تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     05-01-2016

پاک بھارت تعلقات میں نیا موڑ

پنجابی میں کہتے ہیں ''ڈگی کھوتے توں‘ غصّہ کمہار تے‘‘ (گری گدھے سے غصّہ بے چارے کمہار پر۔) بھارتی حکومت اور فوج تین دن تک چھ دہشت گردوں پر قابو نہ پا سکی جو اس کی نالائقی اور نکمے پن کا ثبوت ہے‘ مگر غصّہ اسے پاکستان پر آ رہا ہے۔ صرف چھ گُھس بیٹھیوں نے تین دن قبل پٹھان کوٹ ائربیس پر دھاوا بولا۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت سات فوجیوں کو تہہ تیغ کیا اور جدید بمبار طیاروں‘ سراغ رسانی کے آلات اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کی کمک کے باوجود قابو نہیں آئے۔ مرگئے گرفتار نہ ہو سکے۔
بھارتی میڈیا نے تو خیر ابتدائی لمحات میں ہی اس کا ملبہ پاکستان اور آئی ایس آئی پر ڈال کر اپنے روائتی خبث باطن کا ثبوت دیا۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بھی اپنی انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی کو چھپانے کے لیے اپنے میڈیا کی تائید کی مگر بھارتی حکومت فی الحال کُھل کر یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ خوفزدہ اس بات سے ہے کہ اگر پاکستان پر الزام تراشی کے بعد یہ ببر خالصہ یا کسی دوسری مقامی تنظیم کی کارروائی ثابت ہوئی تو جگ ہنسائی ہو گی۔ ٹائمز نائو ٹی وی نے تو دہشت گردوں کو سکھ قرار دیا ہے مگر ڈانڈے اس کے متحدہ جہاد کونسل ‘ حزب المجاہدین اور جیش محمد سے ملائے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حزب المجاہدین یا متحدہ جہاد کونسل حملے کی ذمہ دار ہے تو یہ مقبوضہ کشمیر کی تنظیمیں ہیں‘ پاکستان جن کا ذمہ دار نہیں۔بھارتی وزیر دفاع کو پیش کی گئی رپورٹ میں بھی اسے ببر خالصہ اور جیش محمد کی مشترکہ کارروائی قرار دیا گیا ہے مگر یہ مصدقہ اطلاع ‘نہیں اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی۔
حیرت پاکستان میں بھارت کے شردھالوئوں پر ہے جو ابھی تک اس حملے کے تانے بانے پاکستان کی کسی جہادی تنظیم اور اس کی سرپرست آئی ایس آئی سے نہیں ملا سکے۔ کسی گُھس بیٹھیے کا نام اب تک سامنے آیا نہ کارروائی کا مقصد واضح ہوا۔ ائربیس کے اندر بھارتی فضائیہ کا کتنا نقصان ہوا ‘یہ بھی صیغہ راز میں ہے‘ تاہم اس کا رشتہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے دورہ لاہور سے جوڑا جا رہا ہے جو اس لحاظ سے قرین قیاس ہے کہ بھارت میں شیوسینا کے علاوہ کانگریس اور دیگر کئی تنظیمیں اس دورے کے حق میں نہ تھیں جبکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی‘ جس کا سارا کاروبار پاکستان دشمنی پر چلتا ہے‘ دورے سے نا خوش تھی۔خالصتان تحریک بھی دوبارہ جنم لے چکی ہے اور خالصے اپنی جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔
پاکستان کے کسی گروپ کی طرف سے یہ حملہ اس بنا پر بعید ازقیاس ہے کہ ایک تو یہاں جماعت اسلامی کے سوا کسی نے نریندرمودی کے دورے پر اعتراض نہیں کیا جو بہرحال انتہا پسند یا عسکری جماعت نہیں۔ پاکستانی فوج‘ آئی ایس آئی اور اسٹیبلشمنٹ ایک طرف آپریشن ضرب عضب میں اُلجھی ہے ‘دوسری طرف اُسے شرق اوسط میں اُمڈتے ہوئے طوفانوں کے نتائج و مضمرات کا اندازہ ہے جس میں حالیہ ایران سعودی چپقلش کے بعد مزید شدت آئی ہے ‘حتیٰ کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو اپنا دورہ اسلام آباد ملتوی کرنا پڑا اور تیسری طرف وہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے پریشان ہے ‘کیونکہ کسی اور کو ہو نہ ہو پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو خوب احساس ہے کہ اگر طالبان سے افغان حکومت کے مذاکرات جلد شروع اور نتیجہ خیز نہ ہوئے تو قندوز‘ قندھار اور مزارشریف جیسے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے ‘جس کا فائدہ افغانستان میں امن کے دُشمن اور اشرف غنی حکومت کے مخالف اٹھائیں گے‘بطور خاص بھارتی قونصل خانوں سے گہرے روابط رکھنے اور مال بٹورنے والے عناصر۔
پٹھان کوٹ ائربیس اور مزارشریف میں واقع بھارتی قونصلیٹ پر حملہ کسی ایک گروہ کی کارستانی ہے؟ یا انہیں دو الگ الگ واقعات سمجھنا چاہیے؟ وثوق سے کُچھ کہنا مُشکل ہے‘ ٹائمنگ سے تو دونوں کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کا تعلق افغان مسئلہ پر چار فریقی مذاکرات کے علاوہ 16؍جنوری کو ہونے والی پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات سے جوڑنا آسان ہے ۔بھارت اور افغانستان میں پاکستان مخالف اور امن دُشمن عناصر ہرگز نہیں چاہتے کہ خطے میں امن و سلامتی کا ماحول پروان چڑھے اور بنیادی نوعیت کے معاملات طے ہوں‘کیونکہ اس صورت میں پاکستان نہ صرف خطے کے بڑے کھلاڑی کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ بھی دم توڑنے لگتا ہے کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مرکز اور ہمسایہ ممالک میں دراندازی کا ذمہ دار ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستان نے اپنی انتظامی و حربی صلاحیت کا ایک بار پھر سکّہ منوایا ہے جو دوسرے ممالک بالخصوص عالم اسلام کے لیے قابل تقلید مثال ہے ۔دہشت گردی کے مہران ائربیس جیسے کئی واقعات میں پاکستانی فورسز نے چند گھنٹوں میں کامیابی حاصل کر کے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت جیسے بزعم خویش منی سُپرپاور ہونے کے دعویدار ممالک سے برتر ہے۔ پٹھان کوٹ ائربیس پر بھارتی اداروں کی اہلیت و صلاحیت دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سری لنکا اور اردگرد کے دوسرے چھوٹے ممالک سے بھی کم تر اور ناقص ہے۔ پاکستان اگر ہمسایہ ممالک سے مذاکرات کے ذریعے بنیادی نوعیت کے معاملات طے کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو یہ اس کی شکست و ریخت کے خواب دیکھنے والے عناصر کے لیے سوہان روح واقعہ ہو گا‘ لہٰذا سازشیں جاری ہیں اور پٹھان کوٹ واقعہ اسی سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے۔ بھارتی حکومت اگر دانشمندی کا مظاہرہ کرے اور نریندرمودی اپنی وزیر خارجہ سُشماسوراج‘ مشیر سلامتی اجیت دول اور وزیر دفاع کے سامنے پیش کی گئی بے سروپا رپورٹوں کے بجائے حقیقت پسندی سے صورتحال پر غور کریں تو وہ بآسانی اپنی بُکل میں چھپے چور کا سراغ لگا سکتے ہیں جو پاکستان اور نریندرمودی دونوں کا مشترکہ دُشمن ہے۔
پاکستان کے لیے اب درد سر بھارت اور افغانستان سے زیادہ شرق اوسط کے حالات ہیں جنہیں شیخ النمر کو سزائے موت نے آتش فشاں بنا دیا ہے۔ سعودی عرب نے انصاف کا بول بالا اور دہشت گردی کا مُنہ کالا کرنے کا اہتمام عین اس وقت کیا جب یمن کی وجہ سے ایران سعودی تعلقات میں سردمہری آخری حدوں کو چُھو رہی تھی جبکہ 34 رکنی اتحاد کی وجہ سے بھی باہمی شکوک و شبہات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ حسب توقع ایران کا ردعمل عوامی اور سرکاری سطح پر شدید تھا؛ چنانچہ سعودی عرب نے بھی باہمی تعلقات منقطع کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کی ۔گویا سعودی حکمران اسی انتظار میں تھے ؛تاہم میری ناقص رائے میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار پاکستان ہو گیا ہے جہاں داعش کے نقش قدم صاف نظر آنے لگے ہیں اور آپریشن ضرب عضب سے خائف عناصر کے سوکھے دھانوں پر اوس سی پڑنے لگی ہے ‘چونکہ داعش نے جن حالات سے جنم لیا اور اس کے بیانیے کو جن عوامل و عناصر سے تقویت ملی۔ ان کے سدباب کی کوئی سنجیدہ تدبیر امریکہ و یورپ نے کی نہ ان کے اتحادی عرب ممالک کو ہوش ہے‘ اس لیے فساد بڑھ رہا ہے اور اس کا نشانہ وہ مظلوم مسلمان ہیں جن کا کوئی عالم اسلام میں پرسان حال ہے نہ دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد میں فریاد سننے والا۔
عرب ایران تنازع میں ہمارے لیے نجات کی راہ توازن و اعتدال کی وہ پالیسی ہے جو اب تک ہم نے اختیار کی اور اپنے آپ کو شیعہ سنّی فرقہ وارانہ تنازع سے بڑی حد تک بچائے رکھا۔ ہم کبھی لڑائی جھگڑے میں فریق نہیں بنے بلکہ ہمیشہ مفاہمت اور حل کا حصہ بننے پر اصرار کیا جو بہتر ین پالیسی تھی۔ اب شاید صورتحال پہلے سے زیادہ گمبھیر ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم عالمی اتحاد اور دوسری طرف 34 رکنی اتحاد کا حصہ ہیں ‘ لہٰذا دبائو بڑھنے اور عدم توازن سے دوچار ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ مگر ہم اپنے اُصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے دوست ممالک سے یہ بات منوا سکتے ہیں کہ ہم اپنے حصہ کی جنگ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں لڑ رہے ہیں ‘یہ جنگ غیر معمولی اہمیت اور مضمرات کی حامل ہے‘ ہماری طرف سے اسے ہی عالمی و اسلامی اتحاد میں ہماری قابل قدر کنٹری بیوشن سمجھ کر مزید کسی لڑائی میں دھکیلنے سے اجتناب برتا جائے۔ ہم جنگ جیت گئے اور 98 فیصد جیت چکے ہیں تو یہ خطے اور دنیا کے لیے ایک تحفہ ہو گا۔ بھارت کو بھی اس کا احساس ہونا چاہیے کہ طالبان‘ القاعدہ اور داعش کا مقابلہ اس کے بس کی بات نہیں‘ پٹھان کوٹ ائربیس پر نصف درجن افراد نے تین دن تک فوج‘ ائرفورس‘ پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس کا مقابلہ کر کے بہت کُچھ آشکار کر دیا ہے۔ اس اہلیت و صلاحیت اور حکمت عملی کے ساتھ اُن عفریتوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جو دُنیا بھر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے درد سر بن چُکے ہیں۔ پاکستان اس عفریت کے راستے کی مضبوط دیوار ہے جس کا احساس دوستوں‘ دُشمنوں ہر ایک کو ہونا چاہیے۔پاک بھارت مذاکرات کا التوا یا مذاکرات کے ایجنڈے میں پٹھان کوٹ واقعہ کو شامل کرنا انتہا پسندوں کی جیت ہو گی۔ مودی سرکار کو انتہا پسندی پر اپنا غصہ نکالنا چاہیے‘ پاکستان پر نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved