کرسمس سے چار دن پہلے،21 دسمبر کی شام ایک مسافر بس کینیا کے قصبے منڈیرا سے گزر رہی تھی کہ اچانک مسلم انتہا پسندوں کی تنظیم الشباب کے گوریلوں نے بس کو روک کر اس میں سوار مسلمان مردوں سے کہا کہ وہ عیسائی سواریوں کی نشاندہی کریں تاکہ انہیں نیچے اتار کر قتل کیا جا سکے۔ لیکن بس میں موجود مسلم خواتین نے اپنے سروں سے حجاب اور سکارف اتار کر عیسائی خواتین کو پہنا دیے‘ اور مسلم مردوں اور عورتوں نے عیسائی مسافروں کے سامنے اپنے جسموں کی ڈھال بنا کر الشباب کے انتہا پسندوں سے کہا کہ ان عیسائیوں سے پہلے آپ کو بس میں سوار مسلمانوں کو قتل کرنا ہو گا۔ کافی دیر کی کھینچا تانی اور انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو مارنے کی دھمکیوں اور کچھ کو رائفلوں کے بٹ مارنے کے باوجود جب گوریلوں نے دیکھا کہ ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی تو وہ انہیں وارننگ دیتے ہوئے چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسی قبیل کے مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنے کی مہم چلا رہے ہیں‘ لیکن یہ پورا سچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ خاندان شروع سے ہی نسلی اور مذہبی تعصب کا شدید رجحان رکھتا ہے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ اس نعرے کو دنیا کی اس سپر پاور (امریکہ) کی صدارتی مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو دنیا کو جمہوریت اور انسانی حقوق کی پابندیوں کا درس دیتے نہیں تھکتی۔
امریکیوں کو یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ آئندہ صدارتی الیکشن کے لیے صدارتی امیدواروں کی فہرست میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مسلم دشمنوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنے اور کسی بھی مسلمان کے امریکہ میں داخل ہونے کے
بارے میں جو کہا‘ وہ اس کی مسلم برادری سے نفرت کی انتہا نہیں‘ بلکہ ابتدا ہے۔ اگر اس کے سرمائے کی جانب دیکھیں تو وہ منشیات کی سوداگری، قحبہ خانوںکی مجاوری اور سونے کی لوٹ مار کی آمدنی کے سوا کچھ نہیں۔ جرمنی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندان کا پیشہ بال کاٹنا تھا۔ قلیل آمدنی سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے دادا نے نیو یارک جانے کا فیصلہ کیا۔ شاید اس کی نظر میں یہ پیشہ حقارت کا باعث نہیں تھا کیونکہ اگر اس کا قحبہ گری یا چوری چکاری سے موازنہ کیا جائے تو ہیئر کٹنگ باعزت پیشہ قرار پائے گا۔
ٹرمپ اپنا آبائی وطن ہمیشہ جرمنی بتاتا رہا‘ لیکن دوسری جنگ عظیم کے کوئی چالیس سال بعد اس نے دوستوں کو بتایا کہ ان کا خاندان اصل میں سویڈش ہے۔ اس کا اقرار اس نے 1987ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Art Of the Deal میں تفصیل سے کیا ہے۔ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ اتنا عرصہ اپنی اصل خاندانی شناخت کے بارے میں غلط بیانی کا کیا مقصد تھا؟ لیکن اب حالیہ کئی برسوں سے وہ اپنے خاندان کی نسبت ایک بار پھر جرمنی سے قرار دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا پردادا 1885ء میں جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبےKALLSTADT سے نیو یارک پہنچا‘ جہاں وہ ہیئرکٹنگ کرتا کیونکہ یہ اس کا خاندانی پیشہ تھا اور اس کے والدین نے اسے اس کے علاوہ اور کچھ سکھایا ہی نہیں تھا۔ اس کے دل میں امیر بننے کی خواہش ہر وقت مچلتی رہتی تھی؛ چنانچہ ایک دن وہ بال کاٹنے کی کوفت سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ساری زندگی لوگوں کے بال کاٹتے گزار دے۔ اس کے بعد وہ تعمیراتی کام سے وابستہ ہو گیا‘ جس میں اس کے خاندان نے آگے چل کر بہت ترقی کی۔
1973ء میں امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ برائے شہری حقوق کو شکایت ملی کہ ٹرمپ خاندان کی تعمیراتی کمپنی اپنے بنائے گئے گھر ''کالے رنگ‘‘ والوں کے لیے ممنوع قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس رویّے کی تصدیق کرنے کے لیے اربن لیگ نے چند گوروں اور کچھ کالے لوگوں کو اس کے تیار کیے گئے گھروں کو خریدنے یا کرائے پر لینے کے لیے بھیجا اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ٹرمپ کمپنی نے گوری رنگت والوں کو تو اسی وقت گھر دے دیے‘ لیکن کالوں کی بات سننے سے بھی انکار کر دیا‘ اور یہ کہتے ہوئے انہیں وہاں سے جانے کو کہا کہ اس وقت ان کے پاس کوئی گھر کرائے پر دینے یا بیچنے کے لیے دستیاب نہیں۔ سول رائٹس کی عدالت کے ریکارڈ میں آج بھی اس بات کی تفصیل موجود ہے کہ عدالتی عملے کے چار اہلکاروں نے پراپرٹی کرائے پر لینے کے لیے ٹرمپ کمپنی کو درخواستیں دی تھیں، اس وقت اس کے پاس گھر خالی تھے لیکن کمپنی نے غلط بیانی سے کام لیا اور تحقیق کے بعد ثابت ہو گیا کہ یہ شکایت حقیقت پر مبنی ہے۔ 1979ء میں ویلج وائس نامی رسالے نے اس عدالتی کارروائی کے بارے میں لکھا کہ ''کمپنی کے ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں نے اقرار کیا ہے کہ انہیں ٹرمپ نے سختی سے ہدایت کر رکھی تھی کہ کسی کالے کو اس کے تیار کردہ گھر کرائے پر نہ دیے جائیں‘‘۔ 1975ء میں امریکی ہائوسنگ ڈویژن نے اس معاملے کی انکوائری کروائی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ ''ٹرمپ کمپنی اپنے خالی گھروں اور اسامیوں کے لیے دیے گئے اشتہارات میں کالی رنگت اور اس قسم کے دوسرے لوگوں کو شامل کرنے کی پابند ہو گی۔ ٹرمپ کمپنی سے کہا گیا کہ وہ اپنی کمپنی میں خالی اسامیوں کی ایک فہرست اربن لیگ کو ارسال کرنے کی بھی پابند ہو گی تاکہ اسے بیروزگار لوگوں کی اطلاع اور رہنمائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اپنے فیصلے میں جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹرمپ کمپنی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے کالی رنگت والوں کے خلاف اختیار کیے گئے رویے سے امریکہ میں نسلی تعصب پھیلنے کا شدید خدشہ ہے جسے کوئی مہذب معاشرہ قبول نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ اب یہی رویہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوششں کر رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پردادا فریڈرک ٹرمپ نے اپنے کاروبار کا آغاز نارتھ ویسٹرن امریکہ اور ویسٹرن کینیڈا میں ریسٹورنٹس اور قحبہ خانوں سے کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دادا کے ذرائع آمدن اور ان کے پیشے کے بارے میں واٹ ہارس سٹار نامی اخبار نے27 فروری 1901ء کو صفحہ اول پر خبر دیتے ہوئے لکھا: ''Donald Trump's grandfather got rich in the Yukon with hotels known for 'female companionship"۔۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے دادا کے بارے میں بائیوگرافر گونڈا بلیئر کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر کے ریڈ لائٹ ایریا میں جسے Lava Beds کے نام سے جانا جاتا ہے، جگہ لیز پر حاصل کرنے کے بعد ''پوڈل ڈاگ‘‘ کے نام سے ایک سٹور/ ریسٹورنٹ تعمیر کیا‘ جس میں ایک کچن اور بار روم کے علاوہ ''خواتین کے لیے پرائیویٹ کمرے‘‘ بھی تھے‘ جنہیں ''Code for Prostitutes'' کے نام سے پکارا جانے لگا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ٹرمپ فیملی کا کلنڈائک میں ایک ہوٹل اور ایک ریسٹورنٹ تھا جو Lake Bennett اور وائٹ ہارس میں واقع تھے۔ ان میں سے ایک Arctick اور دوسرا New Arctick کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یکون سن اخبار میں اس کے ایک قاری کا اپریل1900ء میں لکھا ہوا خط آج بھی محفوظ ہے جس میں ''بینٹ کے علاقے میں آنے والی اکیلی معزز خواتین سے درخواست کی گئی کہ وہ یہاں کے کسی ہوٹل میں ٹھہرنے سے پہلے اس کی شہرت کے بارے میں تصدیق کر لیا کریں‘‘۔