من مانی ایسے حالات میں ایک متعدی مرض بن جایا کرتا ہے ؎
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب
دونکات پر گوجرخان کے اخبار نویس متفق نظر آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ڈی ایس پی زمان مرزا ایماندار اور عوام دوست پولیس افسر ہیں۔ النادر کالمعدوم۔ وہ لوگ جو استثنیٰ ہوتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے: زمین کا نمک۔ اورنگزیب عالمگیرسے اس مرد فصیح نے کہا تھا: وہ کہ جن کے بل پر سلطنت کا کاروبار چلایا جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ معطل ایم پی اے شوکت بھٹی حد سے گزر گئے۔ اور شاید اس لئے گزر گئے کہ ان کی رسی اللہ نے ڈھیلی کر رکھی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں اشفاق سرور کی سرپرستی حاصل ہے اور بعض کے مطابق شاہد خاقان عباسی کی بھی۔اشفاق سرورتو خیر؟ اگرچہ تصدیق ان کی بھی نہیں کی مگر شاہد خاقان کی شرافت تو مسلمہ مانی جاتی ہے۔ رہے چودھری نثار تو شایدکبھی رہے ہوں۔ ایسے نامقبول لوگوں سے بہت جلد وہ پنڈچھڑا لیتے ہیں۔ مردہ بوجھ اٹھانے کے وہ قائل نہیں۔ فرض کیجیے، وہ تینوں نہیں تو پھر خادم پنجاب کے دفتر میں لازماً ایسا کوئی شخص موجود ہے‘ اس لئے کہ جو قیمت پنجاب حکومت اور نون لیگ ادا کر رہی ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔
آج تو فقط ایک مظاہرہ ہی پولیس افسر کے حق میں ہوا ، مگر جمعہ کے دن شہروالے جی ٹی روڈ بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کرگزریں گے۔ شاید ہرچینل پر چیخ و پکار ہو۔ راولپنڈی اور اسلام آباد ہی نہیں، پختون خوا ، مری اور آزاد کشمیر کی تمام ٹریفک اس راہ سے گزرتی ہے۔ راولپنڈی کا کوئی بائی پاس تو ہے نہیں اور مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نہیں۔ جی ایچ کیو سے لے کر ایوان وزیر اعظم اور مقامی سیاستدانوں تک کسی کو بھی احساس نہ ہوا کہ بائی پاس کی عدم موجودگی نے جڑواں شہروں کی ٹریفک برباد کر رکھی ہے۔سالانہ اربوں روپے کا زیادہ ڈیزل اور پٹرول جلتا ہے۔ ڈی ایس پی زمان مرزا سے گوجرخان کے لوگ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟ تین بار وہ اس قدیم شہر کا ایس ایچ او رہا جو راولپنڈی سے صدیوں پہلے آباد تھا۔ ایک بار نوماہ، دوسری بارپانچ ماہ ، تیسری باردس مہینے کے لئے۔
برسوں سے میں اسے جانتا ہوں۔ وہ غیرمعمولی استعداد کا آدمی ہرگز نہیں اور باتونی بہت ہے۔ لطیفے سنایا کرتا ہے اور حکایات بھی۔ تھوڑا سا خبطی ہے۔ بات چیت کا سلیقہ بھی قدرے کم ہے مگر دیانت ایسی کہ سبحان اللہ۔ عوام دوست اس قدر کہ خواہ کتنی ہی احتیاط سے تفصیل بیان کی جائے تو مبالغے کا احساس ہو۔ سات برس ہوتے ہیں‘ ایک'' فوجی‘‘ گاڑی میں منشیات لے جانے والے کو اس نے پکڑا تو تیس لاکھ روپے کی رشوت ٹھکرا دی۔ عرض کیا نا کہ پاگل سا آدمی ہے۔ منشیات فروش سے روپیہ وصول کرنے میں حرج ہی کیا تھا۔ پرچہ اس کے باوجود درج کر دیتا‘ جیسا کہ بعض سیانے افسر کیا کرتے ہیں۔ بہت لائق نہ سہی مگر بہادر ضرور ہے اور یکسو بھی۔ 20 اشتہاریوںکوموت کے گھاٹ اتار چکا ۔ شہر کے لوگ شہادت دیتے ہیں کہ یہ سب اصلی پولیس مقابلے تھے۔ مرنے والوں میں سے ایک کا بھائی اڈیالہ جیل میں پڑا ہے اور اسے قتل کی دھمکی دے چکا۔ 302 کے ایک مقدمے میںماخوذہے۔
زمان مرزا کو‘ جس نے اپنا فون بند کر رکھا ہے‘ اس شخص سے اندیشہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس کامسئلہ تو شوکت بھٹی ہے۔ نون لیگ کا ایم پی اے ۔اُس کے بارے میں فیصلہ تو عدالت ہی کر سکتی ہے مگر گوجر خان اور مندرہ کے لوگ جو کچھ اس کے بارے میں کہتے ہیں‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ سینکڑوں دیہات کے لوگ بھی ۔زمینوں پر قبضے کرنے کا الزام ہے اور پولیس سے مل کر رشوت خوری کا۔ تفصیلات ششدر کر دینے والی ہیں مگر ایسی بھی کیا ششدر کرنے والی۔ مملکت خداداد پاکستان ایک چراگاہ ہے‘ شب و روز جہاں کمزوروں کا شکار کھیلا جاتا ہے۔ پریشان کن سوال یہ ہے کہ آئی جی مشتاق سکھیرا کو خبر کیوں نہیں۔ خبر ہے تو کیا وہ مجبور ہیں۔ خادم پنجاب کی ناک کے نیچے یہ تماشاکیوں برپا ہے‘ جس کی قیمت آخری تجزیے میں انہی کوادا کرنا ہو گی۔
ایک ہفتہ قبل زمان مرزا کا تبادلہ کر دیا گیا۔ شہر کے شرفا چیخے چلائے تو منسوخ ہوا۔ ایم این اے جاوید اخلاص مگر ان سے زیادہ شوکت بھٹی نے نیک نام پولیس افسر کے شہر بدر کرنے کی گویا قسم کھا رکھی تھی۔ جاوید اخلاص پر عوامی دبائو پڑا تو اس نے معذرت کر لی اور آئی جی کو پیغام بھیجا کہ وہ فریق نہیں۔ تبادلہ منسوخ کر دیا گیا کہ شہرمضطرب تھا اور بہت مضطرب۔شوکت بھٹی نے اس پر ایک عدد پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کہا کہ ڈی ایس پی من مانی کرتا ہے۔ من مانی تو وہ کرتا ہے۔ عدالت نے بھٹی صاحب کے خلاف جعلی ڈگری کی تفتیش کا حکم دیا تو ذمہ داری مرزا کو سونپی گئی۔ بھٹی صاحب عزت دار آدمی ہیں۔ مرزا کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ وہ جو پولیس والے کہا کرتے ہیں ''بندے کبندے کا فرق‘‘ ۔مرزا کا مرض یہی ہے۔ بیس برس پہلے کے اسسٹنٹ کمشنر اسد اللہ خان کی طرح جو اب ملتان کے کمشنر ہیں۔ افتاد گان شہر کو اس نے بگاڑ دیا ہے۔ دروازہ کھلا رکھتا ہے۔بھٹیوں کے لیے نہیں بلکہ بھٹیوں کے مارے ہوئوں کے لیے۔ ثواب کمانے کا شوق ہے؟ میرا خیال ہے یہ بھی نہیں۔ بس آزادآدمی ہے اور دماغ میں خناس۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ نوکری چلی جائے گی؟ممکن ہے کسی دن تنگ آ کر خود ہی چھوڑ دے۔ بچوں کی فیس کے پیسے اب تک ابا سے منگواتا ہے۔ وہ بھی پولیس افسر تھے اور قرائن یہ کہتے ہیں کہ اسی قماش کے۔
ایک آدھ نہیں بھٹی صاحب کی بے شمار فرمائشیں اس نے مسترد کیں۔ انہی کی کیا اور بھی بہت سوں کی۔ حتیٰ کہ دوستوں کی۔عجیب آدمی ہے۔ دلدل میں کشتی چلاتا ہے اور قہقہے لگاتے ہوئے۔ ایک اور ذوالفقار چیمہ ہے، ایک اور ڈاکٹر سڈل۔ مارا جائے گا، کسی دن مارا جائے گا۔ بھٹی کے ٹھاٹھ تو یہ ہیں کہ اخبار نویسوں تک کو دھمکا دیتا ہے۔ گوجر خان کے کسی صحافی کی کم ہی مجال ہوتی ہے کہ زبان کھولے۔ اپنے گائوں تھرجپال بنگلے میں ہرسوموار کو دربار لگاتا ہے۔ اب تو معطل ہے۔ پہلے ڈی ایس پی حاضر ہوا کرتا اور تھانیدار اور پٹواری بھی۔ اب بھی وہ بے تاج بادشاہ ہے ؎
بن گئے حجاج وثقفی صاحب تاج و سریر
شمر ذی الجوشن کے در پر نوحہ خوانوں کی جبیں
6 جنوری کوسپریم کورٹ جعلی ڈگری کیس پر فیصلہ دینے والی ہے۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو بندوبست اس نے کر رکھا ہے ؎
جہاں میں ''اہل ایماں‘‘ صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے
آج کے مظاہرے میں شہر کی سبھی سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ نون لیگ کے پانچ عدد کونسلر اور ایک یونین کونسل کا چیئرمین بھی۔ انجمن تاجران اور وکلاء بھی۔ سول سوسائٹی اس کے سوا۔
گوجر خان سے 7 کلو میٹر شمال میں، جی ٹی روڈ پر چار سو گھروں کا ایک گراں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک نوسرباز اس گائوں میں آباد ہے۔ سال گزشتہ جعلی کرنسی چھاپنے والوں کی تلاش میں ایف آئی اے نے چھاپہ مارا تو چھتوں پر سے خواتین تک نے پتھر برسائے۔ پتھر پوٹھوہار میں بہت ہیں۔ دس لاکھ برس پہلے یہ ایک جھیل تھی تابہ میانوالی۔ حفیظ اللہ خان اور عمران خان وہیں کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس گائوں کے اکثر لوگ شوکت بھٹی صاحب کے دستِ حق پرست پر بیعت کیے ہیں۔شرفا بھی ہوں گے مگر کہا جاتا ہے۔
صاحبِ عظمت و شکوہ بھٹی صاحب پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح کا کاروبار جو سیاستدان کیا کرتے ہیں۔ گوجر خان، مندرہ اور راولپنڈی تک میں ان کا سکّہ چلتا ہے۔ کیوں نہ چلے، بیشتر پولیس افسران کی مرضی سے مقرر کیے جاتے رہے۔ قاف لیگ کا روڑہ ہیں مگر 2008ء میں نون لیگ سے وابستہ ہو گئے۔ پانچ سال تک ڈٹ کر شہنشاہی کی۔ 2013ء میں ٹھاٹھ سے جیتے لیکن پھر دو برس مزید عدالت آڑے آ گئی۔ جج صاحب تو خیر کیا بگاڑ سکتے، پاگل زمان مرزا ان کی جان کو اٹک گیا۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف مدظلہ العالی سے درخواست ہے کہ تبادلے پر اکتفا نہ کی جائے، اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اپنے طور پر ہی وہ تھانہ کلچر بدلنے پر تلا ہے۔ ایسے آدمی کو گوارا کرنے کا مطلب یہ ہوگا رفتہ رفتہ پولیس اور افسر شاہی ہاتھ سے نکل جائے۔ من مانی ایسے حالات میں ایک متعدی مرض بن جایا کرتا ہے ؎
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب