ایک تھا بادشاہ۔ وہ جب بھی محل سے باہر نکلتا‘ ہر آنے جانے والے کو روک کر اپنی بپتا سناتا کہ ''دیکھو! میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کوئی میری بات نہیں سنتا۔ میں بادشاہ ہوں۔ میرے کمانڈر‘ میرے وزیروں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ مجھے ملاقات کا وقت بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے بہت اصرار کر کے‘ ملاقات کا وقت لیا‘ تو وہ ایک تنگ و تاریک کمرے میں بند تھا۔ میں نے آ کر اپنے کمانڈروں سے شکایت کی۔ انہیں کہا کہ خدا کے بندو! یہ میرا وزیر ہے۔ اسے اچھی جگہ تو رکھو۔ کمانڈروں نے مجھ پر مہربانی کی اور جس کمرے میں ان کا دفتر تھا‘ میرے قیدی وزیر کو وہاں رہنے اور سونے کی اجازت دے دی۔ میں یہ بات اپنے لوگوں کو بتا سکتا ہوں کہ میرے وزیر کو اچھی حالت میں رکھا گیا ہے‘‘۔ دو چار دن کے بعد بادشاہ کو پھر کہیں لوگوں میں جانے کا وقت ملتا تو وہ نئی کہانی چھیڑ کر بیٹھ جاتا: ''دیکھو جی! کتنا ظلم ہے کہ میں نے اپنی فوج کو دارالحکومت کا امن و امان بحال رکھنے کے لئے شہر میں آ کر رہنے کی اجازت دی۔ فوج نے اپنی مرضی سے شہریوں کو اٹھانا‘ چھپا دینا‘ انہیں نوے نوے دن کے لئے غائب کر دینا شروع کر رکھا ہے۔ اسے دارالحکومت میں رکھنے پر میرے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘ اور جب میں فوج سے کہتا ہوں کہ اپنے افسروں کے اخراجات‘ اپنے محکمے سے وصول کرو‘ تو کہتے ہیں اپنے وزیر سے پوچھو۔ میں کیسا بادشاہ ہوں؟ سب کہتے ہیں کہ میں بادشاہ ہوں‘ جیسے چاہوں کر سکتا ہوں‘ لیکن جب میں اپنی مرضی چلانا چاہتا ہوں‘ تو کوئی میری سنتا ہی نہیں۔ بہت عرصے تک سب مجھے بادشاہ بادشاہ کہتے رہے‘ لیکن جب کافی عرصے تک میری کسی نے نہیں سنی‘ تو میں سوچتا ہوں کہ میرا وہ سر کہاں چلا گیا‘ جو ایک بادشاہ کا تھا۔ اگر میں بادشاہ ہوں‘ تو میرا سر کہاں ہے؟ میرا تاج والا سر میرے کندھوں پر نہیں تو پھر تاج کون لے گیا؟‘‘۔
بادشاہ پھر کسی دن‘ کہیں اور مجمع لگائے کھڑا نظر آتا اور کہہ رہا ہوتا کہ ''کمال ہو گیا جی! کہ میرا ہی وزیر اعظم میری بات نہیں سنتا۔ ملاقات کا وقت مانگتا ہوں‘ تو دیتا نہیں۔ مجھے کہتا ہے‘ دارالحکومت آ جائو۔ میں دارالحکومت جاتا ہوں تو مجھے انتظار گاہ میں بٹھا دیتا ہے۔ مزید انتظار کے بعد وزیر اعظم جب آتا ہے‘ تو گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے‘ مجھے تو دورے پر جانا ہے‘ جو کچھ کہنا ہے‘ جلدی جلدی کہہ لو۔ اب بتائو! میں جلدی جلدی اپنی بپتا کیسے سنائوں؟ بس ایک عوام ہی رہ گئے ہیں۔ انہیں اپنی بپتا سنا کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہوں‘ لیکن اپنے بڑے سائیں کی باتوں کا میں کیا جواب دوں۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ میرے خاص وزیر کو کب رہائی دلوا رہے ہو؟ میں کیا جواب دوں؟ کمانڈر میری سنتا ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں‘ سائیں کے لاڈلے سابق وزیرکی قید ختم کر کے‘ اسے آزاد کرائو۔ اچانک چار مسلح گارڈ آ کر میرے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اپنی فکر پڑ جاتی ہے۔ یہ کہیں مجھے ہی تو قید نہیں کر رہے۔ میں یہ جاننے کے لئے کمرے سے باہر جانے کی کوشش کرتا ہوں‘ تو مجھے کوئی گارڈ نہیں روکتا۔ یہ تسلی کر لینے کے بعد میں واپس جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور دل میں خدا کا شکر ادا کر کے‘ واپس
کمانڈروں کے پاس چلا جاتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ سائیں کے لاڈلے وزیر کو آزاد کر دو۔ اس پر کمانڈر ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں پناہ! وزیر کو تو فی الحال ہم نہیں چھوڑ سکتے؛ البتہ آپ حکم دیں تو آپ کو بھی وزیر کے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ میں وزیر کو چھڑانے گیا تھا۔ مجھے اپنی پڑ گئی۔ میں رعایا کو بتا نہیں سکتا کہ مجھ پر کیا کیا گزرتی ہے؟ میں جب بھی اپنے کمانڈروں سے وزیر کی رہائی کے لئے وقت لے کر جاتا ہوں‘ تو مجھے اپنی پڑ جاتی ہے اور جب ملاقات کا وقت ختم ہونے پر‘ میں آزادی سے واپس آنے کے بعد گھر پہنچتا ہوں‘ تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اپنی آزادی لے کر واپس آ گیا۔ لیکن میں دل کا درد کس کو سنائوں؟ کیسے اپنی رعایا کو بتائوں کہ میں ایک عمر رسیدہ اور تھکا ہوا بادشاہ ہوں۔ میرے بچے مجھے نہلا دھلا کر سوٹ پہنا دیتے ہیں۔ ٹائی باندھتے ہیں اور بوٹ پہنا کر رعایا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت میں دل ہی دل میں خدا سے شکایت کرتا ہوں کہ اے خدا! مجھے یہ کیسی بادشاہی دی ہے۔ ایک طرف میں اپنے سائیں کی فرمائشیں پوری نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف میرے کمانڈر میری بات نہیں سنتے۔ وزیروں سے بات کرتا ہوں‘ تو وہ ایک کان سے میری باتیں سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ میرے پاس اپنی رعایا کو سنانے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ اب تو رعایا بھی مجھ سے تنگ آ چکی ہے۔ میں کیسا بادشاہ ہوں؟ میرا جاہ و جلال کہاں ہے؟ اب تو رعایا بھی میری باتیں سن کر ہنسنے لگتی ہے۔ میں سب سمجھتا ہوں کہ ان کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ مگر کیا کروں؟ ایک بے بس بادشاہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے؟ جب اس کا وزیر اعظم‘ اس کی بات نہیں سنتا۔ کمانڈر میری باتوں پہ کان نہیں دھرتے۔ سائیں کے لاڈلے وزیر کو میں قید سے باہر نہیں نکال سکتا۔ وزیر اعظم سے فوج کا خرچ مانگتا ہوں تو وہ مجھے وزیر داخلہ کے گھر کا پتہ بتا دیتا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں تو وہ ناراضی کی حالت میں مسکراتے ہوئے مجھ سے کہتا ہے کہ شاید آپ وزیر دفاع سے ملنے آئے ہیں‘ جس پر مجھے یاد آتا ہے کہ واقعی جو کام لے کر میں وزیر اعظم کے پاس گیا تھا‘ اصل میں تو وہ وزیر دفاع کے محکمے سے تعلق رکھتا ہے۔ اے عوام الناس! تم خود ہی بتائو کہ میں کیا کروں؟ وزیر دفاع کو ڈھونڈتا ہوں تو وہ کہتا ہے: میں تو وزیر داخلہ ہوں۔ وزیر دفاع کے پاس جائو۔ وزیر دفاع کا دفتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں جاتا ہوں‘ تو عملہ مجھے وزیر دفاع کے کمرے میں بھیج دیتا ہے۔ اندر جا کے دیکھتا ہوں‘ تو پتہ چلتا ہے کہ وزیر دفاع کی کرسی پر وزیر داخلہ بیٹھا ہے۔ یا تو وزیر اعظم کو پتہ نہیں کہ کون سی وزارت‘ کس کو دینی ہے یا صرف مجھے بھول بھلیوں میں بھٹکانے کے لئے محکمے غلط سلط طریقے سے بانٹ رکھے ہیں۔ کئی بار چاہا کہ میں وزیر اعظم کو وزارتیں تقسیم کرنے کے طور طریقے بتا دوں۔ لیکن وہ توجہ سے میری کوئی بات ہی نہیں سنتا۔ ہنس کر دکھا دیتا ہے۔ انکار بھی نہیں کرتا۔ کام بھی نہیں کرتا۔ اوپر سے سائیں کی ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے‘ میں نے تمہیں بادشاہ اس لئے تو نہیں بنایا کہ اپنے وزیر اعظم کے سامنے جا کر کانپنے لگو۔ کمانڈروں سے ملاقات کر کے درخواستیں پیش کرو۔ تم سو سال کے ہو چکے ہو‘ تمہیں ابھی تک یہی پتہ نہیں چلا کہ بادشاہ اپنے وزیروں اور کمانڈروں سے اشاروں پر کام لیتے ہیں۔ میں سائیں کو کیسے سمجھائوں کہ وزیر اعظم اور کمانڈروں نے مجھے بہلانے کے لئے بادشاہ بنا رکھا ہے۔ اصل بادشاہ تو کمانڈر اور وزیر اعظم ہیں۔ یہ دونوں ہی میری نہیں سنتے۔ کئی بار سوچا کہ یہ بیکار بادشاہت چھوڑ چھاڑ کے جنگلوں میں نکل جائوں۔ مگر جب بھی میں جنگل کا راستہ ڈھونڈ کر اس پر چلا تو کسی نہ کسی نے مجھے روک کر شور مچا دیا کہ لوگو دیکھو! بادشاہ سلامت ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجمع جمع ہو گیا۔ عوام نے مجھے کندھوں پر بٹھا کر دوبارہ شاہی محل چھوڑ دیا۔ میں خدا سے گلا کرتا ہوں کہ تم نے مجھے کیسی بادشاہت دی ہے؟ حکم میرا نہیں چلتا۔ کام میرے نہیں ہوتے۔ کپڑے پہنانے کے لئے خدام نہیں ملتے۔ یہ کام میرے بچے کرتے ہیں۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے کہ میرے بچے‘ شاہی سر ڈھونڈ کے اس پر تاج کیسے رکھ دیتے ہیں؟ قدرت نے میرے ساتھ کیا مذاق کیا ہے؟ میں نے کئی بار اپنے کمانڈروں سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے مجھے بادشاہ کس لئے بنایا؟ تو وہ ہنس کے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اپنے وزیر اعظم سے پوچھتا ہوں کہ آخر میں کس چیز کا بادشاہ ہوں؟ تو وزیر اعظم ہنس کر جواب دیتے ہیں کہ تم مرضی کے بادشاہ ہو۔ جو چاہو حکم کرو۔ کوئی آپ کو انکار نہیں کر سکتا اور میں یہ سوچ سوچ کر کڑھتا ہوں کہ انکار تو کوئی نہیں کرتا‘ مگر حکم بھی کوئی نہیں مانتا‘‘۔
کہانی یونہی چل رہی ہے۔ بادشاہ‘ اپنے کمانڈروں‘ وزیروں اور گورنروں کو احکامات دے کر سوچتا رہتا ہے کہ ''مجھے بادشاہ کیوں بنایا گیا؟ کیا یہ سارے لوگ میرا مذاق تو نہیں اڑا رہے۔ میرے پاس ایک اسمبلی بھی ہے۔ میں جو قرارداد چاہتا ہوں‘ اسمبلی سے پاس کرا کے‘ نوٹیفکیشن کرا لیتا ہوں‘ مگر جب میں اسمبلی کی قرارداد لے کر وزیر اعظم کے پاس جاتا ہوں‘ تو وہ اسے پڑھ کے ہنسنے لگتا ہے۔ میں کیسا بادشاہ ہوں؟ میری کیسی بادشاہت ہے؟ پڑوس کے ملک بھارت کا وزیر اعظم اچانک لاہور آتا ہے‘ تو میرا وزیر اعظم ایئرپورٹ کی طرف بھاگتا ہوا نظر آتا ہے‘ اسے رسیو کرتا ہے اور جب میں ایئرپورٹ کے اندر جانے لگتا ہوں‘ تو پولیس کے اعلیٰ افسر‘ مجھے روک کر کہتے ہیں کہ ''عالم پناہ! آپ ذرا ایک طرف ہو جائیں۔ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم صاحب آئے ہیں‘‘۔ میں نے اس وقت سے تہیہ کر رکھا ہے کہ جیسے ہی پہریداروں نے موقع دیا‘ میں آنکھ بچا کے شاہی محل سے نکل بھاگوں گا اور پھر کسی کے ہاتھ نہیں آئوں گا۔ ایک تو عمر سو سال کی‘ دوسرے جواں سال کنیزیں۔ کمانڈروں کی فوج۔ وزیروں کے جمگھٹے۔ خدا نے مجھے بادشاہت کیوں بخشی؟ میرے پاس تو وہ سر بھی نہیں‘ جس پر تاج پہن سکوں۔ میری طرح کا ایک اور مظلوم ہے‘ جسے رہنے کے لئے شاہی محل دے رکھا ہے‘ مگر وہ تاج سے محروم ہے۔ جس کے پاس سر ہے‘ اس کے پاس تاج نہیں۔ جس کے پاس تاج ہے‘ اس کے پاس سر نہیں‘‘۔