تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-01-2016

کاک ٹیل کالم

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بالآخر آج ممولے کی زیارت بھی ہو گئی جس کا کافی دیر سے انتظار تھا۔ اس میں اصل خبر یہ ہے کہ اب کے ممولا اکیلا نہیں بلکہ دونوں ''جی‘‘ آئے تھے۔ شیشہ لگی کھڑی سے انہوں نے اپنا دیدار کرایا‘ اگرچہ اسے کھڑکی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کھڑکی کے تو پٹ ہوتے ہیں اور وہ کُھل اور بند بھی ہو سکتی ہے جبکہ یہ تو 8x8 فٹ پیمائش کا شیشہ ہے جس سے باہر کا نظارہ کر رہا ہوں یعنی آدھا کمرے کے اندر ہوں اور آدھا باہر‘ اندر کا لطف بھی لے رہا ہوں اور باہر کا بھی۔
ممولے میاں جہاں جہاں بھی آوارہ خرامی کرتے رہے ہوں‘ ایک دن انہیں گھر آنا ہی تھا کیونکہ ہم مرد لوگوں کی صورت حال بھی یہی ہے جو اس تازہ شعر میں بیان کی گئی ہے کہ ؎
کسی کے دشت میں جتنی بھی خاک اُڑا لیں ہم
یہ جانتے ہیں کہ آخر تو گھر ہی جانا ہے
اور‘ ممولے کی مجبوری تو یہ بھی ہے کہ ممولی سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ذرا کام سے جا رہا ہوں۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بیوی سے کسی طور جان چھڑا لی ہو اور اپنی کسی دوست کے ہمراہ ہی مٹر گشت کرتے پھرتے ہوں‘ واللہ اعلم بالصواب۔
پنجابی کلچرل انسٹی ٹیوٹ میں اگلے روز میر میلہ منایا گیا جس کا اہتمام علی ارشد میر فائونڈیشن نے کر رکھا تھا۔ اطلاع اور خواہش کے باوجود جا نہیں سکا جس کا افسوس رہے گا۔ پروفیسر علی ارشد میر پنجابی کے ایک نہایت عمدہ شاعر تھے جبکہ موجودہ عہد میں اس زبان کا جینوئن شاعر خال خال ہی ملتا ہے۔ مثلاً جن دو چار ایسے حضرات کو میں جانتا ہوں ان میں نجم حسین سیدّ‘ افضل احسن رندھاوا‘ مشتاق صوفی‘ سلیم شہزاد‘ افضل راجپوت اور انجم قریشی شامل ہیں۔ علی ارشد میر کے ساتھ ملاقاتیں تب رہیں جب وہ میرے سُسرالی شہر دیپالپور میں گورنمنٹ کالج میں استاد تھے۔ مکمل طور پر درویش اور بیحد مختصر آدمی۔ ان کی فرمائش پر میں نے انہیں اپنا پنجابی شعری مجموعہ ''ہرے ہنیرے‘‘ پیش کیا۔ اگر ان کا کلام کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہو تو فائونڈیشن والوں سے درخواست ہے کہ اس کا ایک نسخہ مجھے 68۔بی۔ جی او آر تھری‘ شادمان میں ارسال کر کے ممنون ہونے کا موقعہ دیں۔
ماہنامہ ''تخلیق‘‘ لاہور کے تازہ شمارے سے معلوم ہُوا ہے کہ ڈاکٹر انور سدید‘ ڈاکٹر ابدال بیلا‘ ڈاکٹر کیول دھیر‘ پروفیسر جمیل آذر اور میجر (ر) غلام نبی اعوان بیمار ہیں۔ اس کے علاوہ نسرین انجم بھٹی ہسپتال سے تو گھر شفٹ ہو گئی ہیں لیکن مسائل کا شکار ہیں‘ نیز سمیع آہوجا اور غالب احمد کافی عرصے سے علیل ہیں۔ اُدھر کراچی میں حضرت مشتاق احمد یوسفی صاحب فراش ہیں‘ سلیم کوثر تو بولنے میں بھی سمیع آہوجا کی طرح دقت محسوس کرتے ہیں اور احمد صغیر صدیقی ہرنیا کا آپریشن کروائے بیٹھے بلکہ پڑے ہیں۔ ان سب کے لیے جلد از جلد تندرستی کی دُعا۔
کوئٹہ سے کسی قاسم صاحب کا فون آیا ہے کہ اُن کے ایک دوست الٰہی جان جگرائوں والی‘ ایک مغنّیہ پر ریسرچ کر رہے ہیں جو سن ستر کی دہائی میں اوکاڑہ میں رہائش رکھتی تھیں اور اُن کا انتقال بھی غالباً اوکاڑہ ہی میں ہوا جبکہ وہ لاہور میں بھی قیام پذیر رہی ہیں۔ میں تو اس سلسلے میں قطعاً لاعلم ہوں اس لیے اُن کی کوئی مدد نہیں کر سکا‘ البتہ اوکاڑہ میں سینئر صحافی اور اپنے دیرینہ دوست منیر چودھری سے درخواست کی ہے کہ اگر ہو سکے تو اس خاتون کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اطلاع دیں۔ اگر قارئین میں سے بھی کوئی اس ضمن میں تعاون کر سکتا ہو تو موبائل نمبر 0333-4374597 پر اطلاع دیں تاکہ قاسم صاحب کی یہ فرمائش پوری کی جا سکے۔
چونکہ باہر تو کہیں آتا جاتا نہیں ہوں اس لیے فالتو وقت میں فلموں سے دل بہلایا کرتا ہوں جن میں بھارتی فلمیں بھی شامل ہیں جن میں فائٹ کے مناظر بطور خاص تفریح کا باعث ہوتے ہیں۔ ہیرو اکیلا اپنے بیسیوں حریفوں کی پٹائی کرتا ہے اور انہیں لہولہان کر دیتا ہے لیکن خود اُسے کوئی خراش تک نہیں آتی۔ یہاں تک بھی قابل قبول ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ جب اپنے سے دُگنے دُگنے دشمنوں کو مُکہ مارتا ہے تو وہ چار چار لُڑھکنیاں کھاتے ہوئے پچاس پچاس فٹ دور جا گرتے ہیں۔البتہ کرداروں کی ایک بات اچھی لگی جو وہ تعظیم کے لیے ہاتھ جوڑتے اور پائوں چُھوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے جذبات کا اظہار کرنے کا ایسا کوئی خاص طریقہ موجود نہیں ہے۔ 
اُوپر بیماروں کا ذکر آیا ہے تو ایک بیمار کا تذکرہ رہا جا رہا ہے یعنی ملتان میں شاعرہ رفعت ناہید کا فون چار پانچ روز بند رہا اور جب کُھلا تو معلوم ہوا کہ موصوفہ شدید بخار میں مبتلا رہی ہیں۔ بولا تک نہیں جا رہا تھا۔ میں نے کہا جلدی جلدی ٹھیک ہو جائیں ورنہ میں خود وہاں آ جائوں گا۔ چنانچہ اس دھمکی نے کام دکھایا اور اب کافی بہتر ہیں۔ کلام بلاغت نظام کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہے۔ یہ ذکر بھی ہو ہی جائے کہ ملتان ویسے بھی میرے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے ؎
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفر
عشق تھا لاہورئیے کو ایک ملتانی کے ساتھ
اگلے روز آج کا مقطع‘ صحیح نہیں چھپ سکا تھا جس کے دوسرے مصرعے میں لفظ 'یہاں‘ کی بجائے 'جہاں‘ چھپ گیا۔ لہٰذا اُسے اس طرح پڑھا جائے ؎
سکندر نے تو کہتے ہیں ظفر مر کر تہی دستی دکھائی تھی
یہاں لاکھوں کروڑوں زندہ انسانوں کے دونوں ہاتھ خالی ہیں
اب کُچھ ذکر آخری بیمار کا‘ جو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا‘ یعنی کشور ناہید‘ نمونیا ان کے ساتھ دل لگی کرتا رہا۔ ابھی میں نے پریشان ہونا شروع ہی کیا تھا کہ پتا چلا‘ کراچی ادبی کانفرنس میں رونق افروز ہیں! یعنی ؎
شاہ کے ہے غُسل صحت کی خبر
دیکھیے کب دن پھریں حمام کے
آج کا مطلع
الگ الگ اور جدا جدا سے بندھے ہوئے ہیں
چراغ ہیں اور کس ہوا سے بندھے ہوئے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved