تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-01-2016

اے روشنیوں کے شہر!

روشنیوں کے شہر میں دیے اب زیادہ دیر تک جلتے ہیں۔ تھوڑا سا اور صبر۔ تھوڑا سا اور انتظار۔ تھوڑی سی اور جدوجہد، شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ فارسی محاورے کے مطابق پائوں رکھنے کی جگہ نہیں اور چھوڑ کر چلے جانے کی کوئی صورت بھی نہیں۔ یہ ہے کراچی آپریشن کا کل قصّہ۔ عسکری قیادت اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑ سکتی۔ رینجرز کو پا بہ زنجیر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ذمہ داری کے لیے اختیار لازم ہوتا ہے۔ مسئلہ اب بھی حل نہ ہوا تو مرض اور بھی مُزمن ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کا ارشاد بجا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی اور نفرت سے کچھ حاصل نہیں۔ اتنی ہی بڑی حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ تلخی تمام کرنے میں دہلی سنجیدہ نہیں۔ کراچی ہی کو لے لیجیے۔ کوئی موقعہ وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ قائد اعظم کی زندگی ہی میں طے ہو گیا تھا کہ دونوں ملکوں میں کینیڈا اور امریکہ ایسے مراسم استوار نہیں ہو سکتے۔ جنگ اور فساد سے بچا جا سکے تو اس سے بہتر اور کیا ہے۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو نے چھوٹتے ہی کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت جب تاریخ برصغیر کی عظیم ترین مہاجرت اور قتلِ عام کا سلسلہ جاری تھا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کی تو اقوام متحدہ میں تشریف لے گئے۔ رائے شماری کا وعدہ کیا مگر موقعہ ملتے ہی مکر گئے۔ 
دن میں خواب دیکھنے والوں کی بات دوسری ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ بھارتی قیادت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہی نہیں، اپنی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف ہمہ وقت وہ بھڑکاتے رہتے ہیں۔ تنازعات طے کرنے کی طرف پیش رفت ہوتی ہے مگر نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنی پیدا کردہ صورت حال کے نخچیر ہیں۔ پاکستانی قوم نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت اب بھارت سے تصادم کے حق میں نہیں مگر کیا بھارتی رائے عامہ کے بارے میں بھی یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ نے کراچی میں چار جماعتوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ مسئلہ مگر مقامی ہی نہیں۔ کچھ درندے بھارت نے خود پال رکھے ہیں۔ آپریشن کے سلسلے میں وزیر اعظم کا دردِ سر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کو ایک حد سے زیادہ ناراض نہ کیا جائے۔ اب زرداری صاحب یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو ہو مگر ان کے کارندوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ لوٹ مار کا سلسلہ وہ جاری رکھ سکیں۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ بھی عملاً یہی ہے کہ سب دوسروں کو خواہ دار پہ لٹکا دیا جائے مگر ان کے کسی رہنما، حتیٰ کہ کارکن کی طبیعت ناساز نہ ہونے پائے۔ پکڑے جائیں تو پارٹی سے ان کا تعلق نہ جوڑا جائے۔ جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں۔ تہہ در تہہ سازشوں اور فساد سے اس طرح نہیں نمٹا جا سکتا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ طاقتور اگر سزا نہ پائیں، قانون کی لاٹھی صرف کمزوروں پر برستی رہے تو زخم رستا رہے گا۔ 
1995ء میں سندھ پولیس نے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ جون 1995ء سے جنوری 1996ء تک صرف سات ماہ کے عرصے میں۔ اس لیے کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، صدر فاروق لغاری اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ یکسو تھے اور نگراں۔ وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کی یہ اولین ترجیح تھی۔ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر حفاظتی انتظامات کے بغیر وہ کراچی میں گھوما کرتے۔ وہ انٹیلی جنس بیورو اور پولیس کی پشت پر کھڑے رہے۔ 150 دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا اور گیارہ سو سے زیادہ کراچی سے بھاگ نکلے۔ کچھ اندرون ملک اور کچھ دور دراز سرزمینوں، مثلاً جنوبی افریقہ میں۔ ہدایت انہیں یہ تھی کہ ایسی جگہوں پر جا چھپو، جہاں سورج کی کرن بھی پہنچ نہ سکتی ہو۔ پھر میاں صاحب سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ پانچ سو دہشت گردوں کو انہوں نے رہا کر دیا اور ''معصوم مقتولین‘‘ کے ورثاء کو ساٹھ کروڑ روپے تاوان ریاست نے ادا کیا۔ اس کے بعد ان کے حوصلے بلند نہ ہوتے تو اور کیا ہوتا۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف نے پوری کر دی۔ ایم کیو ایم کو انہوں نے شریک ِاقتدار ہی نہ کیا بلکہ کراچی شہر مکمل طور پران کے حوالے کر دیا۔ اب اس موضوع پر سوال کیا جائے تو وہ بگڑتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم ہی پر اعتراض کیوں ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیوں نہیں پوچھا جاتا، لوٹ مار کا بازار جس نے گرم کر رکھا ہے۔ رینجرز کے آپریشن کی وہ حمایت کرتے ہیں بلکہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے پر اصرار بھی۔ اس لیے کہ اگر کوئی ان کی مدد کر سکتا ہے تو وہ عسکری قیادت ہے۔ ہر ایک کو جب اپنی اپنی پڑی ہو تو نتیجہ اس کے سوا کیا نکل سکتا ہے، جو ہمارے سامنے ہے۔ کہنے کو پاکستان ان کے لیے سب سے پہلے ہے۔ انہی کے لیے کیا میاں صاحب اور زرداری صاحب بھی وطن کے جاں نثار ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب سوال کرتی ہے: لِمَ تقولون مالا تفعلون۔تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ خود پر ایمان رکھنے والے اپنے بندوں سے خالق کا مطالبہ یہ ہے کہ وقت آن پڑے تو سچی گواہی دیں۔ اپنے مفادات سے اوپر اُٹھنے کی تاب مگر ان لیڈر لوگوں میں کہاں؟
اپنی ترجیحات کا آدمی اسیر ہوتا ہے۔ اگر اپنا ذاتی تحفظ اور اپنے تعصبات ہی عزیز ہیں تو کہاں کا عدل اور کون سا وطن۔ عجیب رہنمائوں سے ہمیں واسطہ پڑا ہے۔ دولت اور اولادیں ان کی ملک سے باہر ہیں۔ عافیت کا احساس انہیں وطن سے باہر ہوتا ہے۔ قیام امن ان کی ترجیحات میں تیسرے نمبر پر بھی نہیں۔ اوّل اپنا اقتدار، پھر اپنی دولت اور اپنے کارندے۔ ملک برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے، ان کی بلا سے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے اور انسان کے تمام تر تاریخی تجربے کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ بڑے مجرم اگر قانون کی گرفت سے بچ نکلیں تو معاشرے کا شیرازہ بکھرتا چلا جائے گا۔ سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ قانون کی حکمرانی سے گریز۔
وزیر اعظم سے قائم علی شاہ کی ملاقات کے بارے میں قیاس آرائیاں بہت ہیں۔ ملاقات میں شریک ایک رہنما سے ناچیز کی بات ہوئی۔ ان کے مطابق ماحول خوش گوار تھا۔ وزیر اعلیٰ ہی نہیں، وزیر اعظم نے بھی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر تأسف کا اظہار کیا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی سراپا اخلاق تھے۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے ایما پر۔ دونوں فریق ڈاکٹر عاصم کی رہائی کے آرزو مند ہیں۔ وزیر اعظم کے بس میں ہو تو ان کی مدد بھی کریں۔ قائم علی شاہ سے مگر میاں صاحب نے یہ کہا: اگر آپ کی بات میں مان لوں۔ لوٹ مار کے خلاف ایف آئی اے اور نیب کی سرگرمیاں روک دوں تو باقی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ دوسری پارٹیوں سے زیادہ میڈیا، رائے عامہ اور عسکری قیادت سے انہیں اندیشہ ہے۔ حالات کا دھارا جناب زرداری اور میاں صاحب کی ترجیحات کے خلاف ہے۔ انہیں خوف ہے کہ کہیں کراچی کے شہری نہ اٹھ کھڑے ہوں اور لٹیا ہی ڈوب جائے۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود پنجاب میں دہشت گردوں اور بدعنوان لیڈروں کے خلاف کارروائی کے تقاضوں میں اب شدت ہے۔ قائم علی شاہ سے انہوں نے کہا: نیب تو اب خود ان کی اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو ڈھیل نہیں دے رہی۔ پیغام یہ تھا کہ صبر سے کام لیں۔ اچھے دنوں کا انتظار کریں۔ 
اچھے دن کب آئیں گے؟ شاید جنرل راحیل شریف کی سبکدوشی کے بعد۔ شاید... شاید۔ ممکن ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی موقعہ مل جائے۔ ملاقات میں شریک جس رہنما سے میری بات ہوئی۔ اس نے کہا: ہمارا خیال یہ ہے کہ اب وزیر اعظم عسکری قیادت سے رابطہ کریں گے۔ فوج ہے کہ واپس نہیں آ سکتی۔ سندھ حکومت اسے واپس بھیج نہیں سکتی اور وزیر اعظم تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ قاتلوں اور فسادیوں کو کھلی چھٹی دینے پر پاکستانی تاریخ کا عظیم ترین احتجاج برپا ہو سکتا ہے۔ یہ ہے رائے عامہ کا دبائو۔ یہ جمہوریت کا ثمر ہے۔ جو لوگ فوج سے راست اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر انہیں غور کرنا چاہیے اور اس پہلو پر بھی کہ عشروں سے چلا آتا مرض مہینوں میں تحلیل نہیں ہو سکتا۔ بڑی حد تک کراچی کا امن لوٹ آیا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں دیے اب زیادہ دیر تک جلتے ہیں۔ تھوڑا سا اور صبر۔ تھوڑا سا اور انتظار۔ تھوڑی سی اور جدوجہد، شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved