ایک بار پھر پائلو کوئلو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے آدمی انکار کر دے تو قدرت ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔
سیّد مشاہد حسین ان میں سے ایک ہیں، جن کے قول پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ قبل، جب وزیرِ اعظم نے پاک چین تجارتی شاہراہ کے مغربی روٹ کا افتتاح کیا تو سیّد صاحب نے دعویٰ کیا کہ تنازعات طے ہو چکے‘ اب صرف بیانات کی گرم بازاری ہے۔
ابھی ان کے بیان کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک خم ٹھونک کر میدان میں اترے اور انہوں نے یہ کہا: نواز شریف حکومت کے لیے ترقی کا سفر راولپنڈی پہنچ کر تمام ہو جاتا ہے۔ ٹھیک اسی وقت سندھ کے مشیرِ اطلاعات مولا بخش چانڈیو بھی دھاڑے کہ صوبائی خود مختاری پامال کی جا رہی ہے۔ کپتان پر بھی نکتہ چینی کی اور جواب میں ان سے مولا جٹ کا خطاب پایا۔
پرویز خٹک کے جواب میں احسن اقبال کو بات کرنی چاہیے تھی۔ وہ پشاور میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے انہیں ملاقات کرنی ہے۔ ممکن ہے کر چکے ہوں مگر پرنالہ وہیں ہے۔ ملاقات سے ایک دن قبل پرویز خٹک نے تجارتی راہداری پر پشاور میں کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ حسبِ توقع احسن اقبال نے تحریکِ انصاف پر طنز کے تیر برسائے اور کہا کہ اب وہ اقتصادی دھرنے کی طرف مائل ہے۔ اس کے ساتھ ہی دو اور واقعات پیش آئے۔ اوّل یہ کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پرویز خٹک کے موقف کی تائید کر دی اور تائید سے پہلے صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی۔ ثانیاً جماعتِ اسلامی پختون خوا کے ایک لیڈر نے مرکزی حکومت کے خلاف دھرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ سید مشاہد حسین کی وضاحت کہیں ہوا میں گم ہو گئی۔
چند ماہ قبل جھگڑا شرو ع ہوا تو احسن اقبال نے کہا تھا، اگر ان کا موقف غلط ثابت ہو، یعنی بیک وقت اگر مشرقی اور مغربی روٹ
پرکام نہ ہو تو وزارت سے وہ الگ ہو جائیں گے۔ دھند چھٹتی نظر آتی لیکن تین عدد وفاقی وزرا نے ان کے خلاف بیانات داغنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جیسا کہ اعتزاز احسن نے بعد میں کہا: عجیب کابینہ ہے، جس کے وزرا میں سے بعض کی ایک دوسرے سے بول چال ہی نہیں اور کچھ ایک دوسرے کی مذمت اور تردید میں لگے رہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اعتزاز احسن کا خیال یہ ہے کہ نواز حکومت اپنی مدّت پوری نہ کر سکے گی۔ جس دن یہ بات انہوں نے کہی، نام لیے بغیر جناب آصف علی زرداری نے عسکری قیادت کو دھمکایا کہ وہ اسے اقتدار پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک صاحب نے فون کیا ''زرداری صاحب تو اب کھیل ہی میں نہیں‘‘۔ عرض کیا: کھیل میں ہوں یا نہ ہوں مگر اسے بگاڑنے کی استعداد ضرور رکھتے ہیں۔ ایک جہاندیدہ اخبار نویس نے یہ تبصرہ کیا: زرداری صاحب کے پاس ابھی دو پتّے موجود ہیں۔ ایک تو سندھ کارڈ، دوسرا، اپنے کارناموں کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا واویلا۔
یا رب! کس قماش کے سیاستدانوں سے ہمیں واسطہ پڑا ہے۔ سیاست کا اوّلین مقصد یہ ہوتا ہے کہ تنازعات کو سلجھا کر راہِ عمل تراشی جائے۔ ہمیں وہ رہنما نصیب ہوتے ہیں، جو جھگڑے چکا نہیں سکتے، نت نئے پیدا ضرور کر سکتے ہیں۔ سیاست اگر اپنا فرض پورا کرنے میں کام رہے؟ یہ صحافت ہے جو اندمال کرتی ہے۔ صغریٰ‘ کبریٰ الگ کرکے عوام کو یہ بتاتی ہے کہ کس کا موقف درست اور کس کا نا درست ہے۔ مگر پاکستانی صحافت؟ الامان، الامان!
لندن میں مقیم روزنامہ دنیا کے کالم نگار نسیم احمد باجوہ نے ساڑھے تیرہ سال بعد گوانتانامو بے کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے سے رہائی پانے والے مظلوم پاکستانی نژاد برطانوی شہری 46 سالہ عامر شاکر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے بے مثال بہادری، پامردی اور ہمت و حوصلے کا پیکر قرار دیا ہے۔ وہ آدمی جو شبہے میں گرفتار کیا گیا۔ عامر کی بے گناہی اس قدر عیاں تھی کہ وکیل نے کوئی فیس لیے بغیر تیرہ برس تک اس کا مقدمہ لڑا ''حتیٰ کہ انگریز مرد و زن اداکاروں نے بطور احتجاج روزے رکھے‘‘۔ بزرگ نثر نگار نے تجویز پیش کی ہے: ''نہ صرف انصار برنی اور دوسری عوام دوست جماعتیں بلکہ عوامی حقوق کے تمام بڑے علمبردار عامر شاکر کو پاکستان آنے کی دعوت دیں تا کہ ہمارے ملک میں رہنے والے بے خبر لوگوں اور مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والوں کو بتا سکیں کہ اقبالؔ نے مغربی ممالک کے بارے میں یہ کیوں کہا تھا:
چہر روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘
نسیم احمد باجوہ کے آخری الفاظ چونکا دینے والے ہیں: ''اجازت دیجیے کہ یہ کالم نگار (جو علمِ نجوم بالکل نہیں جانتا) وثوق سے پیش گوئی کر سکے کہ امریکہ اور مغربی ممالک سے مالی امداد لینے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں عامر شاکر کو کبھی اپنا مہمان نہ بنائیں گی۔ آخر وہ میرے اچھے مشورے کو مان کر اپنے رزق پر لات کیوں ماریں؟ وہ بے ضمیر تو ہیں، بے وقوف ہرگز نہیں‘‘۔
پرویز خٹک کا دعویٰ یہ ہے: ''تجارتی راہداری کے تمام فوائد پنجاب کو سونپے جا رہے ہیں، جبکہ مغربی روٹ پر گیس، بجلی اور مواصلات کی کوئی سہولت نہ ہو گی‘‘۔ احسن اقبال کا جواب یہ ہے: ابھی تو پختہ سڑکیں تک تعمیر نہیں ہوئیں، سہولتوں کا ذکر کہاں سے آ گیا؟
کیا یہ اس قدر الجھا ہوا معاملہ ہے کہ سلجھایا نہ جا سکے؟ ملک کے معاشی مستقبل کا دار و مدار راہداری منصوبے پر ہے۔ اگر ایک شام وزیرِ اعظم ذاتی طور پر ٹیلی ویژن پہ نمودار ہوں۔ بلا کم و کاست تمام تفصیلات بیان کر دیں؟ اگر وہ عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، سینیٹر سراج الحق اور خورشید شاہ کو اعتماد میں لیں؟ سید مشاہد حسین کے بظاہر ابہام دور کر دینے والے بیان کے باوجود یہیں سے شبہات کے سانپ سر اٹھاتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ آخر کیوں نہیں؟... اور افتخار عارف یاد آتے ہیں۔ ع
کہانی آپ الجھی نہیں، الجھائی گئی ہے
سیاسی مباحث کو الجھانے والوں میں ہم اخبار نویسوں کا کردار کسی سے کم نہیں‘ مگر یہ این جی اوز کے قلمکار: مغرب ایک سو ارب روپے سالانہ ان تنظیموں پر خرچ کرتا ہے۔ آخر کس لیے؟ ان میں سے بعض کو اس قدر معتبر مانا جاتا ہے کہ اخبارات نے اپنے دروازے ان پر چوپٹ کھول رکھے ہیں۔ انہی میں سے ایک نے کہا تھا: ''کشمیر سے ہمارا کیا واسطہ؟ مودی جانے اور کشمیری جانیں‘‘۔ پٹھان کوٹ کے تنازعے میں جس کا بھید کھلنا ابھی باقی ہے، ان میں سے ایک کو اپنے وطن کے بارے میں اس طرح بات کرتے سنا گیا، گویا وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے کسی تنازعے پر بات کر رہا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کھرب پتیوں کی کوئی سرحد ہوتی ہے اور نہ جھنڈا۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے، جس کے بعض لکھنے اور بولنے والوں کا بھی کوئی پرچم اور کوئی سرحد نہیں۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ اپنے وطن سے بے نیاز۔ کوئی انہیں یاد دلانے والا نہیں کہ بے شک اپنے ملک کی محبت میں کذب بیانی اور تعصب سے گریز کرنا چاہیے مگر ایک مردِ معقول کی بنیادی نشانیوں میں سے ایک یہ ہوتی ہے کہ اپنی سرزمین سے اسی طرح وہ محبت کرتا ہو ، جیسے اپنے خاندان سے۔ سچ کہا گیا: ''جس کا کھائے، اس کا گائے‘‘۔
ہاں! مگر اخبارات کو کیا ہوا؟ ہاں! مگر حکومت کو کیا ہوا کہ ان میں سے بعض کی ڈٹ کر سرپرستی فرماتی ہے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں مغرب اور بھارت کا مقدمہ لڑنے والے زیادہ بے باک ہیں۔ خود اپنے وطن کا مقدمہ پیش کرنے وا لے شرمائے لجائے سے پھرتے ہیں۔
ریاست کی ایک تقدیس ہوتی ہے، گھر کی چار دیواری کی طرح۔ ہمارے ہاں مگر مدتوں سے یہ ہے کہ بھارت کے بھانڈ، میراثی اور ڈوم لاہور تشریف لاتے ہیں۔ ان کے اعزاز میں تقریبات برپا ہوتی ہیں۔ وہ ارشاد کرتے ہیں کہ دونوں اقوام اصل میں ایک ہیں۔ بس ایک لکیر نے انہیںبانٹ دیا ہے۔ لکیر؟ اس قماش کے بھارتی مہمانوں کے سامنے بچھے جانے والے دانشوروں کی تقریبات میں گاہے وزیرِ اعظم تشریف لے جاتے ہیں اور انہی کی بولی بولتے ہیں۔ یا للعجب، یا للعجب!
نفرت، تعصب اور دشمنی بے شک بہت ہی بری چیزیں ہیں مگر اپنے وجود، اپنی شناخت سے انکار؟ کتنے زمانے بیت گئے، مسلم برصغیر کا احساسِ کمتری دور ہونے میں نہیں آتا۔ عجیب قوم ہے۔ اقبال ؔاور قائدِ اعظم ایسے عظیم رہنمائوں کو سموچا نگل گئی اور تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی ہے۔
یہ ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود اور شناخت پہ اصرار کرے۔ المیہ شاید یہ ہے کہ باڑ ہی کھیت کو کھا رہی ہے۔
ایک بار پھر پائلو کوئلو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے آدمی انکار کر دے تو قدرت ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔