اور غلطیوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہم ژرف نگاہی کا شکار ہیں‘ کیونکہ ہم ایسے نظام کے قیدی ہیں جو عوام کو بے وقعت سمجھتے ہوئے اُنہیں اپنے قسمت کا تعین کرنے کے حق سے محروم رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد، برس ہا برس سے یہی ہمارا اصل مسئلہ رہا ہے۔ کم و بیش ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا ڈرامہ ہوتا ہے، کوئی نیا سکینڈل منظرِ عام پر آتا ہے‘ یا کوئی نیا بحران سر اٹھاتا ہے لیکن ہم اس کی اصل یا اس کا باعث بننے والے حقیقی عوامل کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خفیہ ہاتھ مستقل طور پر فعال رہتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں سیاسی دھول جھونکتا رہتا ہے۔
حالیہ آپریشن ضرب عضب کے دوران فاٹا میں حاصل ہونے والی شاندار عسکری کامیابیوں اور کراچی میں رینجرز آپریشن کے ذریعے امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے باوجود نیشنل ایکشن پلان کے تحت سویلین حکومت کا متوقع اور طے شدہ کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا، حالانکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس کی بجائے ہمیں دوغلی سیاست کے گرد و غبار سے اٹی ایک دھندلی سی صورت دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی آپریشن کو من پسند حدود و قیود میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ ہم بطور قوم انتشار کا شکار ہو کر یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہماری عادت سی بن گئی ہے کہ محض علامات کے پیچھے بھاگتے ہوئے اصل بیماری کو نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ ہر آن ہمارے جسم کو گھائل کر رہی ہوتی ہے۔
مفاد پرست حکمرانوں کی پوری ایک نسل نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے‘ جہاں ہم ایک طرف سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان رسہ کشی دیکھ رہے ہیں‘ تو دوسری طرف لبرل اور مذہبی قوتیں باہم برسر پیکار ہیں۔ موجودہ صورت حال سول ملٹری تعلقات پر حاوی عدم اعتماد، جو ہماری سیاسی زندگی کا جزو لاینفک رہا ہے، کی ایک توسیع شدہ شکل ہے۔ اپنے نظام کی خرابیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے اور قوم سازی کے عمل کو تقویت دینے والے عناصر کو مستحکم کرنے یا سیاسی کارکنوں کی تربیت کرنے کی بجائے روایتی سیاسی اشرافیہ پر مشتمل طبقہ موقع پرستی کے جال سے رہائی پاتا دکھائی نہیں دیتا۔ چونکہ ان کی اپنی تو کوئی ساکھ نہیں ہوتی؛ چنانچہ وہ سول اور ملٹری افسر شاہی کے بل بوتے پر ملک پر حکومت کرتے ہیں۔ ستم یہ کہ اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ جمہوریت کی ناکامی کی ذمہ داری فوجی شب خون پر ڈالتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں جمہوری حکومتیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو حاصل مینڈیٹ کے ساتھ انصاف کرتیں‘ تو فوجی مداخلت سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔ کم از کم گزشتہ آٹھ سال کے جمہوری دور میں، بعض حلقوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کے باوجود، فوج نے اپنے آئینی کردار کا لحاظ کرتے ہوئے ہاتھ کو روکا اور سویلینز کو اپنی مرضی کرنے دی۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک ملک، جس کی تخلیق بیسویں صدی کا ایک معجزہ قرار دی گئی تھی‘ اور جس ریاست کے حصول کے لیے آئین اور جمہوریت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی گئی تھی، اب یہ خود آئین کی سربلندی اور جمہوریت کی فعالیت اور امن پسند قوموںکی برادری میں جگہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ آج یہ بے سمت اور راہ گم کردہ قوم، اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور اس کے سامنے کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ ایک کشتی ٔ بے بادباں کی مانند طوفان کے تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ طالع آزما اور لالچی حکمران اسے لوٹتے رہے ہیں۔ اس میں نہ جذب اندرون باقی ہے اور نہ ہی روحانی ارتفاع۔ آج دنیا میں اس کی کوئی توقیر نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان مذہبی انتہا پسندی اور فکری پسماندگی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، پاکستان کا نام سن کر دنیا میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ داخلی سیاسی عدم استحکام اور عدم تحفظ اور ہمسائے میں انتہائی مخدوش صورت حال کی وجہ سے ہم اپنے انتہائی اہم جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا کر اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کوشش کرنے سے قاصر ہیں۔
اس وقت ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے بارے میں قائم ہونے والے اس منفی تاثر کی نفی کریں۔ اس تاثر کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہیں؛ چنانچہ ہمیں ان کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔ ایک ملک کی عالمی حیثیت کا دار و مدار اس کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی اور طاقت پر ہوتا ہے۔ ایک قوم کی خارجہ پالیسی دراصل اس کے اندرونی معروضات کا ہی اظہار ہوتی ہے۔ کوئی ملک بھی بیرونی دنیا میں داخلی کمزوری کے ساتھ طاقتور بن کر نہیں ابھر سکتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج ہمیں بیرونی طور پر جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے، اُن کا تعلق بنیادوں طور پر ہماری داخلی مسائل سے ہی ہے، اور داخلی طور پر ہم ہمیشہ سے ہی کسی نہ کسی بحران کی زد میں رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہماری تاریخ سکیورٹی کے مسائل، نظام کی خامیوں، گورننس کی غلطیوں اور سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے عبارت ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے ہم بیرونی دنیا میں قدر کی توقع نہیں کر سکتے۔
اس وقت جبکہ ہماری آزاد زندگی کا ایک اور سال بیت رہا ہے، ہم خود کو یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں کا شکار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتے ہوئے ہم بطور قوم بے سمت اور مقصد سے تہی داماں ہو چکے ہیں۔ ہماری ہی خامیاں ہماری کمزوری کی وجہ ہیں۔ بطور ایک قوم ہم خود کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ شاید ہمارے ہاتھ سے ریت میں سر دے کر ''سب اچھا ہے‘‘ کہنے کی عیاشی کا موقع نکل چکا ہے۔ اب بہت ہی تلخ حائق منہ پھاڑے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اگرچہ اس ملک کا عام آدمی بہت تکلیف اٹھا رہا ہے، لیکن یہی ملک چوروں، ڈاکوئوں، منافع خوروں، قاتلوں اور نوسر بازوں کے لیے ایک محفوظ جنت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک بھی ٹیکس چوروں اور قرض نادہندگان کو اس طرح معاف نہیں کرتا جس طرح ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے۔ یقینا ہمارے نظام اور ڈھانچے میں کوئی بنیادی غلطی موجود ہے، اور ہمیں کھلے دل سے یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔ ریاست عام شہری کو گورننس، بے لاگ انصاف، سماجی اور معاشی فلاح اور جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ بیرونی دنیا پر اپنے داخلی مسائل کا الزام لگانے کی بجائے ہمیں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ اب اپنی تاریخ کے اس نازک دور میں ہم خود کو اس گلے سڑے نظام کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمیں اس التباس سے بھی نکل آنا چاہیے کہ سب ٹھیک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو یہ پارلیمنٹ اور نہ ہی منتخب شدہ حکومت عوام کو اعتماد دینے کے قابل ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہر سال ''نیا سال‘‘ آتا ہے، نئی امیدیں جنم لیتی ہیں‘ لیکن پھر وہی پرانے مسائل پیرِ تسمہ پا کی طرح ہماری گردن سے چمٹے رہتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ گزشتہ 68 برسوں سے ایک ہی سمت صحرا میں بے نشان راہوں پر بھٹک رہا ہے۔ ہماری جمہوری روایات افسوسناک حد تک ناکام ہو چکی ہیں اور آج ہم اُس منزل سے دور نکل آئے ہیں‘ جس کا تصور قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ ایک وقت آتا ہے جب خواب غفلت کا شکار ایک قوم جاگ کر اپنا محاسبہ کرتی ہوئے اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں‘ لیکن ضروری ہے کہ یہ گلا سڑا نظام، جو صرف محدود اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے، زمین بوس ہو، اور ہم اپنی آزادی اور ترقی کے لیے ایک قوم بن کر عازم سفر ہوں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)