تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-01-2016

یونہی

کل ایک نوجوان کا فون آیا کہ ہم انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے آپ کے ساتھ ایک شام منانا چاہتے ہیں‘ براہ کرم اس میں تشریف لائیں۔ میں نے کہا کہ میں لفظ شام وغیرہ منوانے سے تو ویسے ہی الرجک ہوں‘ البتہ ہمارے بزرگ جناب احمد ندیم قاسمی اپنی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منایا کرتے تھے۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس برپا کی جاتی‘ آپ گلے میں ہار ڈال کر بیٹھ جاتے اور نیاز مندان ان کو توصیفی مضامین و منظومات سے خراج عقیدت پیش کرتے۔ میں نے پوچھا، انجمن میں کون کون لوگ ہیں تو انہوں نے کچھ اجنبی سے نام لیے۔ میں نے کہا وہ عابد حسین عابد کدھر گئے؟ تو بولے کہ وہ دوسرے ونگ میں ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ونگ کونسا‘ تو بولے اب اس کے دو ونگ ہیں۔ میں نے کہا‘ کیوں؟ تو بتایا کہ اختلافات! عرض کیا کہ لیفٹ کے لوگ تو پہلے ہی اتنے تھوڑے باقی رہ گئے ہیں‘ وہ بھی تقسیم ہیں تو گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘ پہلے دو حلقے بنے‘ پھر ان کے مقابلے میں ایک حلقہ ارباب غالب بھی وجود میں آ گیا حتیِٰ کہ حلقہ میر تقی میر بھی موجود تھا جو ناصر کاظمی‘ انتظار حسین اور دیگران پر مشتمل تھا‘ وغیرہ وغیرہ۔
موصوف نے ایک حق یہ بھی جتایا کہ ان کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہے‘ اللہ اکبر‘ اس شہر کو بدنام کرنے کے لیے کیا اکیلا میں ہی کافی نہیں تھا‘ اگرچہ اب اس کارخیر میں محمد حنیف اور علی اکبر ناطق نے بھی اپنا 
حصہ ڈال رکھا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حضرات اپنے اجلاس ٹی ہائوس میں منعقد کرتے ہیں۔ جب یہ تقسیم نہیں ہوا تھا تو اس کے اجلاس ناصر باغ میں ہوا کرتے تھے جس میں مجھے بھی کئی بار جانے کا موقعہ ملا۔ میں نے کہا‘ برخوردار میں گرتا پڑتا آ تو جائوں لیکن ٹی ہائوس کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکوں گا۔ بولے آپ کے لیے الحمرا میں ہال نمبر دو بک کروا لیں گے جس میں سیڑھیاں نہیں چڑھنی پڑتیں۔ میں نے کہا اتنا تردد کیوں کرتے ہو تو کہنے لگے کہ ہم لوگ زیادہ تر یونیورسٹی سٹوڈنٹس ہیں اور سب لوگ آپ کو دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔ میں نے کہا‘ دیکھنے سے انہیں کچھ فائدہ ہو گا نہ مجھے۔ بہتر ہے کہ میری کتابیں پڑھیں یا اخبار میں ہر روز میری تصویر دیکھ کر آنکھیں سینک لیا کریں‘ میں محض جلوہ نمائی کے لیے کیسے آ جائوں؟ یہ ٹھان کر بیٹھا تھا کہ آج جنید کا ذکر نہیں ہو گا لیکن اس کا فون آ گیا کہ آپ کے دوست خالد مسعود خاں سے بات ہوئی ہے‘ بہت لطف آیا اور وہ بھی بہت خوش ہوئے، بولے میں لاہور آیا تو ملنے کے لیے ضرور آئوں گا۔ میں نے اسے کہا کہ یہ سب کالم نویس تمہارے چاچے لگتے ہیں‘ ان سے نیازمندی کا رشتہ قائم اورجاری رکھو۔میں نے انہیں یہ واقعہ سنا کر بھی خوب ہنسایا کہ جب میں مسقط میں ہوا کرتا تھا تو میں تو شعرو شاعری سے نابلد ہی تھا تو دوست مجھے یہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کہ وہ شعر سنائو جو ظفر صاحب نے تم پر ضائع کیا ہوا ہے! آج اپنے آنے کی خوشخبری بھی سنائی۔
رات آفتاب کے آٹھ دس راوین دوست آئے ہوئے تھے جن میں شاہد گل بھی تھے جن کے بارے میں یہ واقعہ شاید پہلے بھی آپ کو سنا چکا ہوں کہ زمانہ طالب علمی میں کالج کی ہاکی ٹیم کو ایک بہت اہم میچ کھیلنا تھا‘ ایک آدمی کم تھا تو موصوف کو بصد اصرار گول کیپر کے فرائض سونپ دیئے گئے جو انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق خوب اچھی طرح سے نبھائے۔ ٹیم گول کے قریب پہنچتی تو موصوف کوئی فلمی گانا گنگنا رہے ہوتے۔ حتیٰ کہ آفتاب کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی جو غالباً سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیل رہے تھے‘ لیکن کلائمکس اس وقت شروع ہوا جب ہاف ٹائم کے بعد کھیل شروع ہوا تو موصوف نے سگریٹ سلگایا‘ جبکہ گول کیپری کے فرائض بھی اتنی ہی تندہی سے ادا کرتے رہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے کوئی گول روکا بھی یا نہیں! ان میں ایک آصف بھلی صاحب تھے جو غالباً کالج کے سینئر ترین طالب علم رہے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ ورک صاحب کے بھی ہم جماعت رہ چکے تھے۔ لیکن بالآخر امتحان میں کامیاب ہو گئے اور لاء کر کے وکالت شروع کر دی‘ میں نے کہا کہ ایک آصف بھلی لاہور میں بھی ہمارے کولیگ ہیں‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہر بھلی وکیل ہوتا ہو؟
راجن پور سے یہ اُداس کر دینے والے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ایک ہفتے میں کوئی چالیس مور مر گئے ہیں‘ یہ کوئی وباء ہے جو ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی اور نہ ہی ارباب اختیار نے اس طرف کوئی توجہ دی ہے اور نہ ہی ان کی موت کا کوئی نوٹس لیا ہے۔ مر جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ انسان بھی مرتے رہتے ہیں لیکن آدمی ہوں یا مور‘ انہیں کسی وبائی بیماری سے نہیں‘ طبعی موت ہی مرنا چاہیے‘ تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو اگر زندگی کی نعمت ملتی ہے تو اس کی ڈور درمیان میں ہی کٹ جاتی ہے۔ بہرحال موروں کی اس موت پر انتظار حسین کے کالم کا انتظار رہے گا‘ اس اضافے کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ مور پال رکھے ہیں وہ ان کے ساتھ محبت کا اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں جتنا اپنے بچوں سے‘ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
جنگل میں مور ناچ رہا ہے ابھی ظفر
جلدی سے کوئی دیکھنے والا کہیں سے لائو
یہاں مرے ہوئے موروں کو دیکھنے والا بھی کہیں سے کوئی نہیں آیا‘ دنیا کا یہ خوبصورت ترین پرندہ جب اپنی دُم کے پروں کو پھیلاتا ہے تو نقش و نگار اور رنگوں کا جو نظارہ پیش کرتا ہے اس کی تعریف کے لیے الفاظ بھی کہیں اور سے لانا پڑیں گے‘ اور یہ خوبی صرف نر مور ہی کو حاصل ہے‘ مورنی اس سے محروم ہے حالانکہ اسے اپنے مور کو لُبھانے کے لیے شاید اس کی زیادہ ضرورت ہو۔ لیکن یہ اُس نقاش ازل کے اپنے من چلے کا سودا ہے‘ جس کو جو کچھ بھی عطا کر دے۔ مور کے پر کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ اسے قرآن حکیم میں بھی رکھا جاتا ہے‘ یہ تو ایک واقعہ تھا ورنہ پرندوں اور جنگلی حیات کے ساتھ ویسے بھی ہم کوئی اچھا سلوک نہیں کر رہے‘ حتیٰ کہ اپنے آپ کے ساتھ بھی!
آج کا مطلع
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہوا تُو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved