بد قسمتی سے تقریبا ًگزشتہ پچیس سال سے ہم بحیثیت ِ قوم پرائی جنگ کو گود لینے کا شِعار اختیار کیے ہوئے ہیں اور مسلسل اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں۔ ہماری قوم کے کتنے افراد کا خون پیوندِ خاک ہوا؟،اس کے صحیح اعداد و شمار کسی کے پاس نہیں ، پچاس ہزار سے 75ہزار تک کے تخمینے لگائے جاتے رہے ہیں ۔ اسی طرح اقتصادی ڈھانچے اور دیگر مالی نقصانات کے صحیح اور قطعی اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہیں ۔اس سے ہمارے سماجی بُنت اور ڈھانچے میں جو شکست وریخت ہوئی، وہ اس سے سوا ہے ۔ ہماری حیثیت انگریزی کے محاورے Taken For Grantedکی سی ہو گئی ہے ، یعنی ہم ایک ایسی قوم یا افراد کا مجموعہ بن گئے ہیں جو ہر وقت ہر خدمت کے لیے دستیاب ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے فاتح بن کر نکلے اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR)دنیا کے نقشے سے مٹ گیا اور ''ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ، رنگ چوکھا آئے ‘‘ کے مصداق امریکہ نے دنیا کی وحدانی قوتِ عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجالیا۔ 2002ء میں امریکہ دوبارہ اپنے اتحادیوں کی جلو میں افغانستان میں وارد ہوا اور بالآخر اپنے مقاصد میں ناکام ہو کر بوریابستر سمیٹ رہا ہے ، لیکن اس جنگ کا سارا ملبہ بھی پاکستان کے سر ڈالا جا رہا ہے اور اب یہ جنگ ہماری اپنی جنگ قرار پا رہی ہے ۔
امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ چودہ سال تک اپنی بھاری فوجی قوت ، سب سے زیادہ مؤثر اور حساس سامانِ حرب و ضرب اور سیٹیلائٹ کیمروں کے ذریعے چار سینٹی میٹر کی چیز پر بھی نظر رکھنے کے دعوے کے باوجود اپنے مقاصد میں ناکام رہا اور اس پورے عرصے میں پاکستان کو طعن و تشنیع اور ملامت کا ہدف بنائے رکھا اور یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں سے حقانی نیٹ ورک ،تمام دہشت گرد گروپوں اور جہادیوں کا قلع قمع کرے۔اس پورے عرصے میں پاکستان الزامات در الزامات کے جواب میں دفاعی پوزیشن میں رہا ۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور افغانستان نے خود اپنی سرحدوں کو محفوظ (Seal)کیوں نہ کیا ، جبکہ وہ بے حساب افرادی اور مالی وسائل کیساتھ وہاں موجود تھا ۔ پاکستان کو تو حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے مسلسل الزامات کا ہدف بنایا جاتا رہا ، لیکن ملا فضل اللہ گروپ نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں جو قتل و غارت کا بازار گرم کیے رکھا ، امریکہ، اس کے اتحادیوں اور کابل کی سابق و موجودہ حکومت نے اس کی ذمے داری نہ کبھی قبول کی اور نہ ہی کبھی اس پر شرم ساری اور ندامت کا اظہار کیا ۔ گویا ہم مار کھائیں تو بھی ہم مجرم اور دوسرا اپنے حریف سے مار کھائے تو بھی جرم ہمارا قرار پائے، یہ اس عہد ِ جفا کے عدل کے عجیب پیمانے ہیں ، جس کا ہم لگ بھگ پچیس سال سے شکار ہیں اور نہ جانے یہ کیفیت کب تک ہم پر مسلط رہے گی۔
ہماری قومی اسمبلی نے یمن کے مسئلے پر ایک ذمے دارنہ قرارداد پاس کی اور حکومت کو اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں اپنی افواج کو جنگ کا ایندھن بنانے سے روکا اور یہ بھی واضح اعلان کیا کہ اگر سعودی عرب یا مقاماتِ مقدسہ پر حملہ ہوا تو اسے پاکستان پرحملہ تصور کیا جائے گا اور پاکستان اپنی پوری دفاعی قوت کے ساتھ حرمینِ طیبین اور سعودی عرب کا دفاع کرے گا ۔ سعودی عرب کو اس پر پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا ، لیکن اس کی طرف سے سرد مہری کا ردِ عمل آیا دبئی میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر سنگھ مودی کے لیے ایک بہت بڑے جلسۂ عام کا اہتمام ہوا ، پھر بھی مودی نے یہ یقین دہانی نہیں کرائی کہ وہ اپنی افواج کوخلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی جنگ کے لیے بھیجے گا ۔ لیکن اس کے باوجود اس کی پذیرائی کا واحد مقصد پاکستان کو اپنا ردِ عمل دکھانا تھا ، سومودی کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ بیک وقت سعودی عرب ، ایران اور امارات کا محبوب ہے۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اس پر بھی پاکستان میں احتجاجی ریلیاں نکلتیں ، لیکن تمام احتجاجی عناصر کو سانپ سونگھ گیا ۔
اب سعودی عرب نے چونتیس ممالک پر مشتمل ایک جنگی اتحاد کا اعلان کیا ہے اور اس میں پاکستان کی شمولیت کا بھی از خود وہیں سے اعلان کردیا۔ ہماری وزارتِ خارجہ نے پہلے اس سے لا علمی کا اظہار کیا اور پھر اس اتحاد کو خوش آمدید کہا ۔ لیکن یہ بھی بیان دیا کہ اس کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں یا ابھی تفصیلات کا طے ہونا باقی ہے، گویا شمولیت پہلے ہو گئی اور مقصدِ شمولیت سے آگہی بعد میں حاصل کی جائے گی،فیا للعجب !۔ چنانچہ سینٹ آف پاکستان میں ہمارے مشیرِ امورِ خارجہ نے جو بیان دیا وہ حیرتوں کا مجموعہ تھا اور چیئرمین سینٹ نے ان کی بے خبری پر تاسُّف اور حیرت کا اظہار کیا۔ پس معلوم ہوا کہ ہماری سیاسی قیادت جو ملک کے اندر اور باہر ہمارے قومی مفادات کی محافظ اور امین ہے ، اس کی بے خبری جنابِ محشر رسول نگری کے اس شعر کی ہو بہو تصویر ہے :
خبر ے تَحَیُّرِ عشق سن ، نہ تو جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
اس اتحاد کے اعلان میں ایک بہت بڑا خطرہ مضمر ہے، کیونکہ واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ یہ ''سنی دفاعی اتحاد‘‘ ہے اور اس میں شیعہ ممالک کو شامل نہیں کیا جائے گا ۔ خواہ پسِ پردہ مقاصد اور عزائم کچھ بھی ہوتے اور نیتوں کا کھوج لگانے والے یقینا اشارات و کنایات کو بھی سمجھ لیتے ، لیکن برملا یہ اعلان کرنا امت کے مابین ایک نئی تقسیم اور عداوت کو عالَمی منظر پر آشکارا کرنا ہے ، یہ امرخاص طور پر پاکستان کے لیے خطرات کا حامل ہے ، کیونکہ ایران ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے ، افغانستان کے ساتھ بے اعتمادی پہلے سے موجود ہے ،بعض خلیجی ریاستیںگوادر چائنا اقتصادی شاہراہ کے سبب ویسے ہی ناراض ہیں، تو کیا ہم چہار سو اس طرح کی بے تدبیریوں کے متحمل ہو سکتے ہیںاور ان کے منفی نتائج اور مابعد اثرات یا After Shocksکے لیے تیار ہیں ؟۔
ہماری رائے میں اگر اس طرح کا کوئی پروگرام یا اتحاد پائپ لائن میں پہلے سے موجود تھا تو اس کے منظرِ عام پر لانے یا اعلان کرنے سے پہلے پسِ پردہ طویل مشاورت ہونی چاہیے تھی اور اس کے لیے ماہرانہ سفارت کاری پر مبنی سیاسی اصطلاحات (Diplomatic Termenology)کا استعمال ہونا چاہیے تھا ، اسے'' اسلامی امن فوج‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتاتھا اور یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ اس اتحاد میں شمولیت کے لیے دیگر مسلم ممالک کی خواہش یا درخواست کا مثبت انداز میں جائزہ لیا جائے گا اور اس کی شرائط طے کی جائیں گی تاکہ کم از کم ظاہری طور پر تو ا س تاثر کی گنجائش باقی رہتی کہ یہ دفاعی اتحاد مسلکی بنیاد پر نہیں ہے ،بلکہ امت کے اجتماعی اور وسیع تر مفاد میں ہے ۔
اس مجوزہ اتحاد میں دفاعی قوت کے لحاظ سے ترکی ، مصر اور پاکستان قابلِ ذکر ہیں ، باقی ممالک کا اشتراک وزنِ شعر کے لیے اور محض تبرک کے طورپر ہے ، ان کا کوئی مادّی اثر مرتب ہونے والا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممالک دفاعی اعتبار سے افرادی قوت یا جدید سامانِ حرب کا قابلِ ذکر اثاثہ رکھتے ہیں ۔ ترکی شام کا پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے کسی حد تک شام کی جنگ میں ملوث ہو چکا ہے اور روسی جنگی جہاز گرائے جانے کے سبب امریکہ نے اسے نئی مشکلات میں پھنسا دیا ہے اور اب روس کے دباؤ کے سبب امریکہ کے اشارے پر اسے فوجیں واپس بلانی پڑ رہی ہیں ۔ مصر کو سعودی عرب اور قطر الاخوان المسلمون کی حکومت کو گرانے کے انعام کے طور پر آٹھ ارب ڈالر پہلے ہی دے چکے ہیں اور اب اس کے لیے مزید معتد بہ مالی اعانت کا اعلان کیا گیا ہے ، لیکن پاکستان کے لیے ایسی کسی غیر معمولی اعانت کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ ہمارے بہت سے احباب یا سعودی عرب سے قربت رکھنے والی مذہبی تنظیمیں ہماری گزارشات کا برانہ مانیں بلکہ مثبت انداز سے ان پر غور فرمائیں ، کیونکہ ہماری اول و آخر وفا پاکستان سے ہے ۔اور حرمینِ طیبین و سعودی عرب کے دفاع کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی کی قرارداد ریکارڈ پر موجود ہے ۔ ہمیں پرائی جنگوں کو گودلینے کا شِعار ترک کرنا ہو گا اور ایسے معاملات کے تمام مثبت اور منفی پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد قومی اتفاقِ رائے سے پالیسی یا حکمت عملی وضع کرنے کا شِعار اختیار کرنا چاہیے ۔ اقوامِ عالم کے درمیان بہت سے معاہدات اور معاملات پسِ پردہ بھی طے پاتے ہیں اور انہیں حکمتِ عملی کے تحت پردۂ اخفا میں رکھا جاتا ہے ، نہ کہ برملا اعلان کر کے خطرات کو دعوت دی جاتی ہے۔ ہم نے یہ سطور دینی اور قومی مفاد میں علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق برائے اصلاح و غور و فکر تحریر کی ہیں :
اندازِبیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُترجائے ترے دل میں مری بات
نوٹ :یہ سطور 22دسمبر کی صبح تحریر کی گئی ہیں۔