تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-01-2016

لاہورکی آمنہ اور تنزیلہ

جس ریاست میں مجرموں پر رحم کیا جاتاہے، انصاف میں تاخیر پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں وہاں آمنہ اور تنزیلہ جیسی مائیں بے رحمی سے ماردی جاتی ہیں۔ لاہور کی سندر داس روڈ پر ایک ماں کو لٹیروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ٹی وی چینلزکی بریکنگ نیوز میں بتایا گیا کہ قتل ہونے والی خاتون چند دن بعد بچے کو جنم دینے والی تھی۔ یہ خبر یقینایٹرو بسوں اور میٹرو ٹرین چلانے والے حکمرانوں کے علم میں ہوگی اور انہوں نے اس کا '' نوٹس‘‘ بھی لے لیا ہوگا جو ایک معمول کی کارروائی ہے اور بس! شاید آپ نے سوچا ہو کہ کراچی کی طرح لاہور میں بھی رینجرز کو کیوں نہیں بلایا جاتا۔ آج نہیں تو کل مقتول آمنہ کا بچہ جو دنیائے رنگ و بو میں آنے سے پہلے ہی ماں کی مامتا سے محروم ہوگا ایک دن ضرور کہے گا کہ اگر لاہور میں رینجرز موجود ہوتے تو میری ماں سڑک پر بے رحمی سے قتل نہ کی جاتی۔
چند دن بعد آمنہ کی گود میں ایک پیارا اور نرم وگداز سا پھول کھلنے والا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اس کے وجود میں پرورش پانے والی ننھی منی جان ایک بیٹا ہے۔ اس نے سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اپنے تصورمیں نہ جانے کتنی بار اسے اپنے سینے سے لگا کر بھینچا ہو گا! نہ جانے کتنی بار اس پھول کو چوم چوم کر بے حال ہوئی ہوگی! اس کے لیے گرم کپڑوںکا انتظام کیا ہوگا! میاں بیوی اور ننھیال و ددھیال والوں نے اس کا نام رکھنے پر کتنی بحث کی ہوگی! آمنہ نے اپنے لعل کے لیے نہ جانے کتنے ناموں میں سے سب سے خوبصورت اور دل کو لبھانے والے نام کا انتخاب کیا ہو گا! نہ جانے کتنی بار اپنے آپ کو نئے مہمان کی آمد پر درد زہ برداشت کرنے کے لیے تیار کیا ہوگا! ہو سکتا ہے اس کے دل میںکئی خدشات نے بھی جنم لیا ہو جسے اس کے رشتہ داروں، سہیلیوں اور شوہر نے پیار سے سمجھا کر دور کر دیا ہوگا! الٹرا سائونڈ رپورٹ میں آنے والے مہمان کی شکل و صورت کی اس نے کتنی بلائیں لی ہوںگی! نہ جانے دن میں کتنی بار وہ آنے والی جان سے باتیں کرتے ہوئے چپکے چپکے مسکرائی ہو گی! 
اس شام میاں بیوی نے دوران سفر کتنی احتیاط کی ہوگی، آمنہ کا شوہر یقیناً بہت محتاط ہو کر سفر کر رہا ہوگا۔ لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ سندر داس روڈ پر موت آمنہ کی منتظر ہو گی، وہاں زندگیاں چھیننے والے لٹیرے ان کی راہ تک رہے ہوںگے! آمنہ اور اس کے شوہر کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جب ڈاکوئوں نے انہیں اسلحے کی نوک پر لوٹنے کی کوشش کی تو انہوں نے مزاحمت کی تھی جس پر ڈاکوئوں نے آمنہ پر فائر کھول دیا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس وقت وہی پونجی ہو جو انہوں نے کسی ہسپتال میں بچے کی پیدائش کے اخراجات کے لیے جمع کرانی ہو! انہوں نے ڈاکوئوں کی منت سماجت بھی کی ہوگی اور یہ ہونہیں سکتا کہ ڈاکوئوں کو علم نہ ہوا ہوکہ جس عورت کو انہوں نے پستول کے نشانے پر لے رکھا ہے وہ حاملہ بھی ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں میں اپنی ماں بہنوں کو اس حالت میں لازماً دیکھ رکھا ہوگا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ بھی کبھی اسی طرح اپنی ماں کے بڑھے ہوئے پیٹ میں دنیا میں 
آنے کے منتظر تھے۔ ان لٹیروں کی مائوںکو اگر علم ہو جاتا کہ ان کی کوکھ میں پرورش پانے والے بچے دنیا میں آ کر مائوںکے پیٹوں میں پرورش پانے والی ننھی منی روحوں سے ان کی مائوں کو چھینیں گے تو وہ انہیں جنم ہی نہ دیتیں۔
آمنہ کا لعل ایک دن ہم سب سے ضرور پوچھے گا کہ اس کا قصور کیا تھا کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کی ماں کو ختم کر دیا گیا؟ آمنہ کی روح ہمیشہ سوال کرتی رہے گی اس نے کیا قصورکیا تھا؟ آمنہ کا لعل کس کی بھینٹ چڑھ گیا؟ لالچ، لاقانونیت، اپاہج معاشرے اور معذور نظام کی یا حکمرانوں کی''گڈ گورننس‘‘ کی ؟ آمنہ شاید بھول گئی تھی کہ بچوں کو جنم دینے والی مائوں کو کسی سڑک پر قتل کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ آمنہ کی جنت الفردوس میں لاہورکی تنزیلہ سے ملاقات ہوگی تو اسے پتا چلے گا کہ اس کی کوکھ میں بھی ایک ننھی روح پرورش پا رہی تھی جسے چند دنوں بعد دنیا میں آنا تھا، اسے بھی گولیوں کی بو چھاڑ نے چاٹ لیا تھا! تنزیلہ لازماً آمنہ سے کہے گی کہ اگر اسے اور اس کے آنے والے بچے کے قاتلوں کوانجام تک پہنچا دیا گیا ہوتا تو اس کا لعل عمر بھر ماں کی ممتا کو نہ ترستا رہتا۔
آمنہ کے لعل کو اب کون بتائے کہ یہ کسی ایک گھر کا نوحہ نہیں بلکہ معمول بن چکا ہے۔ شہری شادی بیاہ میں شرکت کے لیے نکلیں تو انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے۔ کیا کیا جائے کہ ملک کی حالت زین کی ماں جیسی ہو چکی ہے جس نے اعلیٰ عدالت کے سامنے کہا تھا کہ ہم اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ نہ تو اپنے خلاف ہونے والے جرم کی پولیس اسٹیشن رپورٹ لکھوانے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی عدالت میں جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ رپورٹ لکھوانے کے بعد یا تو مجرموں کی جانب سے گھر کے کسی نہ کسی فرد کو اٹھا لیا جاتا ہے یا عدالتوں میں مجرم کے وکیل کے ہتھکنڈوں سے گواہی دینے والی شخصیت کو اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ روز روز کے چکروں سے نڈھال ہو کر توبہ کر لیتا ہے۔ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے، جہاں انصاف میں تاخیر پر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں وہاں تنزیلہ اور آمنہ جیسی مائوں کو انصاف کہاں سے ملے گا؟ ان سے جو انصاف کو اپنے پائوں تلے رگڑتے ہیں یا ان سے جو کراچی جیسے شہر کو ایک سال کے اندر امن کا گہوارہ بنا چکے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved