تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-12-2015

’’عذابات‘‘ کرو ہو!

ماہرین نے بتایا ہے کہ انسان کے لیے سب کچھ یاد رکھنا لازم نہیں کیونکہ اس دنیا میں کروڑوں، اربوں نہیں بلکہ کھربوں معلومات ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو سب کچھ یاد نہیں رکھ سکتے۔ جو کچھ ہمارے حواس کے دائرے میں آجائے اُسے یاد رکھنے بیٹھیں تو جینا محال بلکہ عذاب ہوجائے۔ ماہرین نے حافظے سے چمٹے ہوئے عذاب کی جو بات کہی ہے وہ ہمیں پہلے سے معلوم ہے۔ آپ بھی سوچیں گے اِس میں نیا کیا ہے۔ ماہرین مزید فرماتے ہیں کہ حافظے کا کمزور ہوجانا عام طور پر پریشانی کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر یہ در حقیقت نعمت ہے، رحمت کی ایک شکل ہے! 
دیکھا آپ نے؟ آپ بھی حافظہ تیز رکھنے پر کتنی محنت کرتے ہوں گے، کیا کیا نہ کھاتے ہوں گے تاکہ بہت کچھ یاد رہ جائے۔ اور یاد نہ رہنے پر شرمسار و رنجیدہ ہوتے ہوں گے مگر ماہرین نے ایک ہی وار میں آپ کی مشقّت کا بلا جواز قرار دے کر قصہ تمام کردیا۔ 
ایک تازہ تحقیق کے نچوڑ کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ فی زمانہ بہت کچھ بھول جانا نعمت سے کم نہیں۔ علوم و فنون میں تیز رفتار ترقی ہو رہی ہے۔ ایسے میں نئے علوم و فنون سیکھنے کے لیے لازم ہے کہ آپ پرانے بھول جائیں! یہ بات بادی النظر میں بہت اچھی لگتی ہے۔ یعنی کسی بھی شعبے میں نیا ورژن وہ سیکھ سکتا ہے جو پرانا ورژن بھول جائے۔ ماہرین نے تجربات کی روشنی میں بتایا ہے کہ جب ہم کوئی نیا کام سیکھتے ہیں تو پرانا بھولتے جاتے ہیں اور پھر بھول ہی جاتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے جس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ساتھ ہی ''تحقیقاتی فرمان‘‘ کے طور پر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جب ہم کوئی نیا کام سیکھتے ہیں تو پرانے کام کے حوالے سے یادداشت دھندلا جاتی ہے۔ اور یہ کہ پرانی باتوں اور مہارتوں کو بھولتے جانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم میں سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے اور توانا ہے! 
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی کالم عجلت میں یعنی تیزی سے سیکھا جاتا ہے تو پرانا کام حافظے سے نکلتا جاتا ہے۔ اور یہ کہ ایسا نہ ہو تو نئی باتیں یاد رکھنے کی گنجائش پیدا نہ ہو۔ 
حافظے سے متعلق تجربات کی روشنی میں ماہرین نے جو کچھ بیان کیا ہے اگر اُسے بالکل درست مان لیا جائے اور حافظے پر پڑنے والے دباؤ کو گھٹانے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ جائے اور ہمارا آپ کا جینا محال ہوجائے۔ مگر ماہرین کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انہیں تو بس جلتی پر تیل چھڑک کر پیچھے ہٹ جانا آتا ہے۔ 
جوانی میں یہی کچھ تو ہوتا ہے۔ کوئی چہرہ زیادہ دن یا زیادہ دیر یاد نہیں رہتا! لوگ کالج لائف میں اِسی عذاب تو گزرتے ہیں کہ ؎ 
کس کس کی نظر دیکھوں، کس کس کی ادا دیکھوں 
ہر سمت قیامت ہے، اب اور میں کیا دیکھوں 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ عنفوان شباب میں چہرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں مگر بعد میں یہ عہد یعنی عہدِ شباب تمام چہروں کے ساتھ حافظے سے یوں چمٹ جاتا ہے کہ چُھٹائے نہیں چُھٹتا! ہم نے بقلم خود کی طرز پر بچشم خود مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے نوجوان اپنے ہاں یا کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں شادی کے بعد خاصے اداس رہتے ہیں۔ تین چار دن چلنے والا رنگوں اور روشنیوں کا میلہ ذہن کے پردے سے مِٹنے میں کئی دن لگا دیتا ہے! 
نئے علوم و فنون سیکھنے کے لیے پُرانے علوم و فنون کے ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت ''اَن سیکھا‘‘ ہوجانے والی بات بھی خوب ہے۔ اگر یہ اچھی بات ہے کہ تو پھر ماہرین ذرا بتائیں کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں ہمیں پچھلے سبق بھول جانے پر سرزنش کا سامنا کیوں کرنا پڑتا تھا! اور یہ کہ آج بھی لوگ اگر اپنا فن ہی بھول جائیں تو نوبت فاقوں تک کیوں پہنچ جاتی ہے؟ ہم تو ماہرین کا یہ اصول تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ جب کوئی نئی بات سیکھی جاتی ہے تو پچھلی باتیں بھولتی جاتی ہیں۔ مگر انہیں کون سمجھائے جو ماہرین کو جانتے ہیں نہ ان کی تحقیق کو سمجھنے یا ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ تحقیق پینتیس چالیس سال پہلے کی گئی ہوتی تو ہم اسکول میں روز مار نہ کھاتے! 
ہم نے جب مرزا تنقید بیگ کے سامنے بھولنے سے متعلق تازہ ترین تحقیق کا ذکر کیا تو کہنے لگے : ''میاں! تم ان ماہرین کو نہیں جانتے۔ ان کا 'طریق واردات‘ بدلتا رہتا ہے۔ جس طور پیش گوئی کرنے والے بندہ اور حالات دیکھ کر کچھ کہتے ہیں بالکل اسی طور ماہرین بھی ہوا کا رخ دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ جو کچھ ہماری زندگی میں بہت پہلے سے ہو رہا ہوتا ہے اسی کے بارے میں دادِ تحقیق دی جاتی ہے تاکہ انہیں بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہم بھی آسانی سے سمجھ جائیں!‘‘ 
مرزا کی چند ہی باتیں ہمارے جی کو لگی ہیں اور اُن میں یہ بات بھی شامل ہے۔ ماہرین کے ''طریق واردات‘‘ کی وضاحت چاہی تو مرزا نے کہا : ''ماہرین کو جب کوئی ڈھنگ کا موضوع نہیں ملتا یا کوئی اور مخلوق تختۂ مشق بننے پر آمادہ نہیں ہوتی تو وہ انسانوں کی طرف آتے ہیں یعنی ''بین الانسانی‘‘ تعلقات کا بینڈ بجانا شروع کرتے ہیں! اور جب وہ اپنی جیسی تیسی تحقیق کا نتیجہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ اب تک وہ جو کچھ کرتے آئے ہیں وہ کس قدر گیا گزرا ہے! گزرے ہوئے زمانوں میں جو کام کٹنیوں کا ہوا کرتا تھا وہی کام اب ماہرین اور محققین کا ہے! یہ انسانی رویّوں کے بارے میں ایسی بے پَر کی اڑاتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں بدگمانیوں کو پیدا ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی معاشرتی موضوع پر تحقیق سے متعلق خبر یا مضمون پڑھنے کے بعد بہت سے لوگ بدہضمی کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں! بھول جانے کی عادت کو اچھا قرار دینے کی پشت پر بھی خاص منطق کام کر رہی ہے۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ انسان بھولی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچ کر زیادہ پریشان نہ ہوں۔ بھول جانے کو اچھی بات اس لیے قرار دیا جارہا ہے کہ ہم کسی بھی موضوع پر ان کی پچھلی تحقیق بھول کر نئی کا انتظار کریں! یعنی ماہرین اور محققین اگر اپنی ہی کسی گزشتہ تحقیق کے خلاف بھی جائیں تو کسی کو کچھ یاد نہ ہو!‘‘ 
گویا ع 
جنابِ شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی 
مرزا کی وضاحت نے تو ہمیں واقعی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ماہرین اتنے ''چبھتے رستم‘‘ نکلیں گے! وہ چاہتے ہیں کہ کل کو انہیں اپنی ہی کسی تحقیق کا رد کرنا پڑے تو ہم اس کے استقبال کے لیے بھی ذہن تیار رکھیں! بہت خوب۔ ارے بھائی، ع 
''تحقیق‘‘ کرو ہو کہ ''عذابات‘‘ کرو ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved