بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے درمیان لاہور میں ملاقات کے صرف آٹھ روز بعد فو جی وردی میں ملبوس جنگجوئوں نے بھارتی پنجاب کے پٹھانکوٹ ضلع میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر دھاوا بول دیا۔ 63 گھنٹے تک جاری رہنے والے تصادم میں فضائیہ اور فوج کے کئی ہلکار ہلاک اور نصف درجن زخمی ہو گئے جبکہ جوابی کارروائی میں 6 حملہ آور مارے گئے۔ بھارتی پنجاب کی پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے ایک روز قبل ایک ایس پی اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرکے ان کی گاڑی اور موبائل فون چھین لیے تھے۔
جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تقریباً نصف درجن جنگجوئوں نے انڈین ایئر فورس کے اڈے پر شدید فائرنگ کرتے ہوئے پے در پے گرینیڈ داغے۔ یہ حملہ اْس جگہ پرکیا گیا جو جموں کشمیر، پنجاب اور ہماچل پردیش کی سڑکوں کا سنگم ہے۔ یقیناً یہ حملہ بھارت اور پاکستان کے خارجہ سکرٹریوںکے آئندہ دنوں ہونے والے مذاکرات اور دونوں ملکوں کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات کو سبوثاژ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ماضی کے برعکس بھارتی وزارت خارجہ اور دوسرے متعلقہ اداروں نے کچھ سیاسی پارٹیوں بشمول کانگریس اور شیو سینا کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود محتاط رد عمل ظاہر کیا؛ حالانکہ سکیورٹی ایجنسیوں نے فوراً حملے کا تعلق پاکستان کے ساتھ جوڑنے اور ایک پاکستانی غیر سرکاری ادارے الرحمان کو ملوث کرنے کی بھرپورکوشش کی اور یہ بھی کہا کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید نے پانچ سال قبل اس ادارے کی مالی معاونت کی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششں ہوتی ہے، چند نادیدہ قوتیں اسے سبوتاژ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں۔ 1999ء میں جب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور کی طرف رواں تھے، پونچھ کے ایک گائوں میں نامعلوم جنگجوئوں نے کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ پھر جولائی 2000ء میں مبینہ طور پر حزب المجاہدین نے جنگ بندی
کے اعلان کے فوراً بعد پہلگام میں ہندو یاتریوں کو تختہ مشق بنایا۔ اس کی تحقیقات کے لیے کور کمانڈر جنرل جے ایچ مکرجی کی قیادت میں کمیٹی بنائی گئی مگر اس کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ اس کے کچھ مندرجات مقامی انتظامیہ نے افشا کیے تھے جن کے مطابق ہندو تیرتھ یاتریوں کی اموات سکیورٹی افواج کی فائرنگ سے ہوئی تھیں۔ اسی طرح سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی آمد پر جنوبی کشمیر کے سکھ گائوں چٹھی سنگھ پورہ پر ڈھائی گئی قیامت کون بھول سکتا ہے؟ ایسے ان گنت خونیں واقعات سے کشمیر کی جدید تاریخ بھری پڑی ہے۔ حیرت ہے کہ کبھی ان جنگجوئوں کی شناخت ظاہر کی گئی نہ حکومتوں نے ان واقعات کی تحقیقات میں دلچسپی لی۔ چھٹی سنگھ پورہ کے فوراً بعد ایک جلوس پر فائرنگ کے واقعہ اور جعلی تصادم پر تو اس وقت کی جموں کشمیر حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایس آر پانڈے کی قیادت میں عدالتی کمیشن بھی قائم کیا مگر جب کمیشن نے چھٹی سنگھ پورہ کی تحقیقات کی بھی خواہش ظاہر کی، کیونکہ بعد کے واقعات کے تار اسی سے جڑے تھے، تو انہیں سختی سے منع کر دیا گیا۔کمیشن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جعلی تصادم میں سکیورٹی حکام نے چھٹی سنگھ پورہ میں ملوث جن جنگجوئوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا، وہ سب بے گناہ شہری تھے۔ ان کی ہلاکت کا ذمہ دار جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے اس وقت کے ایس ایس پی فاروق خان سمیت فوجی اور نیم فوجی اہلکاروںکو ٹھہرایا گیا تھا۔ فاروق خان کو ریاستی حکومت نے برطرف کر دیا مگر مرکزی حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہ دی۔ اس کے برعکس بھارتی وزارت داخلہ انہیں بحال کرنے پر اصرار کرتی رہی‘ جس کی اس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اور ان کے جانشین مفتی محمد سعید نے سخت مزاحمت کی۔ مگر 2005ء میں جب کانگریسی لیڈر غلام نبی آزاد اقتدار پر براجمان ہوئے، فاروق خان کی برطرفی ختم کر دی گئی اور وہ بعد میں ڈی آئی جی
بن کر ریٹائر ہوئے۔ موصوف آج کل بھارت میں حکمران بی جے پی کے انتہائی اہم لیڈر ہیں۔ جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے مذکورہ جج نے جب رپورٹ کے مندرجات سے میڈیا کو آگاہ کیا تو دہلی کے کشمیر ہائوس سے ان کو نکال دیا گیا۔ دوسرے دن جب میں ان سے ملنے گیا تو دیکھا کہ انہیں اہل و عیال اور سٹاف سمیت وی وی آئی پی روم سے نکال کر ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ بعد میں وہ قریبی تامل ناڈو ہائوس چلے گئے۔
ان نادیدہ قوتوں کو جواب دینے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ مذاکرات اور متنازعہ امور کو حل کرنے کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے متنازعہ امور کو حل کرکے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دے سکتے ہیں۔ پٹھانکوٹ کا حملہ نریندر مودی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ''دہشت گردی اور مذاکرات‘‘ جو ماضی میں بی جے پی کا موقف رہا ہے اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھارت اور پاکستان کے لیڈروں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اقتصادی تعلقات کی بقا اور فروغ سیاسی تنازعات کے حل میں مضمر ہے۔ سیاسی تنازعات کو پس پشت ڈال کر تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں نہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔
نومبر 1993ء میں جب 28 یورپی ممالک نے یورپی یونین بنانے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے طے یہ پایا کہ عالمی جنگوں سے پیدا شدہ اور صدیوں سے موجود سیاسی تنازعات کو حل کیا جائے گا۔ یورپی لیڈر جانتے تھے کہ یورپی یونین کی کامیابی سیاسی تنازعات حل کرنے میں مضمر ہے۔ بزنس شروع کرنے اور سرحدیں کھولنے سے پہلے صدیوں کی کدورت دور کرنا ضروری ہے۔ اس اصول کے تحت اگلے دس برسوں میں فن لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا کے تنازعات کا حل قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سے اہم ترین جس کی نوعیت تنازع کشمیر سے ملتی جلتی ہے وہ برطانیہ اور ری پبلک آف آئرلینڈ کے درمیان صدیوں سے جاری شمالی آئرلینڈ کا تنازع تھا۔ اس خطے کے حصول کے لیے کئی خونریز جنگیں ہوئیں۔
جولائی2001 ء میں آگرہ مذاکرات سے ایک دن پہلے نئی دہلی کے میریڈین ہوٹل میں پریس کانفرنس کے بعد جب میں نے اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ سے پوچھا کہ جب حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک جز ہے اور بھارت اس کا ایک فریق بھی ہے تو آخر ریاست جموں و کشمیر کا مستقبل طے کرنے کے لیے اس میکانزم کو کیوں نہیں اپنایا جا سکتا تو ان کا جواب تھا کہ ''1960ء کی دہائی کے بعدکی دنیا سرحدوں کے رد و بدل یا نئے ملکوں کے وجود کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، خاص طور پر مذہبی بنیادوں پر تو ملکوں کا تعین ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سے صرف لاقانونیت اور عد م استحکام کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو خاصی بڑی قیمت ہو گی‘‘۔ مگر صرف ایک سال بعد ہی مغربی ممالک نے انڈونیشیا کو عیسائی اکثریت والے علاقے مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کروانے پر مجبور کیا۔ اس کے دس سال بعد2011 ء میں ریفرنڈم کے ذریعے ایک اور عیسائی ملک جنوبی سوڈان مذہبی شناخت کی بنیاد پر ایک الگ مملکت کی صورت میں معرض وجود میں آ گیا۔ حتیٰ کہ کینیڈا نے 1995ء میں اس فارمولے کو اپنے صوبے کیوبک میں اور برطانیہ نے 2014 ء میں اسکاٹ لینڈ میں استعمال کیا۔ اگر کوئی فریق حق رائے دہی کا متحمل نہیں ہو سکتا تو لازم ہے کہ متبادل حل تلاش کیا جائے جو اصل فریق یعنی عوام کے لیے قابل قبول ہو اور دونوں ملکوں کی سلامتی کا ضامن بھی۔
اپنے دس سالہ دور اقتدار کی آخری اور چوتھی پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اقرار کر لیا تھاکہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کی دہلیز تک وہ پہنچ گئے تھے مگر صدر پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی اور پاکستان کے داخلی مسائل نے اس کونپل کو پھوٹنے سے پہلے ہی مرجھا دیا۔ حال ہی میں پاکستانی لیڈر اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے تو اپنی کتاب میں اس حل کے خد و خال سے بھی پردہ ہٹا دیا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کئی بار یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیائی یونین کے قیام کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ شاید وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاسی تنازعات کا تصفیہ کیے بغیر اقتصادی یونین کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ 2004 ء کے بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے حوالے سے پس پردہ سفارت کاری یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں شمالی آئرلینڈ تنازع کے حل، جسے گڈفرائڈے (بلفاسٹ ) ایگریمینٹ کے نام سے جانا جاتا ہے کو بطور ماڈل پیش کیا گیا۔ بل کلنٹن نے جو خود بھی آئرلینڈ کے مسئلے میں شامل رہے، 2 مارچ 2003 ء کو اپنی تقریر میں بھارتی سامعین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان سے کشمیر کا تنازع حل کرتے ہوئے شمالی آئرلینڈ کی مثال کو سامنے رکھیں کہ کس طرح ایک سپر پاور ہونے کے باوجود برطانیہ نے انتہاپسندوں کو نہ صرف مذاکرات میں شامل کیا بلکہ ان کے مطالبات کو بڑی حد تک پورا کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے۔ یہ دونوں ممالک کے لیے ایک سبق ہے۔
آخر برطانیہ نے اس چھوٹے سے علاقے میں شورش کو کچلنے کے لیے مذاکرات کے بجائے کے پی ایس گل‘ منوہر سنگھ اور شکور وانی، فاروق خان جیسے سخت گیر پولیس افسران کی خدمات حاصل کیوں نہیں کیں؟ آئرلینڈ کے مذاکراتی عمل سے جو سب سے اہم سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتیں اعتدال پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے انہیں ایک حد تک آگے تو بڑھا سکتی ہیں لیکن مسئلے کا مکمل اور دیرپا حل انتہاپسندوں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔