تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-12-2015

کُچھ غیر ضروری

سُرخاب کو آج میں نے شیشہ لگی کھڑکی سے قریب سے دیکھا۔ پتا نہیں‘ اُس نے بھی مجھے دیکھا یا نہیں‘ تاہم ایک بات واضح ہو گئی کہ اس کی پُشت پر چند چھوٹے چھوٹے سیاہی مائل سُرخ دھبے ہی نظر آتے ہیں۔ باقی 
وہ سارے کا سارا سیاہ رنگ کا ہوتا ہے‘ بالکل کوّے کی طرح اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اُسے سُرخاب کس خوشی میں کہا جاتا ہے۔ اس کا اصل مطلب تو ُسرخ پانی ہے یعنی آب سُرخ کو سیدھا کر کے سُرخاب بنا لیا گیا ہے جیسے کہ دستہ ٔ گل سے گُل دستہ‘ یا خانہ ٔمے سے میخانہ‘ و علیٰ ہذالقیاس‘ کہ فارسی میں اضافت کو اُڑانے کا یہی طریقہ ہے۔ لیکن‘ اس کے باوجود مجھے اس کے سُرخاب کہلانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس سے فارسی ہی کا ایک خوبصورت قطعہ یاد آ گیا:
زاہد بہ زنِ فاحشہ گُفتا‘ مستی
کز خیر گسستی و بہ شر پیوستی
زن گفت ‘ چنانکہ می نمائم‘ ہستم
تو نیز چنانکہ می نُمائی‘ ہستی؟
(زاہد نے طوائف (فاحشہ عورت) سے کہا‘ تجھے کچھ ہوش نہیں ہے کہ خیر چھوڑ کر تُو شر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ طوائف نے جواب دیا کہ جیسی میں نظر آتی ہوں‘ ویسی ہوں بھی‘ کیا تُم بھی ویسے ہو جیسے کہ نظر آتے ہو؟)
ایسا ہی ایک اور فارسی محاورہ (مصرع) ہے کہ 'برعکس نہند نامِ زنگی کافُور‘ یعنی حبشی کا نام کافور رکھ دیا گیا جو سفید رنگ کا ہوتا ہے۔
اگلے روز میں نے بابائے سخن میر تقی میر کے اس شعر ؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
کے حوالے سے لکھا تھا کہ شعر کی عبارت سے یہ تاثر بنتا ہے کہ وہ عطار کے لونڈے نہیں بلکہ خود عطار کے سبب بیمار ہوئے تھے جبکہ صحیح مطلب ادا کرنے کے لیے انہیں عطار کے اُسی لونڈے‘ لکھنا چاہیے تھا۔ اس پر مردان سے ہمارے ایک کرم فرما ڈاکٹر ہُما نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شعر پڑھ کر ذہن میں عطار کا لونڈا ہی آتا ہے‘ اور یہ کہ آپ اس کی نثر بنا کر دیکھ لیں۔ سو‘یہ بھی دیکھ لیتے ہیں جو کہ اس طرح بنتی ہے بلکہ پورا مصرع ہے ہی نثری ترتیب میں کہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں جبکہ میرے مطابق مصرع کی صحیح شکل اس طرح سے ہونی چاہیے کہ عطار کے اُسی لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ پہلی صورت میں اور عطّار پر ہے نہ کہ
اس کے لونڈے پر‘ جس کے سبب سے میر صاحب بیمار ہوئے تھے۔
امرد پرستی کسی زمانے میں نہ صرف یہ کہ کوئی عیب نہ تھا بلکہ ایک طرز حیات بھی تھا‘ اور ہماری ساری کلاسیکل شاعری لونڈوں کے ذکر اذکار سے بھری پڑی ہے‘ حتیٰ کہ مولانا رُوم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب نوجوان کی تلاش یا اس سے ملنے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر طے کر ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عشقیہ شاعری یعنی غزل میں محبوبہ کو بھی مؤنث کی بجائے مذکر کے طور پر یاد اور خطاب کیا جاتا ہے۔ حتیٍٰ کہ خصائص کے علاوہ اُس کی مسیں بھیگنے پر بھی شعر کہے گئے ہیں‘ مثلاً بقول غالب ؎
سبزہ خط سے ترے کا کلِ سرکش نہ دبا
یہ زمّرد بھی حریف دمِ افعی نہ ہُوا
شاہ حسین کے محبوب نوجوان مادھو لعل کے حوالے سے بھی تاریخ میں وافر مواد موجود ہے کہ جو اُسی کے نام کی نسبت سے مادھو لال حسین مشہور ہوئے۔ اگر میں غلط ہوں تو میری درستی کر دی جائے! کل شام جنید آ گیا۔ آپ کو اس لیے بھی بتا رہا ہوں کہ اس کا آنا جانا ایک خبر ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ وہ طوطا بھی تھا جس میں میری جان ہے اور جس کا نام ارسل جُنید ہے‘ یعنی یہ سونے پر سہاگہ تھا۔ یہ محاورہ میں نے اگلے روز بھی اپنے کالم میں استعمال کیا تھا جس پر میرے دوست سید انیس شاہ جیلانی نے فون پر کہا کہ سونے پر نہیں بلکہ سونے میں سہاگہ ہوتا ہے‘ یعنی ایں گل دیگر شگفت‘ بہرحال اس کے لیے جنید کا شکر گزار بھی ہوں‘ یعنی ؎
میں اب کے اُس کا بھی احسان مند ہوں جو ظفر
غریب خانے پر اُس خُوشنما کے ساتھ آیا
تاہم‘ اس کے ساتھ یہی طے ہوا ہے کہ ایک ویک اینڈ پر میں اس کے ہاں جایا کروں گا اور ایک پر وہ یہاں آیا کرے گا‘ ارسل‘ بلکہ اپنے دونوں بچوں کے ہمراہ۔
کل دوپہر ہی محبی طارق کریم کھوکھر کا بھی فون آیا جو آج کل نارووال میں تعینات ہیں اور جو اس وقت ہمارے محبوب شاعر عباس تابش کے پاس بیٹھے تھے جو مجھ سے بھی بات کرنا چاہتے تھے‘ چنانچہ ان سے بھی بات کی اور ایمان تازہ ہوا۔ انہیں یاد دلایا کہ وہ میرے بارے میں جو کچھ لکھ رہے تھے‘ اس کا کیا ہوا کہ میری کتاب کا مسودہ تو پبلشر کے پاس پہنچ چکا ہے جس میں اسے شامل کیا جانا تھا۔ کہنے لگے‘ مشاعرے پڑھ پڑھ کر بور ہو چکا ہوں‘ طبیعت کچھ لکھنے کی طرف آتی ہی نہیں‘ اب یہ سوچا ہے کہ اس ضمن میں ایک گفتگو ریکارڈ کروا کر آپ کو بھجوا دوں گا تاکہ حاضری لگ جائے۔
میرے نثری کلیات ''لاتنقید‘‘ پر گفتگو خلاف توقع جاری ہے۔ پہلے کشور ناہید نے لکھا‘ پھر انتظار حسین نے اسی دوران الیاس بابر اعوان اور ڈاکٹر انوار احمد کے جریدے ''پیلوں‘‘ میں اس پر تبصرہ شائع ہوا جبکہ انگریزی اخبارات میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور جناب ثروت علی لکھ چکے ہیں ۔اس کی دوسری جلد بھی تیار ہے‘ لیکن پہلے شعری کلیات ''اب تک‘‘ کی پانچویں جلد شائع ہو گی جس کے بعد اس کی باری آئے گی۔ خود نمائی کافی ہو چکی ہے اس لیے تمت بالخیر۔
آج کا مقطع
اب تو میں آپ بھی تیار ہوں جانے کو‘ ظفر
آخری عمر کا یہ عشق جدھر لے جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved