پاکستان کا حکمران طبقہ آج کل ممکنہ عالمی سرمایہ کاری کے معاشی اور سماجی نتائج کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نظر آتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اندازہ نہ ہو کہ یہ سرمایہ کاری کے نام پر بھاری شرح سود پر ملنے والا یہ قرض حقیقت میں کتنا ''نتیجہ خیز‘‘ ثابت ہو گا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے 46ارب ڈالر کے ان چینی منصوبوں کی نوعیت کے بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سرمایہ کاری ہے، امداد یاقرض ہے!
حقیقت یہ ہے کہ معاشی گروتھ نہیں ہورہی ۔ شرح سود 45 سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود نجی شعبہ سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔توانائی کے بحران اور پیداواری لاگت مہنگی ہونے کی بدولت سرمایہ کار ہیجان کا شکار ہیں۔ جعلی اعدادو شمار کے ذریعے 4.2فیصد کی شرح نمو بھی معیشت کو آگے بڑھانے اور سماجی ترقی کے لئے ناکافی ہے۔ ناامیدی کی اس نفسیات کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ، کمیشن وصولی، اور تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانے والے منصوبوں پر زور شور سے کام جاری ہے جبکہ معیشت کو مستحکم کرنے اور طویل المعیاد ترقی سے مایوسی کی جھلک نظر آتی ہے۔
شرح سود میں کمی کی باوجود افراطِ زر کم ہورہا ہے جو گہری بیماری کی علامت ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ 11دسمبر2015ء کو گورنر اسٹیٹ بینک نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نجی شعبہ ، پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی بجائے حکومتی بانڈز اور سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان میں نجی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی خطے میں کم ترین سطح پر ہے۔اجناس کی قیمتوں میں کمی ، توانائی بحران اور کم افراطِ زر کی وجہ سے قرضوں کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے بینکوں نے حکومتی بانڈز میں محفوظ سرمایہ کاری کی ہے اور جس کا حجم اس سال جون تک 1400ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 55کھرب تک پہنچ گیا ہے۔پاکستان ایسا ملک بن چکا ہے جو صارفین کی عام ضرورت کی اشیا بھی بیرونِ ملک سے درآمد کرتا ہے۔
دوسری طرف غیر رسمی معیشت یا بلیک اکانومی کا حجم روز بروز بڑھ رہا ہے۔2012ء کی FBRکی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلیک اکانومی کا حجم حقیقی معیشت کے 50فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بلیک اکانومی کا گروتھ ریٹ 1977ء سے 2000ء تک 9 فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے اور بلیک اکانومی زیادہ تر منشیات ، اغوا برائے تاوان ، قتل، بھتہ خوری اور غیر رجسٹرڈ کا روباروں پر مشتمل ہے جو ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔غیر سرکاری اداروں کی کچھ دوسری رپورٹوں کے مطابق بلیک اکانومی کا حجم FBRکے تخمینوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔LUMSکی ایک رپورٹ کے مطابق 62 فیصد ٹیکس ، ٹیکس چوروں ، FBRکے اہلکاروں اور ٹیکس چوری کے طریقے بتانے والے وکیلوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔یہ رقم 2011-12ء میں 3132ارب روپے تھی۔2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق صرف کراچی میں 83کروڑ روپے یومیہ کاکالا دھن پیدا ہوتا ہے ۔ کراچی میں روزانہ اغوا برائے تاوان کی مد میں 5کروڑ روپے، 10کروڑ روپے پانی مافیا، 15کروڑ روپے منشیات اور جوئے، اور23کروڑ روپے زمینوں کے قبضے کی مد میں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔قبضہ مافیا سالانہ 7ارب روپے اس مد میں اکٹھے کرتے ہیںاور اس میں روز افزوں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کے حوالے سے کاروبار عام ہے۔ کا لے دھن کو بیرون ملک رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے واپس پاکستان میں سفید دھن کے طور پر لایا جاتا ہے۔اس میں سیاسی پارٹیاں ، بیوروکریٹس وغیرہ شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری میں جہاں اور وجوہ وہاں سب سے بڑا الزام منی لانڈرنگ کا بھی ہے۔اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ کس طرح ریاستی اداروں کے اہلکار سنجیدہ جرائم میں ریاستی مشینری کو استعمال کر کے دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔دوسری طرف یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اازل سے اپنے منافعوں میں بڑھوتری کے لیے بجلی چوری،ٹیکس چوری اور رشوت ستانی جیسے طریقے استعمال کررہا ہے۔2دسمبر کے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں32ارب ، سندھ میں 67ارب، KPK میں 36ارب اور بلوچستان میں 25ارب کو ملا کر کل 160ارب کی بجلی چوری کی گئی ہے اور اس کا سارا بوجھ پچھلے چار سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں 250فیصد اضافہ کر کے عام صارفین پر منتقل کیا گیا ہے ۔ بجلی چوری کے خلاف کریک ڈائون کی کوئی سنجیدہ کوشش اگر ریاست کرتی بھی ہے تو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ ہر سہ ماہی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی شرط ہوتی ہے جس کو عاجزانہ طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
IMF کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے لیے عام لوگوںپر 40ارب روپے کے نئے ٹیکس زیادہ تر عام ضرورت کی اشیا پر لگائے گئے جبکہ ٹی وی پر وزیرِخزانہ (جنہیں وزیر ٹیکس کہنا زیادہ مناسب ہو گا) اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ یہ ٹیکس امرا کی پرتعیش اشیاپر لگائے گئے ہیں ۔ موصوف کی یہ بات مان بھی لی جائے تو بورژوا معیشت کے بنیادی اقتصادی اصولوں کے خلاف ہے۔ریونیو بڑھانے کے لیے کبھی بھی پر تعیش اشیا پر ٹیکس نہیں لگا یا جاتا کیونکہ 'لچکدار طلب‘ کی وجہ سے مطلوبہ آمدنی حاصل نہیں ہو پاتی۔ حقیقت میں ان ٹیکسوں کا بڑا حصہ صابن، سگریٹ اور دوسری استعمال کی اشیا پر لگایا گیا ہے۔ یہ ٹیکس آپریشن سکیورٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں جس کے لیے پہلے ہی PSDPسے 70 ارب روپے نکالے جا چکے ہیں۔
ہر سرمایہ دار حکومت اور ریاست میں درمیانہ طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اور اسی کو مدنظر رکھ کر معاشی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ درمیانے طبقے میں بڑھوتری کسی حد تک معاشی ترقی کااعشاریہ بھی ہو تی ہے کیونکہ یہ درمیانہ طبقہ ہی منڈی میں زیادہ تر طلب پیدا کرتا ہے جس سے سرمایہ دارانہ معیشت چلتی ہے۔لیکن پاکستان میں درمیانہ طبقہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔موجودہ حکومت کے دوران حکومتی وزیر احسن اقبال کے مطابق 15لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہیںاور بیروزگاری کی شرح پچھلے13سالوں میں سب سے بلند سطح پر ہے۔احسن اقبال کے مطابق اس سال سات لاکھ نئے لوگ بیروزگاری کے سمندر میں غرق ہوئے ہیں اور2016ء میں اس میں مزیدچار لاکھ کا اضافہ ہو گا۔یہ سرکاری اعدادو شمار ہیں جن کے مطابق اب تک بیروزگاروں کی کل تعداد 53لاکھ ہوگئی ہے۔لیکن حقیقت میں تعداد اس سے کہیں زیادہ، بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔دراصل معیشت کے Capital Intensive کردار کی وجہ سے بے روزگاری کم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کی جکڑ میں ٹیکنالوجی کا کردار مزدور دشمن بن گیا ہے۔
تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرنا بھی حکومت نے چھوڑ دیئے ہیں اور بنیادی ضرورت کے ان اداروں نجکاری کی جا رہی ہے۔پہلے ہی معاشی مشکلات اور تعلیم تک رسائی نہ ہونے کہ وجہ سے 45فیصد بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ کر اپنا بچپن محنت کی منڈی میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل انفراسٹرکچر بنانے کے لیے فنی اور سائنسی تعلیم میں جتنے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہے وہ اس ریاست کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔
اس معاشی اور سماجی کیفیت میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا عوامی سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیںکیونکہ سب کا معاشی پروگرام ایک ہے۔سماج کی انقلابی تبدیلی کا فریضہ خود محنت کش طبقے کی اپنی تحریک ہی ادا کرے گی۔محنت کش طبقہ، جب بطور طبقے کے، سیاسی عمل میں داخل ہو گا تو وہ ایک تجربہ کار اور پختہ سیاسی شعور کا حامل ہونے کی وجہ سے حکمران طبقے کے سیاسی ہتھکنڈوں میں نہیں آئے گا۔