تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-12-2015

ظفر محمود بنام ڈاکٹر ظفرالطاف

کلاسرا صاحب!
آپ جیسے قریبی دوستوں کو ڈاکٹر ظفر الطاف کے بچھڑنے کا غم بہت زیادہ ہے مگر وہ لوگ بھی رنجیدہ ہیں جو اُن کی شخصیت سے متاثر تھے ۔ آپ نے تواتر کے ساتھ اپنے باہمی تعلق اور ان کی شخصیت کے بارے میں کالم تحریر کئے ہیں اور قارئین کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان کی زندگی کے مختلف پہلو جان سکیں ۔ یہ آپ کی تحریر میں رواں پیار اور عقیدت میں گندھے سچے جذبے کا کمال ہے کہ میں بھی اس غم گساری میں شامل ہونے کیلئے یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ 
ڈاکٹر صاحب سول سروس آف پاکستان میں 1965ء میں شامل ہوئے اور میں اُن سے پورے 10سال کے بعد۔ ہم دونوں ایک ہی سروس میں ایک ہی طرح کے سرکاری امور سر انجام دیتے رہے ، مگر ہمارے طریقہ کار اور کارکردگی میں بہت زیادہ فرق رہا ۔ میں اس فرق کے بارے میں اپنے چند تاثرات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔ 
اتفاق کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے میر ا پہلا تعارف اس وقت ہوا‘جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت گئی تو کھلاڑیوں میں ڈاکٹر ظفر الطاف بھی شامل تھے اور نسیم الغنی بھی ۔ میرے ایک ہم جماعت کا نام نسیم تھا اور وہ نسیم الغنی کی کارکردگی ، اپنے نام کی نسبت سے کلاس میں دوسرے ہم جماعتوں کے ساتھ شیخی مارنے کے لئے استعمال کرتا تھا ۔ میں اپنے نام کی نسبت سے ڈاکٹر ظفر الطاف کی اچھی کارکردگی کا متلاشی رہتا تھا ، مگر ڈاکٹر صاحب کو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع نہ ملا اورمیں اپنے ہم جماعت کے ساتھ اس حوالے سے سبکی محسوس کرتا رہا ۔ 
کم عمری میں مسابقت کے رجحان کے حوالے سے بچپن کا یہ واقعہ میں نے گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں اپنے دوستوں کو سنایا ۔ اُن دوستوں میں ایک راجہ شاہد حسین بھی تھے جو میری طرح ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہونے کے بعد ساہیوال میں ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ تعینات تھے ۔ غالباً 1978ء کا ذکر ہے ، ایک دن ساہیوال کے ریلوے سٹیشن پر راجہ شاہد نے مجھ سے کہا آئو تمہیں ڈاکٹر ظفرالطاف سے ملوائوں ۔ غالباً گورنر صاحب اپنے سیلون میں ملتان جارہے تھے اور انہوں نے ساہیوال سٹیشن پر رکنا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب دوسرے سینئر افسروں کے ساتھ ریلوے سٹیشن پر موجود تھے ۔ راجہ شاہد نے انتہائی بے تکلفانہ انداز میں ڈاکٹر ظفر الطاف سے کہا‘ سر یہ ظفر محمود ہے جس کے بچپن کا واقعہ میں نے آپ کو سنایا تھا ۔ یہ سن کر میں پریشان ہوگیا کیونکہ ابھی میں زیر تربیت تھا اور ڈاکٹر صاحب ہم سے 10سال سینئر ڈپٹی کمشنر ۔ حفظ مراتب بھی ذہن میں تھا اور ڈاکٹر ظفر الطاف کی شہرت کا ذہنی دبائو بھی ۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر ظفر الطاف نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بہت اپنائیت سے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا
'' Sorry young man, I let you down so many years ago''
ایک بہت سینئر بیوروکریٹ سے بھری محفل میں ایک جونیئر سے معذرت خواہانہ جملہ ادا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ تھی جو صرف اُن کی محبت بھری شخصیت کا حصہ تھی ۔ اِ س پہلی ملاقات میں مجھے راجہ شاہد کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے بے تکلفانہ انداز پر حیرت ہوئی ۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اپنے او ر دوسرے کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھنے کی عادت اُنہیں ہمیشہ سے تھی ۔
محترم کلاسرا صاحب ! آپ نے بھی بارہا ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں رچی اِ س بے پایاں اپنائیت کے جذبے کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے ۔ ظفر الطاف ایک محبت کرنے والے درویش کے علاوہ ایک باغی بھی تھے ۔ اب میں اُن کے مزاج کے باغیانہ پن کا ذکر کروں گا ۔ 
1990-91ء کا ذکر ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اُس وقت سیکرٹری حیوانات تھے اور میں پنجاب حکومت میں ایڈیشنل سیکرٹری فنانس۔ ایک دن سیکرٹری فنانس ذوالفقار شاہ صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم ڈاکٹر ظفر الطاف کی بہت تعریف کرتے ہو ، وہ خود بھی مرے گا اور ہمیں بھی مروائے گا ۔ پھر انہوں نے خود ہی وضاحت کی ، فرمانے لگے ، مُنہ کُھر کی بیماری کے تدارت کیلئے حفاظتی ٹیکے درآمد کئے گئے تھے ۔ فیصلہ یہ تھا کہ جانوروں کے مالکوں کو آدھی قیمت پر فراہم کئے جائیں گے ۔ آدھی قیمت خزانہ سرکار اور باقی جانوروں کے مالکان سے وصول ہونا تھی ۔ جس کی کل مالیت اُس وقت غالباً چند کروڑ روپے تھی ۔ ذوالفقار شاہ صاحب نے مزید ارشاد کیا کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹر وہ دوائی مفت تقسیم کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑاسکینڈل بنے گا۔ اس لئے ہمیں ریکارڈ پر آجانا چاہئے کہ محکمہ خزانہ کا اِ س مالی بد اعمالی سے کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے اُن کے کہنے کے مطابق ایک سرکاری خط ڈاکٹر صاحب کو ارسال کیا کہ کابینہ کے فیصلے کے مطابق 50فی صد رقم جانوروں کے مالکان سے وصول کی جانی تھی‘ اس کی مالیت اتنے کروڑ ہے ۔ ہمیں رپورٹ کی جائے‘ کتنی دوائی ابھی آپ کے پاس ہے ، کتنی تقسیم ہو چکی ہے اور آپ نے اب تک کتنے پیسے وصول کر لئے ہیں اور یہ پیسے فوری طور پر محکمہ خزانہ میں جمع کرائے جائیں ۔ میرے اس خط کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے ایک مفصل خط لکھا ۔ ان کی تحریر میں اتنی تپش تھی کہ پڑھتے ہوئے مجھے اپنی آنکھیں جلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ خط کے پہلے حصے میں انہوں نے مجھ سے سوالات پوچھے کہ کیا میں پاکستان کی زراعت میں لائیو سٹاک کی اہمیت سے واقف ہوں ؟ کیا مجھے علم ہے کہ زرعی شعبے میں لائیو سٹاک کا حصہ 50فی صد سے زیادہ ہے ؟کیا مجھے علم ہے کہ ہمارے ہاں گلہ بانی بڑے پیمانے پر نہیں ہوتی بلکہ کسان اپنے گھر میں تھوڑی تعداد میں جانور پالتے ہیں ؟اُن کے سوال جاری رہے ۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے اس بات کا علم ہے کہ ایک عام کسان کی مالی حیثیت کتنی ہے اور ہم نے اس پر بیج اور کھاد کی خریداری کے حوالے سے کتنا بوجھ لاد دیا ہے ؟ انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا مجھے مُنہ اور کُھرکی بیماری کے بارے میں کچھ علم بھی ہے کہ نہیں ؟اور یہ کہ اگر اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کیلئے حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو ملکی معیشت میں کتنے اربوں اور کھربوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے ؟
ان کے سوالات پھر بھی ختم نہ ہوئے ۔
انہوں نے یہ استفسار بھی کیا کہ سرکار اپنی شاہ خرچیوں سے معاشرے کے مقتدرطبقوں کے لئے کتنی تن آسانی پیدا کر رہی ہے اور بے وسائل لوگوں کی مدد کرتے وقت کیوں اتنی کنجوس ہو جاتی ہے ؟آخر میں ڈاکٹر صاحب نے واضح طور پر لکھ دیا کہ محکمہ خزانہ کو آڈٹ ڈیپارٹمنٹ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے یہ فیصلہ اپنے ایما پر کیا ہے کہ میں کسانوں کو حفاظتی ٹیکے مفت بانٹوں گا۔ میں اس عمل کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں ۔ اگر اس پر حکومت میرے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہتی ہے تو شوق سے کر سکتی ہے ۔
آخری جملے کے بعد انہوں نے توا پنے خط کو ختم کر دیا مگر میں ایک ذہنی خلفشار کا شکار ہو گیا ۔ اُن کا رد عمل سرکاری ملازموں کےdilemmaکو سامنے لے آیا ۔ مجھے بھی اپنی نوکری کے دوران بارہا ایسے حالات سے واسطہ پڑتا رہا تھا جہاں اختیارات کی دلکشی کو آس پاس میں پھیلی ہوئی غربت کی سنگینی گرہن زدہ کر دیتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے فیض کہتے ہیں کہ '' لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے ‘‘کارِ سرکار میں قواعد و ضوابط دل کے فیصلوں کے آڑے آتے رہتے تھے مگر ہمیں ہمیشہ یہی بتایا گیا تھا کہ اگر سرکار کی نوکری کرنی ہے تو ان ہی قواعد و ضوابط کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ مگر ڈاکٹر صاحب کی بغاوت نے مجھے پریشان کر دیا ۔
سوچا اس مسئلے پر انور زاہد صاحب سے مشورہ کروں ۔ مرحوم انور زاہد 1990ء تک پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے اور ان کے ساتھ سٹاف افسر کی حیثیت سے کام کرنے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ ان سے شفقت اور رہنمائی دستیاب رہی تھی ۔ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے طرزِ عمل پر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے صاف دِ لی کے ساتھ اپنے تاثرات بیان کئے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب آپ سرکار کی نوکری کرتے ہیں تو آپ قانون اور ضابطوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔ آپ نوکری میں رہ کر یہ عہد نہیں توڑ سکتے ۔ اگر آپ ان ضابطوں پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو ملازمت سے استعفیٰ دیں اور حکومت سے باہر نکل کر اس نا انصاف قانونی ڈھانچے کے خلاف جدو جہد کریں ۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب کے طرزِ عمل کی توثیق نہیں کی جاسکتی ۔ تم سوچو کہ اگر ہر کوئی اپنی مرضی سے فیصلے کرنے لگے تو سرکار کے انتظام کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ میں نے ان کی باتوں پر غور کیا اور شاید میرے اندر ڈاکٹر صاحب جیسی جرأت رندانہ کا فقدان تھا کہ مجھے انور زاہد صاحب کے تجزیہ میں بہت تدبر اور دور رس سوچ دکھائی دی ۔
مگر اس دل کا کیا کریں کہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے محبت ہوگئی اور میں ہمیشہ ان کی طرف اس رشک کے ساتھ دیکھتا رہا جو ایک ساحل پہ کھڑے شخص کو اپنی عافیت سے مطمئن ہونے کے باوجود ، موجوں سے لڑتے ہوئے ایک تیراک کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے ۔ 
محترم کلاسرا صاحب ! میں نے دو واقعات بیان کئے ہیں ۔ پہلے واقعے میں ڈاکٹر صاحب ایک محبت کرنے والے درویش کی طرح نظر آتے ہیں اور دوسرے میں سرکار کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تلوار سونت کر ایک باغی کی طرح نظام سے لڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شخصیت کا سحر اسی درویشی اور باغیانہ پن کے حسین امتزاج کی وجہ سے تھا ۔
مخلص
(ظفر محمود )
چیئر مین واپڈا لاہور

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved