میں نے بارہا ان کالموں میں وزیراعظم نوازشریف کے بعض جذباتی لمحوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ انتہائی دردمند دل کے مالک ہیں۔ بطور لیڈر ‘ و ہ اکثر غریبوں‘ کمزوروں اور معذوروں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کرتے کہ مجھے اس وقت تسلی ہو گی‘ جب میں ایسے لوگوں کے دکھوں میں شریک ہو سکوں گا۔ پاکستان جیسے ملک میں تمام وسائل مہیا کرنا تو کسی کے بس میں نہیں‘تاہم جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے‘ وہ کر گزرنا چاہیے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی لیڈر پوری طرح بااختیار نہیں ہوتا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی سارے کام نہیں کر سکتا‘ جن کے وہ عزائم رکھتا ہو۔ میاں صاحب نے تو اکثر اوقات ارادے بھی کئے‘ پروگرام بھی بنائے لیکن ہوا وہی‘ جو افسر شاہی نے چاہا۔ یہ تربیت یافتہ لوگ کبھی کسی کام سے انکار نہیں کرتے۔ میاں صاحب کے دور اقتدار کے دس برس قریب سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میاں صاحب چاہے جتنا زور لگا لیں‘ وہ اپنی تمنائیں پوری نہیں کر سکیں گے۔ آج میں نے قومی صحت پروگرام کے بارے میں پڑھا‘ تومجھے وہ لمحات یاد آ گئے‘ جب انہوں نے سرتاج عزیز کو تفصیل سے غریبوں کی ہیلتھ انشورنس سکیم تیار کرنے کے لئے کہا۔ مجھے یاد نہیں ان دنوں سرتاج عزیز کس وزارت کے سربراہ تھے؟ یہ میاں صاحب کا انداز ہے کہ جب بھی کوئی سکیم ان کے ذہن میں آتی ہے‘ تو اچانک کسی مشیر یا کابینہ کے وزیر کو پاس بٹھا کر‘ ہدایات دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس وقت کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ میاں صاحب کو بتا سکے کہ جس سکیم کے بارے میں وہ ہدایات جاری کر رہے ہیں‘ وہ محکمانہ اعتبار سے اس کے دائرئہ اختیار میں نہیں آتی۔ میاں صاحب کا ذہن اس وقت رواں ہوتا ہے اور ان کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ بتا رہے ہیں‘ اس کا لکھ کر محفوظ کرنا مناسب ہے ‘ تاکہ جب وہ طلب کریں‘ تو ان کے بتائے ہوئے نکات کو مرتب کر کے‘ ان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ یہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ میاں صاحب‘ قومی ہیلتھ انشورنس پالیسی کے بارے میں انتہائی پُرجوش تھے اور اپنی سکیم کے نکات بتائے چلے جا رہے تھے۔ اتفاق سے میں بھی وہاں بیٹھا تھا اور ایک تماشائی بھی کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ سرتاج صاحب اپنی طرف سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن میاں صاحب کی روانی ٔطبع دیکھ کر انہوں نے مخل ہونا مناسب نہیں سمجھا۔
اگلے روز میاں صاحب نے سرتاج صاحب کو پھر بلا یا اور سکیم کے بارے میں ان سے تبادلہ ٔخیال شروع کر دیا۔ سرتاج صاحب ‘ ڈیسک ورک کے بادشاہ ہیں۔ وہ غالباً رات کو سوئے بھی نہیں اور صبح تک بیٹھ کر تفصیلی نوٹس تیار کر لئے اور حیران کن انداز میں وہ یہ معلوم کر چکے تھے کہ بجٹ میں دستیاب رقوم اور سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی مدد سے‘ ہیلتھ انشورنس سکیم کو قابل عمل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ میاں صاحب نے سرتاج عزیز صاحب کی سکیم کو غور سے سن کر اپنی جانب سے چند تجاویز شامل کرنے کا حکم دیا اور کہہ دیا کہ اب ہمیں اس سکیم پر عملدرآمد شروع کر دینا چاہیے۔ سرتاج عزیز صاحب نے فوراً حکم کی تعمیل پر آمادگی ظاہر کر دی۔ میں سمجھا کہ غریبوں کی سنی گئی اور اب انشورنس سکیم کے نفاذ کو نہیں روکا جا سکے گا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ ہیلتھ انشورنس سکیم کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ لیکن ایک بات میں جانتا ہوں‘ جب میاں صاحب کے ذہن میں ایک خیال آجائے‘ تو پھر وہ اسے بھولتے نہیں۔
میرا اندازہ ہے کہ سرتاج عزیز کے بعد یہ سکیم پھر کسی وزیریا مشیر کے پاس گئی ہو گی۔ اس کی فائلیں تیار ہوئی ہوں گی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی‘ اپنی اصل منزل یعنی فائلوں کے پرانے ڈھیر میں جا کر محفوظ ہو گئی ہو گی۔ گزشتہ روز کی سکیم سن کر‘ میں نے سوچا کہ میاں صاحب آخر کار اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے خیال کو زیادہ بہتر طریقے سے پالیسی میں ڈھال کر‘ غریبوں کا ایک بنیادی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سکیم کی جو تفصیلات میڈیا میں آئی ہیں‘ انہیں دیکھ کر صاف اندازہ ہو گیا کہ یہ ہوبہو میاں صاحب کے ذاتی خیالات پر مشتمل ہے۔ خاص طور پہ میاں صاحب کا زور اس بات پر ہوتا تھا کہ غریبوں کے بچوں اور بزرگوں کو بھی علاج معالجے کی وہی سہولیات میسر ہونا چاہئیں‘ جو کہ خوشحال لوگوں کے لئے مخصوص ہیں۔ مثلاً جب وہ سرتاج عزیز کو ہیلتھ انشورنس کا خیال بتا رہے تھے‘ تو بطور خاص اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ہر مستحق مریض کے خاندان کو 3لاکھ روپے سالانہ تک معاونت فراہم کی جائے اور اگر اس رقم کے اندر بھی مریض شفایاب نہ ہو‘ تو اتنی ہی مزید رقم دیگر ذرائع سے فراہم کر دی جائے۔ خصوصاً سرطان‘ شوگر‘ جگر اور دیگر مہلک امراض کا علاج مفت کرایا جا سکے۔ ابتدائی طور پر یہ سکیم 15اضلاع میں شروع کی جائے گی اور جلد ہی اسے چاروں صوبوں میں پھیلا دیا جائے گا۔اس کے بعد میاں صاحب کے مخصوص جملے آ جاتے ہیں کہ یہ سکیم 32 لاکھ خاندانوں سے شروع کی جائے گی اور مستحق خاندانوںکی رجسٹریشن کے لئے ہر طرح کی چھان بین کر کے‘ مستحقین کو کارڈ جاری کر دیئے جائیں گے۔ جتنے خاندانوں کو اس مدت کے لئے منتخب کیا جائے‘ انہیں کسی بھی مرحلے پرعلاج معالجے سے محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سب کو علاج معالجے کی معیاری سہولتوں سے استفادہ کرنے کے مواقع ملیں اور کوئی مریض اخراجات کے باعث‘ علاج کی سہولت سے محروم نہ رہے۔ سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا اور مراعات دی جائیں گی۔اس کے بعد مختلف انتخابی تقریروں کے لئے مواد رکھ دیا گیا ہے۔ بیوروکریٹک مہارتوں اور وسیع المعانی الفاظ کے دلکش انگریزی جملے رکھ دیئے جائیں گے یا رکھ دیئے گئے ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہیلتھ انشورنس پالیسی تمام بیوروکریٹک مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد‘ منظرعام پر آئی ہے۔ اب دیکھیں گے کہ باضابطہ پالیسی کی شکل اختیار کرنے کے بعد‘ میاں صاحب کے اس نادر خیال پر کیا گزرتی ہے؟
جو اندازہ میں کر سکا ہوں‘ اس کے مطابق انشورنس پالیسی کی جزئیات طے کرنے پر کافی وقت لگے گا اور پھر ''مستحقین‘‘ کے انتخاب کا معیار ایسا رکھا جائے گا کہ جس خاندان کا کوئی مریض علاج کا شدید ضرورت مند نظر آئے گا‘ وہ ہسپتال اور دوا تک پہنچتے پہنچتے‘ دنیا کو ہی خدا حافظ کہہ دے گا۔ میاں شہبازشریف انتظامی امور میں خود حصہ لیتے ہیں اور ہر مرحلے پر نگرانی رکھتے ہیں کہ ضرورت مندوں کے کاموں میں کوئی بیوروکریٹک رکاوٹ نہ پڑے۔ اس کے باوجود ان کی ناک کے نیچے ضرورت مندوں کی حق تلفی بے دریغی سے کی جاتی ہے اور شہبازشریف کو خبر تک نہیں ہوتی۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ خود شہبازشریف کے زیرسایہ سرکاری ملازمین کے عمدہ تعلیمی معیار کی روشنی میں ایک بنویلنٹ فنڈ بنایا گیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کے لئے حکومت کی جانب سے تھوڑا بہت مالی حصہ ڈالا جائے گا۔ لیکن بیوروکریسی کے مزاج کو سمجھتے ہوئے میں آسانی سے قیاس آرائی کر سکتا ہوں کہ شہبازشریف کے خیال کے مطابق ملازمین کے لئے کسی قسم کی امداد نہیں رکھی گئی ہو گی۔بنویلنٹ فنڈ کا قیام سرکاری ملازمین کی اپنی تنخواہوں سے عمل میں لایا گیا۔ لیکن فنڈ کا فائدہ صرف ان بچوں کو حاصل ہو گا‘ جو امتحانات میں اعلیٰ نمبر اور پوزیشن حاصل کریں گے۔ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ جو طلبہ بنویلنٹ فنڈ سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں‘ انہیں 17ہزار سے 50ہزارتک کی رقم حوصلہ افزائی کے لئے دی جاتی ہے۔ یہ لطیفہ بطور خاص شہبازشریف کے لئے لکھ رہا ہوں کہ بنویلنٹ فنڈ ہر بچے کے والدین کی تنخواہ سے کاٹ کر پیشگی فنڈ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ جن ملازمین کے بچے اچھی پوزیشن یا نمبر لے کر تھوڑی بہت رقم حاصل کرتے ہیں‘ وہ بھی درحقیقت انہی کے والدین کی کمائی ہوتی ہے اور جن ملازمین کے بچے کوئی پوزیشن حاصل نہیں کرتے‘ ان کی تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم حکومت خود ہضم کر جاتی ہے۔ جس اللہ کے بندے نے بھی سرکاری ملازمین کی بھلائی
سوچی ہو گی‘ اسے شاید یہ سمجھ ہی نہ ہو کہ بھلائی کے نام پر بھی بے گناہ ملازمین کو مسلسل جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ انعامی رقم چند بچے لیتے ہیں اور باقی ساری رقم پتہ نہیں کہاں جاتی ہے؟میاں صاحب کی نیک نیتی اپنی جگہ‘ مجھے صحت پالیسی کے انجام کی فکر ہے۔ فنڈ تو بہرحال جمع ہو جائے گا۔ لیکن ہسپتالوں‘ ڈاکٹروں اور مجاز افسروں کے مابین اس کا حصہ پتی کیسے ہو گا؟ سرکاری ملازمین کی حق حلال کی تنخواہ‘ ان کے بچوں کے نام پر کاٹی جاتی ہے اور جن والدین کے بچے اضافی نمبر نہیں لے پاتے‘ ان کے والدین کی تنخواہوں سے وضع کردہ رقم وہیں جاتی ہے‘ جہاں عوامی فلاح و بہبود کے فنڈز اپنے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔پاکستانی بیوروکریسی کی ہنرمندی یہ ہے کہ حکمران کتنے ہی نیک دل اور مخلص ہوں۔ مگر غریبی‘ معذوری‘ بیماری اور کسی بھی شدید انسانی ضرورت کے تحت مخصوص کئے گئے فنڈزاصل مقام تک نہیں پہنچتے۔جس طرح میں یہ پتہ نہیں کر سکا کہ اپنی تنخواہوں سے بنویلنٹ فنڈمیںحق حلال کی کمائی جمع کرانے والے والدین کی وہ رقم کہاں جاتی ہے؟ جو انہوں نے بچوں کے لئے جمع کرائی تھی۔ افسر شاہی کی ہنرمندی میں ایک اور کارستانی یہ ہے کہ گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین کے بچے کوئی پوزیشن لے جائیں تو انہیں فوراً انعامی رقم وصول ہو جاتی ہے اور گریڈ 17 سے نیچے کے ملازمین کے بچے جو پوزیشن مرضی حاصل کر لیں‘ ان کے والدین کی فنڈ میں جمع کرائی ہوئی رقم پتہ نہیں کہاں جاتی ہے؟ ملازمین کی تو پھر کہیں شنوائی ہو سکتی ہے۔ لیکن پیسے پیسے کو ترسے ہوئے غریبوں کے نام پر رکھا گیا کروڑوں کا فنڈ‘ مستحقین تک کون پہنچائے گا؟یہی وہ مسئلہ ہے جس کا حل نہ شہبازشریف کے پاس ہے اور نہ نوازشریف کے پاس۔اقتدار کسی کے پاس بھی ہو‘ یہ اس کے پاس نہیں ہوتا‘ جو ووٹ لے کر آتا ہے۔ اب تو وزارت خزانہ کی کنجی بھی اسحق ڈار کے پاس ہے۔ کیا مجال ہے کہ غریبوں کے لئے رکھی گئی رقوم میں سے ایک پیسہ بھی حقداروں تک پہنچے۔ہو ہی نہیں سکتا۔صرف یہ ہو سکتا ہے کہ عوام کے لئے فلاحی فنڈز کی آئوٹ سورسنگ کر دی جائے۔ پنجاب کی حد تک میں تجویز کر سکتا ہوں کہ صحت پالیسی کے فنڈزاس ہسپتال کی انتظامیہ کے سپرد کر دیئے جائیں جہاں میاں صاحبان اپنی تنخواہیں بطور عطیہ جمع کراتے ہیں اور ضرورت مندوں کے لئے مختص رقوم ڈاکٹر امجد ثاقب یا ان جیسی کسی نیک نام شخصیت کے توسط سے حقداروں تک پہنچائی جائیں۔