تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-01-2016

چھ کھرب کا نقصان اور اسحاق ڈار کی چھلانگیں

حکومت کرنا اور جھوٹ بولنا کم از کم ہمارے ہاں تو لازم و ملزوم چیز بن چکے ہیں۔ گمان تو یہی ہے کہ دنیا بھر میں حکمران اپنے عوام سے کسی نہ کسی صورت میں جھوٹ بولتے رہتے ہیں مگر ہمارے ہاں حکمران عوام سے صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ وعدہ کرتے ہوئے بولے جانے والے جھوٹ، حقائق کھلنے پر بولے جانے والے جھوٹ، بجٹ پیش کرتے ہوئے بولے جانے والے جھوٹ، اپنی کارکردگی کے بارے میں بولے جانے والے جھوٹ، گزشتہ حکومت کے ذمے لگائے جانے والے بہت سے جھوٹ، اپنی ایمانداری اور دوسروں کی بے ایمانی بارے بولے جانے والے جھوٹ، خارجہ پالیسی بارے بولے جانے والے جھوٹ، داخلہ پالیسی بارے بولے جانے والے جھوٹ اور معاشی بہتری بارے بولے جانے والے جھوٹ۔ خدا کی پناہ۔ ہر بات میں جھوٹ کی صرف آمیزش ہی نہیں بلکہ خالص اور سو فیصد جھوٹ۔ یہ شاید حکمرانوں کی واحد خصوصیت ہے جو ملاوٹ کے بغیر ہے۔
اسحاق ڈار نے چار روز قبل فرمایا کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف تیزی سے رواں ہے اور اس بات کا اعتراف بیس بین الاقوامی اداروں نے کیا ہے۔ ان بیس اداروں کے بارے میں مجھے نہ تو علم ہے کہ یہ کون کون سے ہیں اور نہ ہی مجھے اس بارے کوئی معلومات حاصل کرنے کا شوق ہے۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ ان اداروں میں نہ تو ورلڈ بینک ہو گا اور نہ ہی آئی ایم ایف وغیرہ کہ ہم ان اداروں کو ان میں شمار نہیں کر سکتے کیونکہ قبلہ وزیر خزانہ انہی عالمی اداروں کے آگے ہر چوتھے دن ہاتھ پھیلائے پہنچ جاتے ہیں اور ملکی صورتحال کی دردناک منظر کشی کر کے ان کو قرضے پر آمادہ کرتے ہیں، پھر مزید ٹیکس لگا کر اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی خوشخبری سنا کر ان کو قرض کی واپسی کا یقین دلاتے ہیں۔ اس طرح سے موصوف دوچار کروڑ ڈالر تو قرض لاتے ہیں اور اس قرض کی رقم پر بڑھکیں مارتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال بڑی اچھی ہے اور عالمی ادارے ہماری معاشی حالت پر بڑے مطمئن ہیں اور اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت ترقی کر رہی ہے اور بہتری کی طرف گامزن ہے۔ بندہ پوچھے اگر معاشی حالت اچھی ہے اور صورتحال روز بروز بہتر ہو رہی ہے تو قرض کس لیے مانگا جا رہا ہے؟ اگر معیشت ترقی کر رہی ہے تو عالمی اداروں سے قرض لینے کے لیے ناک کیوں رگڑا جا رہا ہے؟۔ عالمی ادارے اگر ہماری معیشت میں شرح نمو دیکھ رہے ہیں تو روزانہ ہم سے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟۔
دراصل ہمارے وزیر خزانہ ماہر معاشیات تو ہیں نہیں۔ سیدھے سادے اکائونٹنٹ ہیں اور ترقی کرتے کرتے وزیر خزانہ بن گئے ہیں حالانکہ اصولاً انہیں ترقی کرتے کرتے زیادہ سے زیادہ کسی بڑے ادارے کا سی ایف او(چیف فنانشل آفیسر) بننا تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ ایک بڑے ادارے کے سی ایف او ہی تھے تا ہم بڑے لوگوں کی رشتہ داریوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور وزیر خزانہ بن گئے۔ چوہدری بھکن کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے کی مانند جیسا کہ کہانیوں میں پڑھتے ہیں اگر ان کے پاس واقعتاً شاہی خزانہ ٹائپ کوئی چیز ہوتی یعنی ایک بہت بڑے کمرے میں سونا چاندی، ہیرے جواہرات، اشرفیاں اور نوٹ وغیرہ ہوتے تو شاید یہ بہتر انداز میں وزارت چلا لیتے کہ ایسے معاملات کو چلانا آسان ہے کہ جو ہے سو حاضر ہے اور جو نہیں ہے وہ نہیں ہے۔ مگر اس طرح کا خزانہ کہ جس میں ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور اخراجات منہ پھاڑے کھڑے ہوں، چلانا بڑا مشکل ہے۔ ایسے خزانے کی بنیاد پر ملک چلانا ماہرین معاشیات وغیرہ کی سر دردی ہے نہ کہ کسی اکائونٹنٹ کی۔ اگر موصوف ماہر معاشیات ہوتے تو دوچار کروڑ ڈالر مانگنے کے لیے آئی ایم ایف کے دردولت پر کاسۂ گدائی پھیلانے کے بجائے یہ پیسہ ملکی وسائل سے پیدا کرنے کے ذرائع تلاش کرتے اور ملکی معیشت کو ہر بار قرض کا ٹیکہ لگانے کے بجائے مستقل اسباب پیدا کرتے۔
غضب خدا کا کہ ہم ہر چوتھے مہینے ہاتھ پھیلائے دوچار ارب روپے کی خیرات مانگنے پہنچ جاتے ہیں اور ملک کو گزشتہ چند ماہ میں چھ کھرب روپے کا جو نقصان ہوا ہے اس کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ کسی سرکاری فورم پر اس تباہی اور بربادی پر کوئی ری ایکشن نظر نہیں آ رہا۔ اس معاشی بربادی پر کوئی فکر مند نظر نہیں آ رہا۔ مستقبل میں اس کا کوئی علاج کسی کی ترجیحات میں نہیں۔ صرف کپاس کی موجودہ فصل یعنی خریف 2015-16ء میں کم از کم اڑتالیس لاکھ گانٹھ کی پیداوار کم ہوئی ہے۔ اگر اس اڑتالیس لاکھ گانٹھ کا جائزہ لیں تو نہایت ہی بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے۔ 
پاکستان میں گزشتہ سال کی کپاس کی پیداوار ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ اڑتیس ہزار سے زائد تھی۔ اس میں سندھ کی پیداوار انتالیس لاکھ چوہتر ہزار گانٹھ تھی جبکہ پنجاب کی پیداوار ایک کروڑ آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار گانٹھ تھی۔ اس سال اب تک سندھ کی پیداوار چھتیس لاکھ پینتیس ہزار تین سو پانچ گانٹھ آ چکی ہے اور امید ہے دو تین لاکھ گانٹھ مزید آئے گی۔ اس طرح سندھ کی موجودہ سال کی پیداوار تقریباً گزشتہ سال کے برابر ہو گی۔ دوسری طرف پنجاب میں برا حال ہے۔ گزشتہ سال کی ایک کروڑ آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار گانٹھ کے مقابلے میں اس سال کی اب تک کی پیداوار تریپن لاکھ اٹھانوے ہزار آٹھ سو نو گانٹھ ہے۔ یعنی پنجاب اور سندھ کی کل پیداوار گزشتہ سال کی پیداوار ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ اڑتیس ہزار کے مقابلے میں نوے لاکھ تینتیس ہزار گانٹھ ہے۔ یعنی گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 لاکھ گانٹھ کم ہیں۔اور حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیزن کے اختتام تک مزید پچیس لاکھ کے لگ بھگ گانٹھ اور آ جائے گی مگر یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ بقیہ فصل کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور زیادہ سے زیادہ اگر بڑا زور لگائیں تو دس لاکھ گانٹھ مزید شامل ہو سکی ہے یعنی کل پیداوار ایک کروڑ گانٹھ ہو گی۔ اگر فائنل صورتحال دیکھیں تو گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال پاکستان کی کپاس کی پیداوار کم از کم اڑتالیس لاکھ گانٹھ کم ہو گی۔ یہ سارا خسارہ پنجاب کا ہے۔ سندھ تقریباً گزشتہ سال کے برابر رہے گا۔ پنجاب کے اس خسارے میں بھی سب سے زیادہ نقصان ملتان، وہاڑی، خانیوال اور پاکپتن کے کاشتکار کو ہوا ہے۔ اس علاقے کا کاشتکار برباد ہو گیا ہے۔ یہ صرف اسی فصل کی بات نہیں گزشتہ دو سال سے مسلسل اس علاقے کا کاشتکار اور زمیندار تباہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال فصل اچھی ہوئی تو ریٹ نہ ملا، اس سال نہ فصل اچھی ہوئی نہ ریٹ اچھا ملا۔ گزشتہ سال چاول کی فصل کا یہی حال ہوا اور چاول کا کاشتکار تباہ ہوا۔ حکمران کاروباری لوگ ہیں۔ ان کو زراعت کا پتہ ہے اور نہ سمجھ ہے۔ زراعت کا شعبہ برباد ہو رہا ہے اور وزیر خزانہ فرما رہے ہیں کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔
کپاس کی ایک گانٹھ کا وزن اوسطاً 156کلو گرام ہوتا ہے۔ اگر سینتیس کلو گرام والے پرانے من سے حساب کریں تو ایک گانٹھ تقریباً سوا چار من کی بنتی ہے۔ ایک من روئی کی اس سال قیمت پنجاب میں پانچ ہزار روپے من سے پانچ ہزار چھ سو روپے من تک رہی ہے۔ ہم اوسط قیمت اگر پانچ ہزار تین سو روپے من لگائیں تو اڑتالیس لاکھ گانٹھ کی قیمت لگ بھگ ایک سو دس ارب روپے بنتی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر چیزیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔
چالیس کلو پھٹی میں سے سوا چودہ کلو گرام روئی، دو کلو کاٹھ کباڑ اور 23اعشاریہ چھ کلو بنولہ نکلتا ہے۔ اس طرح اڑتالیس لاکھ گانٹھ روئی ہو تو اس کا بنولہ بارہ لاکھ چھتیس ہزار ٹن بنتا ہے اور اس سال بنولے کی قیمت آٹھ سو روپے فی من سے سولہ سو روپے فی من رہی ہے۔ اگر ہم بنولے کی قیمت اوسطاً بارہ سو روپے فی من لگائیں تو یہ رقم چالیس ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یعنی اڑتالیس لاکھ گانٹھ روئی اور اس سے نکلنے والے بنولے کی مجموعی قیمت ایک سو پچاس ارب روپے یعنی ایک کھرب پچاس ارب روپے بنتی ہے۔ یہ صرف جیننگ تک کے پراسس کی قیمت ہے۔ اڑتالیس لاکھ گانٹھ روئی کو دھاگے میں منتقل کرنے اور پھر کپڑا بنانے کے عمل کو اس میں شامل کریں تو ویلیو ایڈیشن کے ساتھ یہ رقم بلا مبالغہ چھ کھرب روپے جا بنے گی کہ خام مال اور تیار شدہ مال کی قیمت میں فرق ایک اور چار سے بھی کہیں زائد ہے۔ اڑتالیس لاکھ گانٹھ کم پیداوار کا مطلب صرف یہ چھ کھرب روپے نہیں۔ ٹیکسٹائل ملوں کی بندش، کاشتکار کی بربادی، ایکسپورٹ میں کمی، زرمبادلہ میں کمی اور بے روزگاری وغیرہ کے عوامل اس کے علاوہ ہیں۔
کسی کو رتی برابر فکر نہیں۔ جتنا بڑا اور سنگین یہ مسئلہ ہے اس کے مقابلے میں حکمرانوں، سرکاری اداروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے کہ کسی کو اس بات کا حقیقی ادراک ہی نہیں کہ کیا ہو چکا ہے اور اس کے دور رس نتائج ابھی ہماری معیشت، روزگار اور زرمبادلہ پر کتنے منفی اثرات مرتب کریں گے۔ پنجاب کا کاشتکار عموماً اور جنوبی پنجاب کا کاشتکار خصوصاً معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ مسلسل دو سال سے فصلوں کی تباہی اور بربادی نے جہاں اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہیں ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ہے مگر کسی کو یہ بھی فکر نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ جنوبی پنجاب میں کاشتکار کپاس کی کاشت چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اس کا نقصان ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہو گا اور اس کا براہ راست اثر ہماری ملکی معیشت، روزگار، صنعت اور زرمبادلہ پر بھی پڑے گا۔ فی الحال تو ٹیکسٹائل انڈسٹری، روئی درآمد کر کے اپنا کام چلا لے گی مگر عالمی منڈی میں روئی کی قیمتوں میں تیزی ہوئی تو یہ انڈسٹری جو پہلے ہی مہنگی اور ضرورت سے آدھی بجلی ملنے کے باعث آہستہ آہستہ بند ہوتی جا رہی ہے ملکی کپاس نہ ہونے کی صورت میں بالکل ہی برباد ہو جائے گی۔
حکمران، اپٹما اور دیگر سرکاری ادارے خواب خرگوش میں ہیں، پیپلز پارٹی کو ڈاکٹر عاصم کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں اور عمران خان ابھی تک دھاندلی کے ''کھوبے‘‘ میں پھنسا ہوا ہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں کہرام مچا ہوتا، ایمرجنسی کی صورتحال ہوتی مگر ہم مزے میں ہیں اور گزشتہ چھ دن سے مودی کے دو گھنٹے کے دورے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اسحاق ڈار چار چھ کروڑ ڈالر کا قرض اٹھا کر خوشی سے چھلانگیں مار رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved