تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     01-01-2016

سال کا پہلا دن اور ننھی لڑکی کی خواہش!

ماضی کی دُھند میں کھوئی ہوئی، برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک ننھی لڑکی کے لیے سال کا بدلنا اور نئے سال کا طلوع ہونا بہت بڑا واقعہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے معصوم ذہن میں کچھ ایسا خیال سما جاتا کہ گویا نئے سال کا مطلب یہ ہے اب سب کچھ نیا نیا ہو گا۔ زندگی پرانا چولا اتار پھینکے گی۔ گھر، سکول، سہیلیوں اور کھیل کھلونوں تک سب کچھ اچھوتا اور منفرد ہو گا۔ ایک عجیب سا احساس اس ننھی لڑکی کو گھیرے رہتا ۔پرانے اور نئے سال کی دہلیز پر آنے والی رات ‘وہ جاگتے رہنے کی کوشش کرتی تا کہ نئے سال کا پہلا دن سب سے پہلے دیکھ سکے۔ پہلی جنوری کا یخ بستہ دِن ویسا ہی ہوتا جیسے 31 دسمبر کا تھا۔ جی میں خیال آتا کہ سرما کی چھٹیوں کے بعد سکول کھلیں گے تو وہاں سب کچھ نیا سا ہو گا۔ ہوم ورک کی کاپیوں پر نئی تاریخ لکھا کریں گے۔ مگر پھر سکول کھلنے پر بھی وہی سب کچھ پرانا دیکھنے کو ملتا۔ لیکن اس کے باوجود نئے سال کا تاثر ذہن پر اتنا گہرا ہوتا کہ یوں لگتا جیسے سال کے ہندسے بدلنے کے ساتھ ہم سب ایک تازگی اور نئے پن کو محسوس کر رہے ہیں۔ زندگی اُس وقت والدین کے چھتنار سائے تلے، گھر اور سکول کے تحفظ بھرے ماحول میں گزر رہی تھی۔ بچپن کے ایسے نرم اور ملائم دنوں پر زندگی کے کھردرے پن کا کوئی شائبہ تک نہ تھا اور نہ یہ خبر کہ زندگی کا تاوان ادا کرنے کے لیے کون کون سے مرحلے طے کرنا ہوتے ہیں۔ جب سمجھ داری کی عمر آئی تو احساس ہوا کہ سال بدلنا تو محض ہندسوں کا 
بدلنا ہے اور بقول فیض ؔ...چند ہندسوں کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں...‘ مگر اس کے باوجود ہر برس جب نیا سال زندگی کی دہلیز پر دستک دیتا ہے تو آج بھی وہی ننھی لڑکی کہیں سے دوبارہ جاگ جاتی ہے اور جی خواہش کرتا ہے کہ کاش جو زندگی میں زنگ آلود، پرانا اور کائی زدہ ہے وہ سب کچھ اُجلا، نیا نکور ہو جائے۔ حقیقت سے دور یہ خواہش شاید ہم سب کے اندر موجود ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں لوگ نئے سال کی آمد پر جشن بھی مناتے ہیں اور نئے عزم، نئے ارادوں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کبھی محض ہندسوں کے بدلنے سے بھی زندگی بدلتی ہے...! مگر پھر بھی ہم ہر برس نئے سال کی آمد پر نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ زندگی کو پلان کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ نیو ایئر ریزولیوشن باقاعدہ تحریر کیے جاتے ہیں اس لیے کہ ہر انسان بنیادی طور پر زندگی میں نئے پن کا متمنی رہتا ہے۔
آج بھی یکم جنوری ہے اورنئے سال کا پہلا دن۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں اور یہ نئے برس کا پہلا سورج کہیں تو ایسے خوش نصیبوں کے آنگن میں طلوع ہوا ہے جن کے لیے زندگی خوشیوں سے بھرپور ہے اور کہیں ایسے خستہ حال مکانوں میں اترا ہے جہاں رہنے والوں کو اس بات کی خبر بھی نہیں کہ ایک اور برس ان کی زندگیوں سے نکل گیا۔ کیونکہ اُن کے لیے زندگی جبر مسلسل کے سوا کچھ اور نہیں۔ ایسے کم نصیبوں کے لیے نئے سال کے عزم، نئے سال کے ارادے اور خواب کچھ حیثیت نہیں رکھتے کہ ان کے لیے صبح سے شام کی جدوجہد محض پیٹ کا ایندھن بھرنے کی کہانی ہے۔ انہیں تو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ملک کا حکمران کون ہے۔ کون سی سیاسی پارٹی حکومت میں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے حکومتوں کی پالیسیوں میں کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوتا جس سے رات کی تلخ زندگی میں سہولت اور آسانی آ سکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تذکرے حکمران اور سیاستدان اپنی تقریروں میں کرتے ہیں۔ غریب عوام کے نام پر ہی ساری سیاست کی جاتی ہے۔ انہی کے نام پر ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ نئے سال اور نئی حکومتوں کے آنے جانے سے ان کی زندگیوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
نئے برس کے ساتھ ہی گزشتہ برس کی یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو پاکستان کے لیے اور پاکستانیوں کے لیے 2015ء ایک ایسا سال ثابت ہوا جس میں سفر کی سمت درست ہو گئی۔ ایک جانب فاٹا اور وزیرستان میں شرپسند عناصر کے خلاف فیصلہ کن جنگ کاآغاز ہوا تو دوسری جانب کراچی میں طاقتور بھتہ خوروں اور امن دشمن عناصر کے خلاف زبردست کارروائی شروع ہوئی۔ کراچی، جو گزشتہ کئی عشروں سے خوف اور بدامنی کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، رفتہ رفتہ امن کی طرف لوٹ رہا ہے۔ آج جو نئے برس کا سورج طلوع ہوا ہے تو کراچی کے عوام کے لیے سکھ چین، امن اور تحفظ کا پیغام لایا ہے کیونکہ کراچی کے عوام اور فوج کسی صورت بحالی امن پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں جو رینجرز کی مدد سے ہو رہا ہے اور جس کی بدولت عشروں سے بد حال اور بد امن شہر میں لوگ پھر سے سکھ کا سانس لینے لگے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نئے برس کی آمد کے ساتھ گزشتہ سال کی یادیں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ سال 2015ء کے آخری دنوں میں 30 دسمبر کو پنجابی اور اردو کی نامور ادیبہ آنٹی افضل توصیف کی پہلی برسی نے دل کو اداس کیے رکھا۔ آنٹی نے جہاں دنیا جہاں کے درد پال رکھے تھے وہیں انہیں ہمہ وقت یہ پریشانی بھی رہتی کہ دانشوروں اور لکھاریوں کی وفات کے بعد ان کی ذاتی لائبریری کی کتابیں لاوارث ہو کر فٹ پاتھوں پر رُلتی رہتی ہیں یا پھر یہ کہ انہیں کسی لائبریری کو عطیہ کر دیا جاتا ہے ‘مگر ان کی اولاد میں سے کوئی بھی کتابوں کو Own نہیں کرتا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ کوشش بھی کی کہ کوئی ایسی لائبریری حکومت پنجاب بنا دے جو لاوارث کتابوں کا گھر بن جائے مگر پھر وہ اپنی بیماری کے باعث مہم کو جاری نہ رکھ سکیں۔ کتاب کی محبت میں تمام عمر گزارنے والی افضل توصیف نے اپنی کتابوں کے حوالے سے خدشے اور گمان کے پیش نظر اپنے افسانوں کے ایک مجموعے کا نام لاوارث رکھا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کی خواہش کو نوید نے محترم جانا اور گھر کی بالائی منزل پر باقاعدہ ایک لائبریری بنوائی۔ یہ لائبریری آنٹی افضل توصیف کی برسی سے چند روز پہلے ہی مکمل ہوئی۔
سو نئے برس میں داخل ہوتے ہوئے ایک اچھا اور نیا احساس یہ بھی ہے کہ اس دورمیں، جب لوگ کتاب سے دور ہو چکے ہیں ہم نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بے سروپا دور میں کتاب کو عزیز رکھا ۔ یہ محبت اب یقینا اگلی نسل تک بھی ضرور منتقل ہو گی۔یخ بستہ سردیاں...گزشتہ سال کی یادیں، نئے سال کا پہلا مہینہ، پرانی کتابوں کا ذخیرہ... اور ان سب خوب صورتیوں کے ساتھ پھر وہی ننھی لڑکی کے دِل کی خواہش؛ کاش زندگی میں جو کچھ پرانا اور زنگ آلود ہے وہ اُجلا اور نیانکور ہو جائے۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved