پاکستانی ریاست کے سربراہ جب گورنر جنرل کہلاتے تھے، تب بھی اور جب صدر بنا ڈالے گئے تب بھی اپنی ایک دنیا رکھتے تھے (اور شاید اب بھی رکھتے ہوں)۔ دوسری کئی ریاستوں کے برعکس یہاں وزیر اعظم سے ان کی یا وزیر اعظم کی ان سے ٹھنی رہی ہے۔ اکثر دونوں ایک دوسرے کے درپے رہے ہیں اور جب بھی کسی ایک کو موقع ملا ہے‘ اس نے دوسرے کا ٹینٹوا دبا دیا ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے یہاں برطانوی پارلیمانی نظام کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا کہ ان کی سیاسی تربیت اسی میں ہوئی تھی۔ غلام ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت قائم تھی اور اس ہی کے نظام کی ایک جھلک یہاں برپا کر دی گئی تھی۔ ہمارے سیاسی رہنما برطانوی سیاست کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور اسے ہی ملجا و ماویٰ سمجھتے تھے۔ آزادی کے بعد بھارت نے اسے سر کا تاج بنایا تو پاکستان نے گلے کا طوق بنا لیا۔ بھارتی نیتائوں نے پہلے گورنر جنرل کے طور پر لارڈ مائونٹ بیٹن سے استفادے کا فیصلہ کیا جبکہ پاکستانی قیادت نے انہیں اس عزت کا مستحق نہ سمجھتے ہوئے اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ بھی اٹھا لیا۔
محمد علی جناح پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے تو وہ صرف محمد علی جناح نہیں بلکہ قائد اعظم بھی تھے۔ (بعدازاں) دستور ساز اسمبلی نے باقاعدہ قرارداد منظور کرکے یہ اعلان کر دیا کہ انہیں سرکاری طور پر قائد اعظم کہا‘ لکھا اور بولا جائے گا۔ 1935ء کا جو ایکٹ دستور کے طور پر ہندوستان میں نافذ تھا، اسے ہی 1947ء میں نام بدل کر دونوں نئی مملکتوں نے اپنا عبوری آئین بنا لیا۔ آزادی کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات، مسائل اور الجھنوں کو رفع کرنے کے لئے گورنر جنرل کے اختیارات میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اس لئے جب برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہ منصب اختیارات سے مالامال تھا۔ نئی دہلی میں لارڈ مائونٹ بیٹن گورنر جنرل تھے اور تحریک آزادی کے مرکزی رہنما پنڈت جواہر لال نہرو وزیر
اعظم، دونوں اپنے اپنے منصب پر قائم رہے اور نظام حکومت جوں کا توں چلتا رہا۔ مائونٹ بیٹن کو اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی، پنڈت نہرو نے بالفعل وہی پوزیشن حاصل کر لی جو برطانیہ کے وزیر اعظم کو اپنے ملک میں حاصل تھی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن ملکہ برطانیہ کی طرح سمٹ گئے۔ کراچی میں صورت حال مختلف تھی۔ یہاں گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے والے تحریک پاکستان کے... قائد اعظم... تھے۔ نئی مملکت کا ہر شخص رہنمائی کے لئے ان کی طرف دیکھتا اور انہی سے حوصلہ پاتا تھا۔ کابینہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کرکے فیصلہ کیا تھا کہ قائد اعظم سے درخواست کی جائے کہ وہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کیا کریں۔ انہوں نے اسے شرف قبولیت بخش دیا۔ تمام فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے تھے اور وہ وزیر اعظم کے مشورے کے پابند نہیں تھے۔ قائد وزیروں اور سیکرٹریوں کو براہ راست ہدایات جاری کر سکتے تھے اور کسی وزارت کو اپنے پاس بھی رکھ سکتے تھے (سرحدی اور ریاستی امور کی وزارت کو یہ شرف حاصل تھا)... صوبائی گورنروں کا تقرر ان کا صوابدیدی اختیار تھا اور وزیر اعظم کی حیثیت ان کے مشیر اعلیٰ کی سی تھی۔ نئی مملکت کا کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں تھا، اسے استوار کرنے کے لئے قائد کی ذاتی توجہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
قائد اعظم دنیا سے رخصت ہوئے تو خواجہ ناظم الدین نے ان کی جگہ لی۔ اب معاملہ الٹ تھا۔ لیاقت علی خان کی بھاری بھرکم شخصیت نے اپنی گرفت مضبوط کر لی اور خواجہ صاحب ''آئینی سربراہ‘‘ بن کر رہ گئے۔ معاملہ یونہی چلتا رہتا تو پارلیمانی نظام شدت سے قائم ہو جاتا، لیکن لیاقت علی خان کی شہادت نے نقشہ بدل دیا۔ خواجہ ناظم الدین کو ان کے رفقاء نے اکسا کر وزیر اعظم بنوا دیا اور آئینی سربراہی ملک غلام محمد کے سپرد ہو گئی۔ بیمار اور لاغر لیکن درشت اور تحکم کے رسیا ملک غلام محمد نے اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر سمجھنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً پہلے وزیر اعظم کو برطرف کیا اور اس کے بعد دستور ساز اسمبلی ہی پر ہاتھ صاف کر دیا۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے، آئینی سربراہ وزیر اعظم کو زیر کرنے اور وزیر اعظم آئینی سربراہ کے پَر کترنے میں مصروف رہا۔ مارشل لائوں نے بھی آ کر صدر کا منصب مضبوط کیا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو یہ مرغوب قرار پایا۔ ایوب خان کے علاوہ کوئی فوجی سربراہ وزیر اعظم نہیں بنا۔ ایوب خان نے ابتداً یہ منصب سنبھالا تھا لیکن صرف بیس دن کے بعد انہوں نے صدر کو نکال باہر کیا اور خود صدر کہلانے لگے۔ جنرل ضیاء الحق نے کچھ عرصہ صدر فضل الٰہی چودھری کو گوارا کیا اور وزیر اعظم کہلائے بغیر وزیر اعظم بنے رہے، لیکن منزل ان کی بھی صدارت ہی تھی۔ جنرل پرویز مشرف، جسٹس (ر) رفیق تارڑ کی صدارت کو خون کے گھونٹ پی کر برداشت کرتے اور چیف ایگزیکٹو کہلاتے رہے لیکن پھر ان سے استعفا حاصل کئے بغیر ان کو مستعفی قرار دے دیا۔ فوجی اور غیر فوجی صدور ہر وزیر اعظم کو غیر ذمہ دار سمجھتے اور اس پر کڑی نگاہ رکھنے کے شوق میں دبلے ہوتے رہے۔ جہاں تک بس چلا اس کے بغیر کام چلانے کی کوشش کی اور اگر یہ منصب بحال کرنے پر مجبور ہوئے تو بھی اسے اپنے سامنے جواب دہ قرار دیتے رہے۔ جواباً وزرائے اعظم نے بھی جب ان کا بس چلا، ان کا چودھری فضل الٰہی بنا دیا۔ بھٹو مرحوم نے 1973ء کے دستور میں صدر سے ہاتھ پائوں ہلانے تک کا اختیار چھین لیا تھا، وہ وزیر اعظم کی کٹھ پتلی تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو موقع ملا تو پہلے انہوں نے صدر فاروق لغاری کا فضل الٰہی بنایا... پھر جسٹس رفیق تارڑ کو ان کی جگہ بٹھا دیا۔ تارڑ صاحب شریف آدمی تھے، سیاست کا ان کو ذوق تھا نہ شوق... انہوں نے وزیر اعظم کو سکون سے سانس لینے کا وافر موقع فراہم کیا، یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کی فائل پر بھی "SEEN" لکھ کر اسے فوراً واپس تھما دیا۔
آصف علی زرداری ایک وکھری ٹائپ کے صدر تھے کہ جس پارٹی کی حکومت تھی، اس کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی، پھر بھی یوسف رضا گیلانی نے ''غوث الاعظم‘‘ کی اولاد ہونے کا حق ادا کیا اور ان کی آنکھوں میں جو مناسب سمجھا وہ جھونک کر اپنا کام نکال لیا۔ زرداری اور گیلانی صاحبان میں سے دونوں اپنے اپنے طور پر معاملات سے لطف اندوز ہوتے رہے... زرداری صاحب کی مدت پوری ہوئی تو وزیر اعظم نواز شریف کی نگاہ انتخاب سندھ مسلم لیگ کے رہنما سید ممنون حسین پر پڑی اور انہیں ایوان صدارت میں سجا دیا گیا۔
ممنون حسین ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ باقاعدہ تعلیم یافتہ ہیں اور ہر سرد و گرم میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد خرابی میں ہر پیش کش کو انہوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا اور جلاوطن لیڈر کی نگاہ میں بلند ہوتے گئے۔ ممنون حسین وزیر اعظم نواز شریف کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جب سے انہوں نے صدارت سنبھالی ہے، دانشوروں، ادیبوں، اخبار نویسوں، شاعروں، استادوں اور طالب علموں کے اجلاس بلاتے رہتے ہیں۔ عید میلادالنبیؐ کا موقع ہو، یوم آزادی کا یا یوم قائد اعظمؒ کا‘ وہ منتخب افراد سے تبادلہ خیال کا اہتمام کرتے چلے جاتے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر اقلیتوں کے نمائندوں کو بلا کر کیک کاٹا گیا... یوم قائد اعظمؒ کے حوالے سے انہوں نے مدیران اخبارات کو ظہرانے پر مدعو کیا تو اڑھائی گھنٹے ان کے ساتھ گزارے۔ ان کو یقین تھا کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، حکومت کی ترجیحات بالکل درست ہیں۔ کوتاہیاں کمیاں جو بھی ہوں، ماضی کے ملبے کو صاف کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کا تعاقب جاری ہے۔ کراچی کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہونے کو ہے۔ جناب صدر کو اصرار تھا کہ میڈیا حکومت کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا، اس کی وہ توصیف نہیں ہو رہی، جو اس کا حق ہے۔ جنابِ صدر، بار بار یہ بات دہراتے رہے۔ سننے والے ''ایوان صدر‘‘ کی اس تبدیلی پر متعجب ہو رہے تھے۔ ''عشقِ ممنون‘‘ سے ایسی ملاقات اس مقام پر اس سے پہلے تو نہیں ہوئی تھی!!
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے]