تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-01-2016

ماتھے پر کچھ اور لکھا ہے

چار دن ہوئے، ایک شادی میں جانا ہوا۔ ہم جس عجیب الخلقت معاشرے میں جی رہے ہیں، اُس میں شادی ''ونس اِن اے لائف ٹائم‘‘ قسم کا رونق میلہ بن چکی ہے یعنی تمام متعلقین دل کے ارمان دل کھول کر نکالتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ع 
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ہمارے ہاں شادی کے ہنگامے کو بھی ایسا ہی معاملہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایکسپو سینٹرز میں لگنے والے ''گالا‘‘ کی طرح شادی بھی کئی ایونٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کس کس بات پر دھیان دے اور کس کس کی خواہشات کا کماحقہ، احترام کرے! ایسے مواقع پر دولھا کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل خانہ کا بھی حواس باختہ ہو جانا عین فطری ہے۔ یہ ''عظیم نکتہ‘‘ بیان کرنے کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ یہ ہے کہ شادی ہال ہم نے دیکھا نہ تھا اور جب کسی اور سے رابطہ کرنے کے بجائے خود دولھا کے بھائی سے فون پر لوکیشن دریافت کی تو وہ بھی بینڈ باجے کے شور میں ایسے ''مفقود الحواس‘‘ اور مہمانان گرامی قدر کے جِلو میں اتنے ''محبوس الخواص‘‘ ہوئے کہ سڑک کی غلط سائڈ بتاکر ہمیں کسی اور راہ پر ڈال دیا! 
اب ذرا آگے کا لطیفہ سُنیے۔ ہم مطلوبہ شادی ہال کی تلاش میں ایک عظیم الشان شادی ہال کے سامنے سے گزرے، اُس کی چمک دمک پر ایک نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ ڈیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے موٹر سائیکل روکی اور ایک صاحب سے پوچھا کہ ہمارے ''خوابوں کی جنت‘‘ یعنی ڈریم ہیون میرج ہال کہاں ہے تو اُنہوں نے وہی کہا جو علامہ اقبالؔ نے گردشِ ایّام سے کہا تھا۔ یعنی ع 
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو! 
معلوم ہوا کہ ہم منزل کو کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ پھر اُن صاحب نے ہال کا تھوڑا بہت نقشہ بھی کھینچا۔ برقی قمقموں کی سیٹنگ تک سمجھائی تاکہ ہم اب کی بار دھوکا نہ کھائیں۔ اُن صاحب کی نشاندہی کے مطابق ہم چورنگی سے موڑ کاٹ کر واپس گئے اور پھر موڑ کاٹ کر اُس مقام پر پہنچے جہاں مطلوبہ شادی ہال کا واقع ہونا بتایا گیا تھا۔ ہال پر ایک نظر ڈالی تو دیکھا کہ ''ما شاء اللہ‘‘ کے الفاظ تیز روشنی میں نہا رہے تھے۔ ہم نے ایک بار پھر (ظاہر ہے اپنی) عقل کا (دل ہی دل میں) ماتم کیا کہ ڈریم ہیون کی تلاش میں ہم ایک بار پھردھوکا کھاگئے اور ما شاء اللہ میرج ہال پہنچ گئے۔ اور پھر ہم نے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ہال کے دروازے کے ساتھ بہت نیچے، کونے میں نصب بورڈ پر نظر پڑی جس پر ''ڈریم ہیون‘‘ کے الفاظ ہمارا ''خیر مقدم‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ منہ چڑانے کا بھی ''ٹو اِن ون‘‘ فریضہ انجام دے رہے تھے! 
چند لمحات تک ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اپنے آپ کو کن الفاظ سے نوازیں یا ہال کے مالکان و انتظامیہ کو کن بے نقط الفاظ کی مدد سے ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کریں! ابھی ہم اِسی اُدھیڑ بُن کے عالم میںتھے کہ ہمیں سڑک کی غلط سائڈ بتاکر کہیں کا کہیں پہنچانے والے عارف انصاری پر نظر پڑی جو مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاکر اہلاً و سہلاً مرحبا کہنے کے فرض سے سُبک دوش ہو رہے تھے! اُن کی آنکھوں سے اپنائیت کے ساتھ ساتھ میڈم نور جہاں کا گایا ہوا یہ مُکھڑا بھی ٹپک رہا تھا ؎ 
ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری 
کہ تم آگئے اچانک بڑی عمر ہے تمہاری! 
اب ہم انہیں کیا بتاتے کہ آپ کے بھائی کی بارات کے بینڈ باجے نے ہمارا تو بینڈ ہی بجادیا! اگر ایسی مزید دو تین تقریبات میں جانا ہوا تو آپ خود ہی کہیں گے ارے اِتنی چھوٹی عمر تھی تمہاری! 
خیر، شادی ہال تک پہنچنے میں جس دِقّت کا سامنا ہمیں کرنا پڑا تھا اُس سے پیدا ہونے والی ''بے لُطفی‘‘ پُرتکلّف طعام نے بیک جنبش قلم جڑ سے مِٹادی۔ عارف ہمیں پہلے ہی بتاچکے تھے کہ ان کے بھائی کے خُسر سید راشد علی کاٹن یعنی کپاس سے متعلق سرکاری ادارے کے افسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اب یہاں بھی تضاد ملاحظہ فرمائیے۔ افسر تھے کپاس کے اور لذّتِ کام و دہن کا اہتمام تھا یکسر ریشمی! ویسے آپس کی بات ہے، ہمیں اِس طرح کا لذیذ تضاد ہمیشہ پسند رہا ہے اور جب تک دم میں دم ہے ہم تو ایسے ہر تضاد پر جان و دل نثار کرتے رہیں گے! 
شادی ہال تک پہنچنے میں وقت کا جو ضیاع ہوا تھا اُس سے طبیعت میں تھوڑا سا تکدّر پیدا ہوگیا تھا۔ مگر صاحب، یہ تو ناشکرا پن ہوتا کہ ہم خاصے پُرتکلّف اہتمامِ طعام سے ہمکنار ہوکر بھی منہ بنائے رہتے۔ خاصے توازن سے بنائی اور پکائی ہوئی چیزوں سے بہرہ مند ہونے پر طبیعت یُوں ہشّاش بشّاش ہوگئی جیسے کسی بڑے ٹی وی شو میں گرینڈ پرائز جیتنے کا موقع مل گیا ہو! 
شادی ہال میں ہم نے جو میز منتخب کی اُسی کو طیب سنجرانی اور مقصود صاحب نے بھی منتخب کر رکھا تھا۔ تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ طیب سنجرانی پڑھاتے ہیں اور اضافی طور پر کاؤنسلنگ بھی کرتے ہیں یعنی مختلف معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی معاملات میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہونے والوں کو مفید اور قابل عمل مشوروں سے نوازنے کا شعبہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان سے پندرہ بیس منٹ کی گفتگو ہوئی جس کے دوران ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ خاصے پُرسکون اور حواس پر قابو پانے والے انسان ہیں۔ اور جب کھانا کُھلا تب یہ ثابت بھی ہوگیا۔ کھانے کی میز پر سے جب بھیڑ چَھٹی تب وہ اُٹھے اور بڑی پلیٹ میں تھوڑی سی تِکّا کڑھائی اور تافتان نما کلچوں کے چند ٹکڑوں کے ساتھ ٹھنڈے مشروب کی دو بوتلیں بھی لیتے آئے۔ ہم دو بوتلیں دیکھ کر چونکے تو سنجرانی صاحب نے خلوص کے ساتھ ایک ہماری طرف بڑھادی۔ اُن کی ''طرزِِ کاؤنسلنگ‘‘ ہمیں پسند آئی! شادی کی تقریب میں کھانا کُھلنے پر کوئی ''اِتنا‘‘ اخلاص بھی دکھائے تو فی زمانہ اِسے ''عظمت‘‘ کی دلیل سمجھیے! 
کھانے کے دوران ہم نے بتایا کہ کس طور ہم ہال کی تلاش میں غُچّہ کھاگئے اور کئی کلو میٹرز کی خاک چھانتے پھرے تب طیب سنجرانی صاحب نے کہا کہ یہ کیفیت تو پوری قوم کی ہے۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے تو اُنہوں نے یُوں وضاحت کی: ''بات یہ ہے جناب کہ ہم قدم قدم پر دھوکا کھاتے اور دھوکا دیتے ہیں۔ ہماری زندگی ایسے شادی ہال کی سی ہے جس کے ماتھے پر ما شاء اللہ، سبحان اللہ اور ہٰذا مِن فضلِ ربّی جیسے تشکر آمیز کلمات تو بہت نمایاں اور روشن دکھائی دیتے ہیں مگر اصل نام بہت نیچے، کسی کونے میں توجہ کا منتظر رہتا ہے!‘‘ 
ہمیں تو اب یہ کیفیت پوری زندگی پر محیط لگتی ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں اس بات کو معمولی سی بھی اہمیت نہیں دیتے کہ کسی کو ہمارے ارادوں کا درست اندازہ لگانے میں مدد ملنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو تو پھر ہوتا یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کچھ، لوگ سمجھتے ہیں کچھ اور ہوتا ہے کچھ۔ ہم اپنے خیالات و عزائم کی عمارت پر رب سے تشکر کے اظہار والے الفاظ تو نمایاں طور پر لکھ یا ٹانک دیتے ہیں مگر لوگوں کو اپنے خیالات و عزائم کی طرف لانے والا نام بتانے میں خاصی بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ لوگ ہم تک پہنچ کر بھی ہم تک پہنچ نہیں پاتے اور ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں! 
سنجرانی صاحب کی بات نے ہمارے خیالات کا رخ ریاستی مفادات اور قومی پالیسیوں کی طرف بھی موڑا۔ ہم یہ بات اب بالکل بھول بیٹھے ہیں کہ کئی عشروں سے ہماری پالیسیوں کا نام کچھ ہے اور پیشانی پر کچھ اور لکھا ہے! کیا دشمن اور کیا دوست، سبھی شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ کیا سمجھیں اور کیا نہ سمجھیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں متعلقین ہم تک پہنچ نہیں پاتے یا پھر ہمیں دیکھ لینے کے باوجود پہچاننے میں ناکام رہنے پر آگے بڑھ جاتے ہیں! نتیجہ؟ یہی کہ کسی معاملے میں کوئی نقصان نہ پہنچانا چاہتا ہو تب بھی ہمیں نقصان پہنچ ہی جاتا ہے! ع 
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اِسے کیا کہیے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved