تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     02-01-2016

پجارو پارٹی

ایسا لگتا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک نئی سیاسی جماعت بناتے ہوئے پاکستانیوں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کردیا ،گویا ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اورالحمدﷲ، یہ تشنگی دور ہوئی۔ اُن کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے میں نہایت ادب کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ نعرہ ۔۔۔۔ ''پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی زندہ باد‘‘۔۔۔ طویل ، مشکل اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے عوام کی زبانوں پر نہیں چڑھے گا، لہٰذا اس کا کچھ ''تدارک‘‘ کیا جائے۔ پارٹی دفاتر ، اگر ایسی کوئی چیز بن پائی، میں پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے والوں کے رش وغیرہ کی زحمت البتہ نہیں ہوگی کیونکہ چوہدری صاحب اس زریں اصول کو دوٹوک اور حتمی انداز میں طے کرچکے ہیں کہ صرف ایماندار افراد کو ہی قبول کیا جائے گا۔ صدآفریں، لیکن خدشہ ہے کہ اُن کے اپنے صاحبزادے ، ارسلان چوہدری بھی اس اصول پر پورا نہ اترتے ہوئے PJDCP کی رکنیت سے محروم ہوجائیںگے۔ 
چنانچہ لانچ ہوتے ہی یہ جماعت پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں سے اس حوالے سے سبقت لے گئی کہ اس نے موروثی سیاست کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔ ہاں ، جب کبھی انتخابی دنگل میں اترنا پڑا تو ہوسکتا ہے کہ افتخار چوہدری صاحب کو اصولوں میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے عمران خان کی طرح کچھ قابل ِ انتخاب افراد،''الیکٹ ایبل‘‘ زہر مار کرنے پڑیں۔ 
تنقیدی نظروں سے دیکھیں توذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ سابق چیف جسٹس ، جن کی بحالی پر بعض حلقوں کو تحفظات تھے، نے ایک اور نئی سیاسی جماعت بنا کر پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں اتارنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ، حالانکہ اکھاڑے میں تو پہلے ہی تل دھرنے (پلیز، یہ دھرنا وہ نہیں ہے) کی جگہ نہ تھی۔ درحقیقت وہ بھی اُن پاکستانیوں میں شامل ہیں جو ریٹائر ہونے سے پہلے اپنے کیرئیر کی انتہائی بلندیوں کو چھو چکے ہوتے ہیں۔ چونکہ دنیا کے ہمارے حصے میں افسری کے ساتھ انانیت کا پروان چڑھنا لازمی ہوتا ہے، اور یہ کمبخت (انا) ریٹائر ہونے کے بعد بھی نہیں مرتی، بلکہ چنچل حسینہ کی طرح پہلو بدل کر قوم کی خدمت کا روپ دھار لیتی ہے۔ چونکہ یہ افسران ملک کی مستحکم سیاسی جماعتوں میں نچلی صفوںسے سیاسی سفر شروع کرنے میں اپنی انا (یعنی قومی خدمت کے جذبے) کو مانع پاتے ہیں، اس لیے وہ نئی سیاسی جماعت بنا کر اس کا قائد، کارکن، عوام، سب کچھ خود ہی بن جاتے ہیں۔ اس صف میں حالیہ برسوں میں پرویز مشرف، عمران خان، افتخار چوہدری اور ڈاکٹر اے کیو خان کو شامل کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی تحریک ِ تحفظ پاکستان ایک مختصر معاملہ ثابت ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نادیدہ ہاتھ، جو ان مشروم پارٹیوں پر فکری اور فنی سرمایہ کاری کرتا ہے، نے سوچا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کے سیاست میں ''اِن‘‘ رہنے سے 
دنیا کو پاکستان کے ایٹمی پھیلائو کے مسائل کی یاددہانی ہوتی رہے گی، اور یہ آ بیل ،مجھے مار والی بات ہوگی۔ چنانچہ پھر ڈاکٹر صاحب نماز اور وضو کے درست طریقوں اور اہمیت پر نہایت متاثر کن کالم لکھتے پائے گئے۔ 
عمران خان نے چکاچوند عوامی مقبولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی سال تک سیاسی صحرا میں دشت نوردی کی۔ تاہم یہ بات مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ تسلیم کہ بقول شخصے اُن کے سوشل میڈیا پر لاکھوں، چلیں کروڑوں مداح تھے، لیکن جب موصوف پاکستان آئے تو پتہ چلا کہ فیس بک فرینڈز سیاسی میدان میں ساتھ نہیں دیتے، اور انتخابی حلقے میں تو نظر بھی نہیں آتے۔ افتخار چوہدری صاحب کو ایک اور سہولت حاصل ہے۔ اُن پر عوامی مقبولیت اور کشش کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ چندسال پہلے جب چوہدری صاحب کو جنرل پرویز مشرف نے عہدے سے معزول کردیا تھا اور اُن کی مقبولیت کے ہمارے ہاں ڈنکے بج رہے تھے اور مختلف بار ایسوسی ایشنز اُنہیں بلا کر اُن کے پرُ مغز خطاب سے مستفید ہورہی تھیں تو ان دنوں کی ہی بات ہے جب موصوف کو نیویارک بار ایسوسی ایشن نے خطاب کی دعوت دی۔ نیویارک سپریم کورٹ کے جج صاحب، جن سے میری دوستی بھی ہے، سے چیف صاحب کے خطاب کے حوالے سے بات کی اُنھوں نے بتایا کہ آپ کے چیف جسٹس قوت ِ اظہار کی افسوس ناک صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ لکھی ہوئی تقریر کے علاوہ کچھ بھی انگریزی میں سمجھانے یا سوالات کو سمجھنے کے قابل نہ تھے۔ 
اپنے طویل عہد کے دوران جسٹس چوہدری کا رویہ رعونت کی غمازی کرتا تھا۔ وہ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی بے عزتی کرتے ہوئے خصوصی طمانیت محسوس کرتے۔ اگرچہ اُن کے کچھ سوموٹو نوٹسز کا عوام کو فائدہ بھی ہوا لیکن اکثر مواقع پر ایسا تاثر ملا جیسے وہ نوخیز جمہوریت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سٹیل ملزکراچی کی نج کاری روکتے ہوئے اُنھوں نے پاکستانی ٹیکس دہندگان پر اربوں کا بوجھ لاد رکھا ہے کیونکہ حکومت کو انتہائی خسارے میں چلنے والی مل کو متواتر بھاری سبسڈی دینی پڑتی ہے۔ اس فیصلے کے دیگر مضمرات بھی بہت بھیانک تھے۔ اس کی وجہ سے اب بہت کم غیر ملکی اس طرف آنے کو تیار ہیں کیونکہ یہاں انہیں نفرت اور جانبداری کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چونکہ اُنھوں نے برس ہا برس تک سیاست دانوں کو لتاڑنے کا وتیرہ بنائے رکھا تھا، اس لیے اب PJDCP کو پی ایم ایل (ن) کے سوا کوئی جماعت بھی اپنے ساتھ کسی اتحاد میں شامل نہیں کرے گی۔ پی ایم ایل (ن) جسٹس چوہدری کی فطری اتحادی بن سکتی ہے کیونکہ ناقدین کہتے ہیں کہ اسے جوڈیشل سسٹم سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ 
پرویز مشرف، عمران خان اور افتخار چوہدری جیسے افراد شاید یہ سوچتے ہیں کہ جو طاقت اُن کے عہدے کے دوران اُن کے پاس تھی، شاید وہ منصب سے ہٹنے کے بعد بھی اُن کے پاس رہے گی ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اُنہیں حاصل طاقت دراصل اُن اداروں کی تھی جن کی سربراہی اُن کے پاس تھی۔ اس حقیقت کی تفہیم بہت مشکل نہیں لیکن رعونت ہر قسم کی فہم کا راستہ بہت آسانی سے روک لیتی ہے ۔ تاہم امید کی جانی چاہیے کہ سیاست میں قدم رکھتے ہی چوہدری صاحب پر یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی۔ درحقیقت سیاست کی کھردری اور ناہموار راہیں عدلیہ کے پرسکون چیمبر اور صاف ستھری میز سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں سیاست دان چوہدری کو لوگ اُس طرح مودب نہیں دکھائی دیں گے جیسے وہ جسٹس چوہدری صاحب کے سامنے ہوتے تھے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب ایسی غیر اہم پارٹیوں کو تانگہ پارٹی کہا جاتا تھا۔ تاہم ترقی کے اس دور میں انہیں پجارو پارٹی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved