تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-01-2016

اتوار کا دن اور تھکا ہوا کالم

یہ کالم مجھے اصولاً کل ہی لکھنا چاہیے تھا ( میں یہ کالم سوموار کو لکھ رہا ہوں اور آپ منگل کی صبح اسے پڑھ پائیں گے) کہ اس کا مزہ تبھی تھا کہ اتوار کو ہی لکھا جاتا ‘لیکن اتوار کو باقی دنوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ اتوار ہے اور کم از کم میں نے اتوار کو باقی دنوں سے ہمیشہ ہی مختلف پایا ہے۔ سردیوں کی ہر اتوارصبح آلو والے پراٹھے بنتے تھے۔ آلو والا پراٹھا میری سدا سے کمزوری ہے۔ سارا گھر اتوار کی صبح ناشتہ آلو والے پراٹھوں سے کرتا تھا، تاہم مجھے باقی گھر والوں پر یہ فوقیت تھی کہ میرے لئے درمیان میں بھی یہ پراٹھا بن جاتا تھا۔ ماں جی کو میری اس کمزوری کا علم تھا ‘ جس روز بھی گھر میں آلو پکتے وہ دو آلو فالتو ڈال دیتیں اور دوپہر کو ہی علیحدہ نکال کر رکھ دیتیں۔ شام کو وہ ان آلوئوں کو ہاتھ سے کچل کر موٹا موٹا قیمہ ٹائپ بناتیں پھراس میں دوسری درجن بھر چیزیں از قسم اناردانہ، اجوائن، ہلدی، موٹی کوٹی ہوئی مرچ، ہاتھ سے کوٹا ہوا سوکھا دھنیا، خشک میتھی، چٹکی بھر جائفل اور جاوتری کا پائوڈر اور جانے کیا کیا۔ ماں جی آلو والے پراٹھے بڑے اہتمام سے بناتی تھیں۔ گھنٹوں بڑے سکون اور رسان سے مسالہ تیار ہوتا۔ وہ یہ سارا کام رات کو کرکے سوتی تھیں۔ صبح دیسی گھی میں پراٹھے بنتے تو خوشبو سارے گھر میں پھیل جاتی۔ میںآلو والے پراٹھے میٹھے دہی کے ساتھ کھاتا تھا۔
ماں کے ہاتھ کا ذائقہ ہر شخص کے لئے بہت ہی اہم ہوتا ہے اور وہ اسے ساری عمر بھلا ہی نہیں سکتا کہ وہ اس ذائقے کو زبان پر رکھ کربچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ پھر بیوی آجاتی ہے ‘ ایک عرصہ لگ جاتا ہے کہ زبان نئے ذائقے سے آشنا ہو‘ مگر پہلا ذائقہ ہمیشہ ہی زبان پر بسا رہتا ہے۔ پہلی بار میری اہلیہ نے جب ہمارے گھر آلو والا پراٹھا کھایا تو حیران رہ گئی۔ آلو پراٹھے کے آخری کنارے تک بھرے ہوئے تھے۔ رنگ نسواری اور گلابی کے بیچ کا۔ سارے پراٹھے پر اس رنگ کے گویا پھول کھلے ہوئے تھے۔ خستہ اور کرکرا‘ بلکہ کرکرا اور کرارا۔ پوچھنے لگی ‘امی یہ پراٹھا کیسے بناتی ہیں؟ میں نے کہا اگلی بار ماں جی کے ساتھ بیٹھنا اور سیکھنا۔ اگر میرا اتوار خوش دیکھنا ہے تو تمہیں اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس آلو والے پراٹھے بنانے آنے چاہئیں۔ اگلی اتوار وہ صبح باورچی خانے میں ماں جی کے پاس بیٹھی پراٹھے بنتے دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ زبانی لیکچر سن رہی تھی۔
احسان مجھے میٹھے دہی کے ساتھ آلو والے پراٹھے کھاتا دیکھ کر ہمیشہ میرامذاق اڑاتا تھا۔ مجھے پینڈو ‘جاہل اور جانے کن کن القابات سے نوازتا تھا ۔پھر اس کی بہن بیاہ کر میرے گھر آ گئی۔ شروع شروع میں وہ مجھے میٹھے دہی کے ساتھ آلو والے پراٹھے کھاتا دیکھ کر بڑی حیران ہوئی مگر تھوڑے ہی دنوں میں نہ صرف یہ کہ اس کی حیرانی دور ہوگئی بلکہ وہ میرے ساتھ میٹھے دہی کے ساتھ آلو والے پراٹھے کھانے لگ گئی۔ ہوا یوں کہ پہلے پہل تو وہ صرف حیران ہوئی کہ میٹھے دہی سے مرچوں والے پراٹھے کیسے کھائے جاسکتے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ ہم زندگی میں بہت سے کام پہلی مرتبہ کرتے ہیں اور پھر ہمیشہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ تم ایک بار آلو والے پراٹھے میٹھے دہی کے ساتھ کھا کر دیکھو‘ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔ اس نے ایک نوالہ کھایا‘ پھر دوسرا‘تھوڑا رک کر تیسرا اور پھر اس نے میرا میٹھا دہی اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی آپ اور دہی بنالیں۔ تھوڑے دنوں بعد میں خانیوال گیا اور حسب معمول میٹھے دہی سے آلو والا پراٹھا کھانے لگا تو احسان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔ اچانک اس کی نظر اپنی بہن پر پڑی‘ وہ میٹھے دہی سے آلو والا پراٹھا کھا رہی تھی۔ وہ مسکرایا اور خاموشی سے اپنا پراٹھا کھانے لگ پڑا۔
اب میں اپنا ناشتہ خود بناتا ہوں۔ مجھے کچھ زیادہ نہ تو بنانا آتا ہے اور نہ ہی اب اس کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ گرمیوں میں دو گلاس لسی سے ناشتہ کرتا ہوں اور سردیوں میں کشمیری چائے اور باقرخانی۔ کشمیری چائے مجھے پسند تھی اور سردیوں میں دوسرے چوتھے اتوارسید عطاء اللہ شاہ بخاری کے نواسے کفیل بخاری کے ہاں جا کر کشمیری چائے پی لیتا تھا۔ ایک دن کفیل بخاری سے پوچھا کہ یہ چائے کیسی بنتی ہے؟ کفیل بخاری کا چھوٹا بھائی ذواکفل بخاری مرحوم اٹھ کر اندر گیا اور اپنی ہمشیرہ سے سارا نسخہ لکھوا کر لے آیا۔ اس نے کاغذ کا پرزہ مع کشمیری چائے کی پتی مجھے پکڑا دیا۔ میں نے گھر آ کر نسخے کے مطابق چائے بنائی ‘وہ ٹھیک بن گئی۔ سارا سال کشمیری چائے کی پتی کفیل بخاری دیتا رہا تاوقتیکہ میں نے احتجاجاً لینے سے انکار کر دیا اور دکاندار کا پوچھا۔ کفیل بخاری بمشکل دکاندار کا پتہ بتانے پر راضی ہوا۔ یہ لاہور میں انصاری ٹی سٹور تھا۔ کئی سال پتی لاہورسے آتی رہی۔ پھر کفیل کے بتانے پر ہی ایک جگہ ملتان میں تلاش کی۔ تب یہ چائے صرف ناشتے کے ساتھ چلتی تھی ‘اب سارا ناشتہ یہی ہے۔ باقرخانیاں ہر مہینے آغا نثار لاہور سے بھجوا دیتا ہے۔
اتوار کی صبح تھوڑا دیر سے ناشتہ بنانے کے لئے باورچی خانے میں آیا تو پتا چلا کہ اس وقت گیس نہیں آ رہی۔ سوچا کٹنگ کروالی جائے۔ کبھی چوک شہیداں میں ایسا ہوتا تھا کہ اتوار کو چچا گل محمد عرف گلونائی گھر آتا تھا۔ سردیوں میں چھت پر بازوئوں والی کرسی رکھی جاتی تھی۔ سب سے پہلے ابا جان شیو کرواتے تھے۔ پھر بڑے بھائی طارق مرحوم کے بال کٹتے تھے۔ پھر بازوئوں والی کرسی پر ایک پھٹہ رکھ کر مجھے بٹھایا جاتا تھا۔ پھر چچا مرحوم اوران کے بچے آ جاتے تھے۔ ہر بچے کی عمر اور مرتبے کے مطابق حجامت بنتی تھی۔ چھوٹے بچوں کی حجامت اس طرح ہوتی تھی کہ گردن کے پیچھے اور کانوں کے اوپر مشین پھیر کر بال بالکل غائب کر دیئے جاتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتی تھیں تو بہت سے بچوں کی ''ٹنڈ‘‘ کروا دی جاتی تھی۔ اس روز بہت سے بچے روتے تھے مگر کسی کی بھی نہیں سنی جاتی تھی۔ پھر چوک شہیداں والے گھر سے شفٹ ہو کر پہلے والدہ مرحومہ کے سرکاری گھر میں آئے اور پھر عثمان آباد۔ قریب اڑتیس سال پہلے امیرمحمد ہیئر ڈریسر سے پالا پڑا پھر اسی کے ہو کر رہ گئے۔
اب امیرمحمد سے کٹنگ کرواتے چار عشرے ہونے والے ہیں۔ امیر محمد کسی زمانے میں کسی کمپنی کے ساتھ فرانس میں بطور ہیئر ڈریسر کام کرتا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بغیر کسی ہدایت کے میں اس کے سامنے بیٹھ جاتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ بال کیسے کاٹنے ہیں۔ وہ بلامبالغہ پانچ یا چھ منٹ میں شاندار کٹنگ کر دیتا تھا۔ دیگر باربرز کے برعکس وہ بڑے پکے ہاتھ سے قینچی چلاتا تھا اور ایک جگہ پر ایک ہی بار بال کاٹنے کیلئے قینچی مارتا تھا۔ گزشتہ اڑتیس سال میں صرف چار چھ مرتبہ کسی دوسرے سے کٹنگ کروائی ہوگی۔ دو تین بار تو تب جب اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ کھڑے ہونے سے قاصر تھا۔ دوسری بار بھی ایک دو غیر حاضریاں تب ہوئیں جب اس کی ٹانگ دوبارہ ٹوٹ گئی تھی۔ بوسن روڈ کی توسیع ہوئی تو اس کی دکان جو ان پینتیس سالوں میں چار پانچ بار جگہ تبدیل کر چکی تھی ختم ہوگئی۔ اب اس کے گھرجاتا ہوں اور کٹنگ کرواتا ہوں۔
اب امیر محمد بھی بڑھاپے کی طرف مائل ہے۔ پہلے اس کی قینچی اور زبان برابر کی رفتار سے چلتی تھی لیکن اب اس کی قینچی کی رفتار کم ہوگئی ہے جبکہ زبان کی رفتار حسب سابق ہے۔ دوران حجامت وہ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج تک کی سیاست پر گفتگو کرے گا۔ یہ ساری گفتگو عموماً ''مونولاگ‘‘ ہوتی ہے اور عرصے سے ''مونولاگ‘‘ ہی ہے۔ میں درمیان میں ہوں ہاں کرتا رہتا ہوں اور وہ قصے سناتا رہتا ہے... فخر امام کے‘ ریاض قریشی کے ، جاوید ہاشمی کے اور اسی طرح اور سیاستدانوں کے۔ باکمال ہیئر ڈریسر کی نظر بھی اب پوری کام نہیں کرتی۔ کبھی کبھار قینچی جلد کو چھو جاتی ہے۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ٹانگ کے مسئلے کی وجہ سے اب اس سے زیادہ کھڑا بھی نہیں رہا جاتا مگر نہ اس کے پاس کوئی متبادل روزگار ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی متبادل باربر۔ میں اٹھنے لگا تو ڈاکٹر طاہر جمیل آ گئے۔ امیرمحمد سے کٹنگ کروانا بھی ایک علت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا۔ صرف میں ہی کیا؟ اور بھی بہت سے اب اس کے گھر آ جاتے ہیں۔ شہر میں نئے نئے مردانہ سیلون کھل گئے ہیں مگر ابھی بہت سے روایتی لوگ موجود ہیں جن کا اپنا اپنا امیر محمد ہے۔ میری ''جھنڈ‘‘ گلونائی نے اتاری تھی۔ اسد پیدا ہوا تو میں ضعیف گل محمد کو چوک شہیداں سے گاڑی میں لایا اور اسد کی ''جھنڈ‘‘ اتروائی۔ بوڑھے گل محمد نے ایسی مہارت سے کام کیا کہ اسد کی آنکھ بھی نہ کھلی اور کام ختم ہوگیا۔
قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج یہ کس قسم کا کالم ہے؟ اگر گیس آ رہی ہوتی تو شاید میں کوئی اور کالم لکھتا مگر کل جب میں دیر سے ناشتہ بنانے لگا تو گیس جا چکی تھی۔ اگر آپ کو یہ کالم برا لگا ہے تو اس کا باعث حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ گیس روز بروز ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اپنا غصہ مجھ پر نکالنے کے بجائے حکمرانوں پر تبرا کریں کہ اس کالم کے لکھنے پر مجھے انہوں نے مجبور کیاہے اور ایسے عالم میں ایسا تھکا ہوا کالم ہی لکھا جاسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved